1

رمضان المبارک کے دسویں دن کی دعا اور شرح

  • News cod : 54672
  • 21 مارس 2024 - 2:36
رمضان المبارک کے دسویں دن کی دعا اور شرح
حضور اکرم (ص) نے مقرب اولیاء کے بارے میں فرمایا کہ سب سے مقرب ترین بندے علی علیہ السلام اور ان کے پیروکار ہیں۔

رمضان المبارک کے دسویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں: اے اللہ، مجھے اس مہینے میں تجھ پر بھروسہ کرنے والوں میں سے قرار دے اور مجھے اپنے ہاں کامیاب ہونے والوں کے زمرے میں شامل کر، مجھے اپنے مقرب بندوں میں سے قرار دے۔ تجھے تیرے فضل و احسان کی قسم، اے حق کے متلاشیوں کی منزل مقصود۔

«اَللّهُمَّ اجْعَلْنی فیهِ مِنَ الْمُتَوَکِّلینَ عَلَیکَ وَاجْعَلْنی فیهِ مِنَ الْفاَّئِزینَ لَدَیکَ وَاجْعَلْنی فیهِ مِنَ الْمُقَرَّبینَ اِلَیکَ بِاِحْسانِکَ یا غایهَ الطّالِبینَ»

زندگی میں کبھی کبھی انسان کو خالی اور بے وقعت چیزوں سے لگاؤ ​​ہو جاتا ہے اور انہی میں اپنا آپ کھو کر دوسری چیزوں سے بالکل کٹ جاتا ہے۔ لیکن جب اس پر سارے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے قریبی دوستوں اور رشتہ داروں سے امیدیں کھو بیٹھتا ہے تو اچانک ہوش میں آتا ہے۔ یہیں سے وہ ایک محفوظ اور مستحکم پناہ گاہ کا رخ کرتا ہے۔ ایسی جائے پناہ جو تمام بندوں اور بے سہاروں کی آخری منرل اور منتہائے مقصود ہے۔

“توکل” ایک بلند مقام ہے جو انسان دنیا و مافیہا کو بھلا کر صرف اللہ پر بھروسہ کرنے کے ذریعے حاصل کرتا ہے اور خد کی پناہ میں آجاتا ہے۔ خدا کی ابدی قدرت پر بھروسہ انسان کو ایسی ناقابل تسخیر طاقت عطا کرتا ہے کہ اس کی باتیں خدا کے دشمنوں کے دلوں کو ہلا دیتی ہیں۔

دعا کے دوسرے حصے میں ہم کہتے ہیں: خدایا! اس دن، مجھے اپنے نجات پانے والوں میں سے قرار دے

لفظ “فوز” کا مطلب نجات اور کامیابی ہے جس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ انسانی وجود نقص سے کمال کے مرحلے تک پہنچتا ہے جہاں انسان اپنے آپ کو کامیاب دیکھتا ہے۔

اس دنیا میں ہر کوئی اپنی خوشی اور کمال کو کسی نہ کسی چیز میں دیکھتا ہے اور اسے اپنے لیے ایک آئیڈیل بنا لیتا ہے۔ خوشحالی اور راحت، طاقت، پیسہ، مکان، گاڑی، صحت مند بچے اور اچھی بیوی کچھ لوگوں کے لیے خوشی اور کمال کی بلندی سمجھی جاتی ہے۔ جبکہ قرآن کریم ان سب چیزوں کو دنیا کی زندگی کی زینت سمجھتا ہے۔ یہ چیزیں آخرت اور ابدی زندگی کی سعادت تک پہنچنے کا ذریعہ یا ایک پل اور راستہ ہوسکتی ہیں۔ لیکن کمال نہیں ہو سکتیں۔

چنانچہ امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہما السلام نے محراب عبادت میں “فزت و رب الکعبہ” کا نعرہ لگایا۔ یعنی آپ شہادت کو اپنی نجات اور سعادت کی چوٹی سمجھتے تھے۔

