8

انقلاب اور رہبر سے تجدید عہد

  • News cod : 42143
  • 30 دسامبر 2022 - 16:57
انقلاب اور رہبر سے تجدید عہد
یہ واقعہ کیا تھا اور تاریخ کیوں بن گیا؟ 1388 شمسی بطابق 2009ء ایران کے اسلامی انقلاب کی تاریخ کے چند مشکل لمحات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ دسویں صدارتی انتخابات کے دوران امیدواروں کے سنجیدہ اور شفاف مقابلے نیز عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت نے سیاسی نظام پر لوگوں کے اعتماد میں اضافہ اور اس کے نتیجے میں اسلامی جمہوریہ کی عزت و وقار کو سربلندی ملی۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

9 دی 1388 شمسی بمطابق 30 دسمبر2009ء کا تاریخ ساز دن انقلاب اسلامی کی پیشرفت و ترقی کی تاریخ میں ایک اہم ترین دن شمار ہوتا ہے، اسے ایران میں یوم بصیرت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن انقلاب اسلامی کی تاریخ میں ایک ایسا یادگار واقعہ رونما ہوا، جس میں ایرانی قوم نے باشعور اور کثیر موجودگی کے ساتھ امام خمینی اور رہبر انقلاب کے نظریات سے تجدید بیعت کرتے ہوئے دشمنوں کی نظام اور انقلاب پر حملہ کرنے کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ ایک ایسا واقعہ جو رہبر معظم کے بقول، ایران کے دیانتدار اور غیرت مند عوام کی بصیرت اور ہوشیاری کا مظہر تھا اور جس نے دشمن کے تمام تخمینوں کو خاک میں ملا دیا۔

یہ واقعہ کیا تھا اور تاریخ کیوں بن گیا؟
1388 شمسی بطابق 2009ء ایران کے اسلامی انقلاب کی تاریخ کے چند مشکل لمحات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ دسویں صدارتی انتخابات کے دوران امیدواروں کے سنجیدہ اور شفاف مقابلے نیز عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت نے سیاسی نظام پر لوگوں کے اعتماد میں اضافہ اور اس کے نتیجے میں اسلامی جمہوریہ کی عزت و وقار کو سربلندی ملی۔ تاہم، کچھ امیدواروں اور ان کے غیر ملکی حامیوں کی طرف سے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی اور دھوکہ دہی کے الزام نے ایک نئی صورت حال پیدا کر دی۔ مخالفین نے قانونی راستہ اختیار کرنے کی بجائے تہران کی سڑکوں پر احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا، جو غیر ملکی میڈیا کے پروپیگنڈہ کے لیے ایک مناسب موقع بن گیا۔

ایرانی صدارتی انتخابات اور سڑکوں پر ہونے والے مظاہرے کئی ماہ جاری رہے، دھوکہ دہی کے دعویداروں نے سڑکوں پر اپنی موجودگی سے حکومت پر دباؤ ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ انتخابات کے نتائج پر احتجاج کرنے والے رہنماؤں بالخصوص شکست خوردہ صدارتی امیدوار میر حسین موسوی نے نہ صرف اپنے بعض حامیوں کے منفی اقدامات پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا بلکہ بعض بلوائیوں کی طرف سے قابل احترام مذہبی اور سیاسی اقدار اور علامتوں کی توہین پر بھی مکمل خاموشی اختیار کی، بلکہ بہت سے معاملات میں ان منفی اقدامات کو جائز قرار دیا۔ ان گستاخیوں کا عروج عاشورہ کا دن تھا۔ اس دن ایک واقعہ پیش آیا، جس میں سیدالشہداء (ع) کے ماتمی جلوس کے خلاف جسارت کی گئی اور سڑکوں پر آنے والے حسینی عزاداروں کو زدوکوب کیا گیا۔

