4

امام خمینیؒ کی استقامت، قرآنی آیات کی عملی تصویر

  • News cod : 34927
  • 03 ژوئن 2022 - 12:49
امام خمینیؒ کی استقامت، قرآنی آیات کی عملی تصویر
پائیداری اور مزاحمت کی خصوصیت، یہ وہ چیز ہے جس نے امام کو ایک مکتب فکر کی شکل میں، ایک نظرئے کی حیثیت سے، ایک فکر کے طور پر، ایک راستے کے طور پر متعارف کرایا۔

پائیداری اور مزاحمت کی خصوصیت، یہ وہ چیز ہے جس نے امام کو ایک مکتب فکر کی شکل میں، ایک نظرئے کی حیثیت سے، ایک فکر کے طور پر، ایک راستے کے طور پر متعارف کرایا۔

میں جب امام کی اس خصوصیت کے بارے میں سوچتا ہوں اور قرآنی آیات پر نظر ڈالتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ امام نے حقیقت میں اپنی اسی استقامت و مزاحمت کے ذریعے قرآن کی بہت سی آیتوں کی عملی تصویر پیش کی۔ مثال کے طور پر قرآن کریم کی یہ آیت کہتی ہے؛ «فَلِذالِکَ فَادعُ وَاستَقِم کَما اُمِرتَ وَ لا تَتَّبِع اَهواءَهُم» دھمکی، لالچ اور فریب کی کوششوں کا امام پر کبھی کوئی اثر نہ ہوا۔ ایسا نہیں تھا کہ امام کو دھمکی نہیں دی گئی، لالچ نہیں دیا گيا یا فریب دینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ کیوں نہیں، یہ سب ہوا لیکن امام خمینی پر ان کوششوں کا رتی برابر بھی اثر نہیں ہوا، ان کی استقامت و مزاحمت پر ذرہ برابر بھی اس کا اثر نہیں پڑا۔

مزاحمت سے مراد کیا ہے؟ مزاحمت سے مراد یہ ہے کہ انسان نے کسی راستے کو چنا ہے جسے وہ حق کا راستہ سمجھتا ہے، صحیح راستہ مانتا ہے۔ اس راستے پر وہ اپنا سفر شروع کر دے اور راستے کی رکاوٹیں اسے پیش قدمی جاری رکھنے اور سفر سے روک نہ پائیں۔ یہ مزاحمت و استقامت کا مفہوم ہے۔ مثال کے طور پر کبھی کسی راستے میں انسان کے سامنے سیلابی طوفان آ جاتا ہے، کوئی گڑھا آ جاتا ہے، یا کوہستانی علاقے میں کسی چوٹی پر پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے اور راستے میں کوئی بڑی چٹان آ جاتی ہے۔ کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں کہ جب چٹان سامنے آ جائے یا کوئی اور بڑی رکاوٹ آ جائے، کوئی چور موجود ہو، کوئی بھیڑیا موجود ہو تو وہیں سے قدم واپس کھینچ لیتے ہیں، سفر جاری رکھنے کا ارادہ ترک کر دیتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ ہیں جو ایسا نہیں کرتے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ کہیں سے گھوم کر اس چٹان سے آگے بڑھنے کا راستہ ہے یا نہیں۔ اس رکاوٹ سے نمٹنے کا طریقہ کیا ہے؟ وہ اس راستے کو تلاش کر لیتے ہیں، اس رکاوٹ کو دور کرتے ہیں یا پھر دانشمندی سے کام لیتے ہوئے گھماؤ دار راستے پر چل کر اس رکاوٹ کو عبور کر لیتے ہیں۔ مزاحمت و استقامت کا یہی مطلب ہے۔ امام خمینی ایسے ہی تھے۔ آپ نے ایک راستہ چن لیا تھا اور اس راہ پر گامزن تھے۔ یہ راستہ کیا تھا؟ امام کی بات کیا تھی جس پر آپ استقامت و ثابت قدمی کا مظاہرہ کر رہے تھے؟ امام کا موقف تھا دین خدا کی حکمرانی، دین خدا کی حاکمیت، مسلمانوں پر اور عوام کی عمومی زندگی پر مکتب الہیہ کی حکمرانی۔ یہ امام کا موقف تھا۔

