10

اسلام میں روزے کا فلسفہ

  • News cod : 45081
  • 16 مارس 2023 - 7:27
اسلام میں روزے کا فلسفہ
روزہ اسلامی عبادات میں سے ایک اہم عبادت ہے اور اہل ایمان کو سال میں ایک مہینہ روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ ہر سال رمضان مبارک کے مہینے میں اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوے روزہ رکھنا اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ھے ، روزے کے بہت سارے فوائد ہیں.

تحریر : مختار حسین توسلی

روزہ اسلامی عبادات میں سے ایک اہم عبادت ہے اور اہل ایمان کو سال میں ایک مہینہ روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ ہر سال رمضان مبارک کے مہینے میں اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوے روزہ رکھنا اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ھے ، روزے کے بہت سارے فوائد ہیں، ان میں سے کچھ یہ ہیں:-

روزہ انسان کے اندر گناہوں سے بچنے کا عزم پیدا کرتا ہے، یہ بات واضح ہے کہ عام دنوں میں انسان گناہوں کے سلسلے میں اتنا محتاط نہیں ہوتا جتنا رمضان المبارک کے مہینے میں ہوتا ہے، کیونکہ عام دنوں میں انسان کا نفس کسی بھی گناہ کی طرف بہت جلدی مائل ہو جاتا ہے لیکن رمضان المبارک کے مہینے میں وہ ایسا نہیں کر سکتا، اس کی بہت ساری وجوہات ہیں ان میں سے اہم وجہ یہ ہے کہ رمضان المبارک اپنی معنوی فضیلتوں کی وجہ سے اتنا پُرتاثیر ہے کہ اس میں انسان کو گناہ کرنے کی ہمت و جرات نہیں ہوتی ، دوسرے یہ کہ اس مبارک مہینے میں ایک طرف جب سارے لوگ دعا و مناجات اور توبہ و استغفار میں مصروف ہو جاتے ہیں تو ایسے میں اگر کچھ لوگ گناہ کرنا بھی چاہیں تو خدا کے خوف سے نہ بھی سہی بدنامی کے ڈر سے ہمت نہیں کر پاتے ، چنانچہ کوئی بد بخت انسان ہی ایسا ہو گا جو اس بافضیلت مہینے میں بھی گناہ کا ارتکاب کرے ۔

روزہ انسان کے جسم کے اندرونی نظام کی اصلاح کرتا ہے اور جسم کے اندر موجود نقصاندہ فاضل مادوں کو ختم کر دیتا ہے۔

روزے کی وجہ سے ہمیشہ پُر تعیش زندگی گزارنے والے امیر اور دولت مند افراد کو بھوک اور پیاس کی شدت اور تکلیف کا پتہ چل جاتا ہے جس سے ان کے دلوں میں غریب اور نادار افراد کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوجاتا ھے، یہی روزے کا ایک بنیادی فلسفہ ہے۔

اسلام چاہتا ہے کہ معاشرے میں توازن پیدا ہو، یہ تبھی ہو سکتا ہے کہ جب ثروت مند لوگ غریب اور نادار افراد کی مدد کریں، اس کے لئے روزہ بہترین وسیلہ ہے، کیونکہ روزے کی حالت میں پیدا والی بھوک اور پیاس کی وجہ سے ان میں غریبوں سے ہمدردی کا احساس پیدا ہو جاتا ہے، لہذا دولت مند افراد کو چاہیے کہ وہ اس ماہ مبارک میں دل کھول کر غریب اور نادار افراد کی مدد کریں، تاکہ ان کی بھوک اور پیاس ختم ہو آپ کی بھوک اور پیاس وقتی ہے جو رمضان کے گزرنے کے بعد ختم ہو جائے گی لیکن اگر آپ کی وجہ سے کسی غریب کی دائمی بھوک اور پیاس ختم ہو جائے تو یہ عین عبادت ہے۔