عاشورا کی بے حرمتی کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا، جو آسانی سے گزر جاتا۔ عاشورہ کے تقدس کی بے حرمتی پر ایران بھر میں کھلبلی مچ گئی۔ اس ہنگامے کا نتیجہ 9 دی کے تاریخی اجتماع کی صورت میں ظہور پذیر ہوا۔ ایک عوامی حماسہ تھا، جو عاشورہ کے صرف 3 دن بعد پورے ایران میں پھیل گیا۔ اس دن ایران کے عوام انقلاب کے نظریات کی حمایت میں فتنہ پرستوں کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ ایران کے بابصیرت اور انقلابی عوام، انقلاب اور اسلام کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے 30 دسمبر کو فتنہ پرستوں سے مکمل برآت کا اعلان کیا۔ عوام نے دینی قیادت، ولی فقیہ اور انقلابی نظریات کی حمایت کے لئے ایک شاندار اور یادگار مظاہرے کا آغاز کیا۔ یہ وہ دن تھا، جس سے مغربی ممالک کے سربراہان اور فتنہ پرستوں کو شدید صدمہ پہنچا تھا۔ 30 دسمبر 2009ء کو عاشورا حسینی کی بے حرمتی کی مذمت کے لیے ایرانی عوام کا ملک گیر ملین مارچ سڑکوں پر امڈ آیا۔ بعض صوبوں میں لوگوں نے سخت احتجاج بھی کیا۔ ان اجتماعات میں عوامی شرکت کا تخمینہ 40 ملین افراد سے زائد تھا۔

غیر ملکی میڈیا نے اپنی سیاست اور دوسرے لفظوں میں اپنے شکوک و شبہات کے مطابق، اس دن کے بارے میں رپورٹنگ کی اور عوام کی عظیم موجودگی اور بے مثال شرکت کو کم دکھانے کی کوشش کی۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے اس ملین مارچ میں لاکھوں ایرانیوں کی موجودگی کا ذکر نہیں کیا، لیکن اس اجتماع کے بارے میں اپنی رپورٹ میں یہ ضرور لکھا کہ مارچ کرنے والوں نے اسلامی جمہوریہ ایران سے وفاداری کا حلف اٹھایا اور مظاہرین نے قائد حزب اختلاف کے خلاف نعرے لگائے۔” العربیہ ٹی وی چینل، جس نے انتخابات کے بعد کے دنوں میں چھوٹے چھوٹے اجتماعات کا بڑے پیمانے پر خیرمقدم کیا تھا اور مسلسل منفی رپورٹوں کے ذریعے ایران کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، تیس دسمبر کے اس عظیم اجتماع کے بارے میں شروع میں خاموشی اختیار کی، لیکن آخرکار اس نے ریلی میں ایرانی عوام کی بڑی موجودگی کا اعتراف کیا اور اس ریلی کو حکومتی ریلی قرار دینے کی کوشش کی۔

امریکی نیٹ ورک “اے بی ایس” نے اس بڑے پیمانے پر عوامی موجودگی کو حکومتی حامیوں کا سرکاری مظاہرہ قرار دینے کی کوشش کی اور اس حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا: “موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق یہ مارچ حکومت کی طرف سے منعقد کیا گیا ہے اور اس میں تہران کے مضافات کے چھوٹے شہروں اور دیہاتوں کے سرکاری ملازمین اور دیگر طبقات کے افراد شریک ہوئے۔ امریکی اخبار “نیویارک ٹائمز” نے اپنے ایک اہم مضمون میں 30 دسمبر کے بے مثال اجتماع کے بارے میں کئے گئے تجزیے میں مغرب اور مغربی میڈیا کی طرف سے ایران کی اندرونی پیش رفت سے فائدہ اٹھانے کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے “یہ سوچنا ایک غلط خیال ہے کہ اسلامی جمہوریہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔” اور امریکی صدر براک اوباما نے ایران کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے یہ حربہ استعمال کیا ہے۔” جرمن خبر رساں ادارے نے یہ بتایا کہ ’’ایرانی صدر کے مداحوں نے مظاہرہ کیا۔‘‘ گویا جرمن خبر رساں ادارے نے اس قومی حماسہ اور ایرانی عوام کی انقلاب سے وابستگی کو اندرونی سیاسی لڑائی بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی۔