یہ بھی ظاہر ہے کہ دنیا کی جابر قوتیں اس موقف اور اس روش کی مخالف ہیں۔ دنیا کا استکباری نظام ظلم پر استوار ہے۔ جس وقت امام خمینی نے اس تحریک کا آغاز کیا اس وقت دو سال سے مغربی حکومتیں دنیا کے گوشہ و کنار میں، ایشیا میں، افریقہ میں، مختلف ممالک میں قوموں کو اپنے بے تحاشا مظالم کے نشانے پر رکھے ہوئے تھیں۔ انگریزوں نے ہندوستان اور اس علاقے کے دیگر ممالک میں، فرانسیسیوں نے افریقا میں، الجزائر اور دیگر ممالک میں، بعض دیگر یورپی ممالک نے دوسرے گوناگوں ملکوں میں آشکارا طور پر ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ ظاہر ہے اس نعرے سے ان طاقتوں کا برافروختہ ہونا لازمی تھا۔

یہ مزاحمت رفتہ رفتہ اسلامی جمہوریہ کی حدود سے باہر نکلی۔ ایسا نہیں تھا کہ ہم اس مزاحمت کو ایک فکر اور نظرئے کے طور پر باہر پھیلا رہے تھے جیسا کہ بعض سیاسی رہنما اور دیگر افراد گوشہ و کنار میں اعتراض کرتے ہیں کہ آپ انقلاب کو برآمد کرنے کی فکر میں کیوں ہیں؟! ہم انقلاب کو ایکسپورٹ نہیں کر رہے ہیں۔ انقلاب ایک فکر ہے، ایک نظریہ ہے، ایک راستہ ہے، اگر کوئی قوم اسے پسند کرنے لگے تو وہ قوم خود بخود اسے اپنا لے گی۔

امام نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ امام نے ہیجان زدہ ہوکر یہ راستہ نہیں چنا، جذبات و احساسات کے بہاؤ میں اس راستے کا انتخاب نہیں کیا۔

اس منطقی فکر کا ایک پہلو یہ ہے کہ مزاحت جبر و زیادتی پر ہر با وقار اور آزاد منش قوم کا فطری رد عمل ہوتا ہے۔ اس کے لئے کسی اور وجہ کی ضرورت نہیں ہے۔ جو قوم بھی اپنے وقار کو، اپنے تشخص کو، اپنی انسانیت کو خاص ارزش و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے، اگر وہ محسوس کرے کہ اس پر کوئی چیز مسلط کی جا رہی ہے تو ضرور مزاحمت کرتی ہے۔

دوم: مزاحمت کی صورت میں دشمن پسپائی پر مجبور ہوتا ہے، ہتھیار ڈال دینے کی صورت میں ایسا نہیں ہوتا۔ جب دشمن آپ سے زبردستی کا برتاؤ کرے اور آپ ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں تو وہ آگے آ جائے گا، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اس کو آگے بڑھنے سے روکنے کا راستہ یہ ہے کہ آپ اپنی جگہ ڈٹ جائیے! دشمن کے بے جا مطالبات، غنڈہ ٹیکس وصولی اور باج خواہی کے مقابلے میں مزاحمت و استقامت دشمن کی پیش قدمی روکنے کا موثر طریقہ ہے۔ لہذا کفایتی روش مزاحمت کی روش ہے۔