زیارت جامعہ کبیرہ میں ہم پڑھتے ہیں: جو شخص ائمہ ہدی علیہم السلام کی پیروی کرے گا وہ کامیابی اور کامل سعادت حاصل کر لے گا۔

حضرت علی علیہ السلام نے اپنے خطبہ شعبانیہ کے آخر میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ رمضان کے مقدس مہینے میں سب سے افضل اعمال کونسے ہیں؟حضرت نے فرمایا کہ بہترین عمل خدا کی معصیت سے بچنا ہے۔

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گریہ فرمایا تو علی علیہ السلام نے پوچھا کہ یا رسول اللہ آپ گریہ کیوں کر رہے ہیں؟ آنحضرت ص نے فرمایا کہ اے علی! گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ نماز کی حالت میں وہ (شقی) آپ کی پیشانی مبارک پر ضربت لگا رہے ہیں اور آپ کے محاسن خون سے رنگین ہورہے ہیں۔

علی علیہ السلام نے پوچھا: یارسول اللہ پھر کیا اس وقت میرا دین محفوظ ہوگا؟ رسول اکرم ص فرمانے لگے: جی ہاں جس نے تمہیں قتل کیا اس نے مجھے قتل کیا اور جس نے تم سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی، کیونکہ تم مجھ سے ہو۔

اس روایت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے محراب عبادت میں “فزت و ربّ الکعبة” کیوں کہا؟

کیونکہ اللہ تعالیٰ سچوں کے اجر کے بارے میں فرماتا ہے: خدا ان سے راضی ہے اور وہ لوگ خدا سے راضی ہیں اور یہی سب سے بڑی نجات اور کامیابی ہے۔

پس سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ خدا انسان سے راضی ہو اور وہ بھی اپنے رب سے راضی ہو۔

رمضان المبارک کے دسویں دن کی دعا کے آخری حصے میں ارشاد ہے: خدایا! اس دن مجھے اپنے مقربین میں سے قرار دے۔ تیرے احسان کی قسم، اے حق کے متلاشیوں کے منتہائے مقصود!

دعا کے اس حصے میں لفظ “قرب” سے مراد قربت ہے اور خدا کا قرب یہ ہے کہ انسان اس کائنات کو خدا کے محضر میں سمجھتا ہے اور اس کے حضور گناہ نہیں کرتا اور مقام بندگی کو ہمیشہ یاد رکھتا ہے۔ آیات الٰہی، ائمہ معصومین علیہم السلام اور خدا کے اولیاء سب “قرب” کے لئے رہنما اور حضرت باری تعالیٰ سے قربت اور تعلق کی علامت ہیں۔

اس لیے ان کا قرب بھی ایک لحاظ سے خدا کا قرب ہے۔ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اولاد سے قربت اور خلوص دل سے محبت جو خدا کی ولایت اور دوستی کا ذریعہ اور ایک قسم کا قرب ہے۔

جیسا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “فاطمہ میرے جسم کا ایک حصہ ہے۔ جس نے اس کو ٹھیس پہنچائی اس نے مجھے ناراض کیا اور جس نے مجھے ٹھیس پہنچائی اس نے خدا کو ناراض کیا۔

قرآن کریم نے “مقربین ” کا تعارف اس طرح کرایا ہے کہ خدا کے قریبی بندے نہ صرف ایمان بلکہ اپنے اعمال، انسانی صفات اور اخلاق میں بھی ہمیشہ آگے ہوتے ہیں۔ وہ عوام کے لئے رول ماڈل اور رہنما ہیں اور اسی وجہ سے انہیں خدا کے مقرّب بندے سمجھا جاتا ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرب اولیاء کے بارے میں یہ فرمایا: جبرائیل علیہ السلام نے مجھ سے کہا: سب سے مقرب ترین بندے علی علیہ السلام اور ان کے پیروکار ہیں، جو جنت کی طرف سبقت رکھنے والے اور خدا کی عطا کردہ عزت و سربلندی کی وجہ سے اس کے مقرب ترین بندوں میں سے ہیں۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=54672

ٹیگز