انقلاب اسلامی کی تاریخ میں 9 دی کے واقعہ کے نتائج
9 دی ماہ، 30 دسمبر کے واقعے میں عوام کی بھرپور شرکت نے اسلامی انقلاب کی تاریخ میں بہت سے ثمرات اور نتائج چھوڑے ہیں، خاص طور پر اس لئے کہ اس دن قوم کے تمام طبقے اور مختلف نسلیں، فتنہ پروروں کا مقابلہ کرنے کے لیے انقلاب کا دفاع کرنے کے لئے میدان میں اتریں۔ ایرانی عوام کے اس اقدام کو دیکھ کر فتنہ پروروں کے غیر ملکی آقا بھی اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے کہ ایرانی عوام اپنے مذہبی و انقلابی عقائد نیز آزادی و خود مختاری کے دفاع میں متحد ہیں۔ اس دن کا ایک اور نتیجہ دشمنوں کی سازشوں کا ایک بار پھر ناکام ہونا ہے۔ درحقیقت 9 دی، 30 دسمبر کے اجتماع نے یہ ظاہر کر دیا کہ استکباری نظام کی سازشیں خواہ کتنی ہی پیچیدہ کیوں نہ ہوں، وہ ملت ایران کے عزم، استقامت اور حوصلے میں کوئی خلل پیدا نہیں کرسکتیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اس سلسلے میں فرمایا: “میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ دشمن اپنے تمام منصوبوں کے باوجود ہمارے لوگوں کو نہیں جانتا، وہ ایرانی قوم کو نہیں پہچانتا، اس نے ایک بار پھر غلطی کی ہے۔ آپ نے دیکھا۔ 2009ء میں ان سے ایک اور غلطی ہوئی۔ انہوں نے بغاوت شروع کی اور کام کو ان جگہوں تک پہنچا دیا، جو ان کے خیال میں بہت تنگ، حساس اور قطعی تھا، (لیکن) اچانک 9 دی، 30 دسمبر 2009ء کی عوامی تحریک نے سب کو حیران و پریشان کر دیا، یہ عوامی تحریک 1979ء کی انقلابی تحریک کی طرح تھی۔

نتیجہ
اسلامی انقلاب کی 44 سالہ تاریخ ایسے سنگ میلوں سے بھری پڑی ہے، جو ملت اسلامیہ کے ذہنوں میں نقش ہیں۔ ان برسوں میں دشمن اور فتنہ پرست ہمیشہ انقلاب اور ایران کی ترقی و خوشحالی کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، لیکن ناکامی ان کا مقدر بنی۔ 2009ء میں صدارتی انتخابات کے بعد کی بغاوت مخالفین کے منصوبوں اور یبرونی حکومتوں کی مداخلت کی واضح مثالوں میں سے ایک تھی، جو ایرانی قوم کی بصیرت اور قیادت کی دانشمندی سے ناکام ہوگئی۔ دسویں صدارتی انتخابات کی درستگی اور رائے دہندگان کی اکثریت کے حقوق کا دفاع، اس کے علاوہ اسلامی انقلاب کے نظریات کے ساتھ عوام کے عہد کی تجدید نو دی، 30 دسمبر کی اہم کامیابیوں اور نتائج میں سے ایک ہے۔ اس دن کی دیگر اہم کامیابیوں میں سے ایک بین الاقوامی میدان میں نظام کے لیے مضبوط اور مستحکم حمایت کا وجود میں آنا ہے۔ انقلاب اسلامی کی تاریخ میں اس اہم دن کی اہمیت کے پیش نظر ہر سال ملک بھر میں مختلف پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس سال بھی یہ تقریب 9 اور 10 دی یعنی 30 اور 31 دسمبر کو ایران کے تمام صوبوں اور شہروں کے مراکز میں منعقد کی جائے گی، اس سال کی تقاریب کا مرکزی نعرہ “رہبر انقلاب کے ساتھ تجدید عہد اور دشمن کی ہائیبرڈ جنگ کا مقابلہ” ہے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=42143