ویسے بھی آج کل پوری دنیا میں کرونا وائرس کی جان لیوا وبا پھیلی ہوئی ہے جس کی وجہ سے تمام انسانی معاشرتی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں ایسے حالات میں بہت سارے غریب، نادار اور سفید پوش لوگوں کو آپ اور ہماری مدد کی اشد ضرورت ہے، چنانچہ انفاق فی سبیل اللہ کا اس سے اچھا موقع نہیں ہوسکتا، لہٰذا اپنے اردگرد موجود ضرورت مند افراد پر نظر رکھیں اور دل کھول کر ان کی مدد کریں، یقینا اللہ تعالی رمضان المبارک کی برکت سے کئی گنا زیادہ اجر و ثواب عطا فرمائے گا، جو لوگ غریب اور نادار افراد کی مالی مدد نہیں کر سکتے ان کو چاہیے کہ اس ماہ مبارک میں اپنی خصوصی دعاوں کے چند جملے ان بیچاروں کے حق میں بھی ادا کیا کریں یہ بھی ایک لحاظ سے ان کی معنوی مدد ہے، کیا پتہ آپ کی دعا کی بدولت ان کی مشکلات دور ہو جائیں اور وہ آپ کی طرح آسودہ حال ہو جائیں۔

ایک افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج کل لوگ روزے کے فلسفے کے برخلاف کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، اپنے آپ کو دن میں بھوک اور پیاس سے بچانے کے لئے نجانے کیا کیا تدابیر اور چیزیں استعمال کرتے ہیں کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور دوسروں کو بھی مشورہ دیتے ہیں کہ افطاری اور سحری میں فلاں فلاں چیز استعمال کرو روزہ آرام سے گزر جائے گا، ایسے لوگوں کی خدمت میں گذارش یہ ہے کہ ایسی چیزیں بھی ہیں کہ جن کو استعمال کرنے سے دو دن بھی کچھ نہ کھائیں تو فرق نہیں پڑتا مگر یہ روزہ کہاں سے ہوا ؟ جب بھوک اور پیاس ہی نہ لگے تو روزہ کیسا ؟ روزے سے اگر اس کی بھوک اور پیاس کو نکال دیا جائے تو اس کا فلسفہ ہی ختم ہو جاتا ہے، روزے کا فلسفہ اور مقصد یہ نہیں کہ آپ کو بھوک اور پیاس نہ لگے، یہ بھوک اور پیاس ہی تو ہے جو آپ میں غریبوں کی بھوک اور پیاس کا احساس پیدا کرتی ہے تاکہ آپ میں ان کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔

صوم یعنی روزہ رُک جانے کو کہتے ہیں چناچہ طلوع فجر سے لیکر مغرب تک اپنے آپ کو کھانے پینے اور دیگر چیزوں سے روکے رکھنا باین معنی کہ ہمیں بھوک اور پیاس لگے اور ہم کھانے پینے سے رک جائیں تو یہ روزہ ہے، لیکن اگر بھوک اور پیاس ہی نہ لگے تو اس میں ہمارا کیا کمال ہے؟ پھر تو روزے کا فلسفہ ہی ختم ہو جاتا ہے، غور فرمائیں ۔

بعض افراد ایسے ہیں جو پورا ماہ رمضان سو کر گزارتے ہیں تاکہ بھوک اور پیاس نہ لگے، رات بھر جاگ کر کھاتے پیتے رہتے ہیں اور صبح کی نماز پڑھ کر سو جاتے ہیں ظہرین کی نماز کے لئے بمشکل جاگ جاتے ہیں نماز ظہرین پڑھ کر پھر مغرب تک سو جاتے ہیں، بعض لوگ اتنے نازک مزاج ہیں کہ نماز صبح پڑھ کے لمبی تان کے سو جاتے ہیں اور مغرب سے کچھ دیر پہلے بیدار ہوجاتے ہیں جلدی جلدی نماز ظہرین پڑھ کر افطاری کے دسترخوان پہ بیٹھ جاتے ہیں، یہ روح ِ روزہ کو مجروح کرنے کے مترادف ہے، مولا علی علیہ السلام نے بجا فرمایا کہ بعض روزے داروں کو سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملے گا۔