مزاحمت کی منطق کا تیسرا پہلو وہ چیز ہے جسے میں نے ایک دو سال قبل اسی جلسے میں ذکر کیا اور وہ یہ ہے کہ مزاحمت و استقامت کی ایک قیمت ادا کرنا ہوتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ اس کی کوئی قیمت نہ چکانی پڑے لیکن دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کی جو قیمت ہے وہ استقامت و مزاحمت کی صورت میں چکائی جانے والی قیمت سے کہیں زیادہ ہے۔ جب آپ دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو آپ کو ایک قیمت چکانی پڑتی ہے۔ آج سعودی حکومت پیسہ بھی دیتی ہے، ڈالر بھی ادا کرتی ہے، امریکہ کے اشارے پر اپنا موقف طے کرتی ہے، لیکن پھر بھی اسے توہین برداشت کرنا پڑتی ہے، اسے دودھ دینے والی گائے کہتے ہیں! مصالحت کر لینے، ہتھیار ڈال دینے، مزاحمت نہ کرنے کی قیمت مزاحمت و استقامت کرنے کی قیمت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ مادی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے اور معنوی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔

اسلامی جمہوری نظام میں جس مزاحمتی مکتب فکر کی بنیاد ہمارے بزرگوار امام نے رکھی اس کا چوتھا پہلو اور چوتھا عنصر یہ قرآنی حصہ اور اللہ کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں مکرر یہ وعدہ کیا ہے کہ اہل حق اور حق کے طرفداروں کو حتمی فتح ملے گی۔ اس مفہوم پر قرآن کی بہت سی آیتیں دلالت کرتی ہیں۔ ممکن ہے کہ انھیں قربانی دینی پڑے لیکن اس مقابلے میں آخر میں انھیں شکست نہیں ہوتی بلکہ وہ فتحیاب ہوتے ہیں۔ قربانی برداشت کرنی پڑتی ہے لیکن ناکامی برداشت نہیں کرنی پڑتی۔

پانچواں نکتہ جو مزاحمتی منطق کے تعلق سے مد نظر رکھنا چاہئے، چنانچہ امام خمینی رحمۃ اللہ بھی اسے مد نظر رکھتے تھے اور ہم بھی اسے جانتے ہیں، سمجھتے ہیں اور تخمینہ لگاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ مزاحمت ایک ممکن عمل ہے۔ ان لوگوں کی غلط سوچ کے بالکل بر خلاف جو کہتے ہیں اور پرچار کرتے ہیں کہ “جناب! کوئی فائدہ نہیں ہے۔ آپ کیسے مزاحمت کریں گے؟ فریق مقابل تو بہت بڑا غنڈہ ہے، بہت طاقتور ہے۔” یہی سب سے بڑی بھول ہے، سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ کوئی یہ تصور کر لے کہ دنیا کی جابر قوتوں کے مد مقابل مزاحمت نہیں کی جا سکتی، ان کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اندازے کی غلطی ہے۔ کسی بھی مسئلے میں تخمینے کی غلطی وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں ہم اس قضیئے کے گوناگوں عوامل اور پہلوؤں کو دیکھ نہیں پاتے۔ جب ایک مقابلے کی بات ہو رہی ہے، دو محاذوں کے تصادم کی بات ہو رہی ہے تو اندازے کی غلطی اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ ہم اپنے محاذ سے بھی بخوبی واقف نہیں ہیں اور دشمن محاذ کو بھی اچھی طرح نہیں پہچانتے۔ اگر ہمیں شناخت نہیں ہے تو اندازہ لگانے میں بھی ہم سے ضرور غلطی ہوگی۔ اگر ہمارے پاس صحیح شناخت ہو تو ہمارے تخمینے الگ ہوں گے۔ میں یہی عرض کر رہا ہوں کہ دنیا کی جابر قوتوں کے مقابلے میں مزاحمت کے مسئلے میں اندازہ اور تخمینہ لگائیں تو ضروری ہے کہ ان قوتوں کے حقائق کا ہمیں صحیح علم ہو اور ہمیں اپنے حقائق سے بھی پوری آگاہی ہو۔ ان حقائق میں سے ایک مزاحمتی محاذ کی طاقت ہے۔

امام خامنہ ای

4 جون 2019

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=34927