واضح رہے کہ روزے کے دنوں میں ہمیں اپنے روزمرہ کے معاملات کو انجام دینا چاہیے تاکہ بھوک اور پیاس محسوس ہو اور روزے کا فلسفہ ہی یہی ہے کہ انسان کے اندر اس بھوک اور پیاس کیوجہ سے غریبوں کی بھوک اور پیاس کا احساس پیدا ہو جائے، اس صورت میں انسان کو کربلا والوں کی بھوک اور پیاس کو بھی یاد کر لینا چاہیے، ایسا کرنے سے اس کے اندر خود بخود بھوک اور پیاس کی شدت کو برداشت کرنے کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے ۔

یہاں پے ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ماہ مبارک رمضان میں اپنے روزمرہ معاملات کو متاثر کرکے خانہ نشین ہو کر سو جانا نہ صرف فلسفہ روزہ کے خلاف ہے بلکہ اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہے، ایسا کرنے والے لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم سے مروی ایک حدیث سے غلط استفادہ کرتے ہیں جس میں آپ نے فرمایا : و نَومُکُم عِبَادَة، یعنی رمضان المبارک میں تمہار اسونا عبادت کا درجہ رکھتا ہے” آج کل لوگ کہتے ہیں کہ ہم سب سے ذیادہ یہی عبادت بجا لاتے ہیں یعنی پورا رمضان سو کر گزارتے ہیں۔

یہ در اصل اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان پورا رمضان سو کر گزارے تو اسے عبادت کا ثواب دیا جائے گا، ایسا ہرگز نہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ روزے کی حالت میں اپنے روزمرہ کے معاملات کو انجام دے اگر کہیں تھک کر سو جائے یا رات کو معمول کے مطابق سو جائے تو ایسا سونا عبادت کا درجہ رکھتا ہے، پس ماہ رمضان میں روزہ دار کے سونے کی تین حالتیں ہو سکتی ہیں:-

♦️ انسان رات کو سو جائے اور دن کو معمول کے مطابق اپنے کاموں کو انجام دے، ہاں اگر کہیں تھکاوٹ کی وجہ سے نیند آجائے تو سو جانے میں کوئی حرج نہیں ہے، یقینا ایسا سونا عبادت میں شمار ہو گا۔

♦️ انسان رات کو دعا و مناجات اور عبادت یا علمی بحث و مباحثے میں گزارے اور دن کو سو جائے تب بھی عبادت کا ثواب ملے گا ۔

♦️ انسان رات کو صرف کھانے پینے کے لئے جاگتا رہے یا فضولیات میں مشغول رہے یا فقط دن کو سو کر گزارنے کی غرض سے رات کو جاگتا رہے تاکہ اسے دن میں بھوک اور پیاس نہ لگے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ایسا شخص ثواب سے محروم رہے گا۔

روزہ دار اللہ کے مہمان :

رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم خطبہ شعبانیہ میں فرماتے ہیں :” أَيُّهَا النَّاسُ إنَّهُ قَد أَقبَلَ إلَيكُم شَهرُ اللهِ دُعِيتُم فِيهِ إلى ضِيَافَةِ اللهِ، أَنفَاسُكُم فِيهِ تَسبِيح وَ نَومُكُم فِيهِ عِبَادَة .

یعنی اے لوگو ! تمہاری طرف اللہ کا مہینہ آ رہا ہے جس میں تمہیں اللہ کی مہمانی میں بلایا گیا ہے اس مہینے میں تمہارا سانس لینا تسبیح اور سونا عبادت کا درجہ رکھتا ہے ۔”

توضیح و تشریح:

☆ کسی بھی قسم کی دعوت کے تین بنیادی ارکان ہوتے ہیں، ایک دعوت دینے والا میزبان دوسرے دعوت پہ بلایا جانے والا مہمان اور تیسرے دعوت میں پیش کی جانے والی چیز ۔ میزبان + مہمان + طعام = دعوت

☆ ہر دعوت کی اہمیت اور قدر و قیمت صاحب دعوت کے مقام و منصب کے اعتبار سے کم یا زیادہ ہوتی ہے مثلا کوئی حکومتی وزیر ہمیں اپنے ہاں دعوت پہ بلائے تو ہم بصد شوق جائیں گے ، لیکن اگر وزیراعظم یا صدر ہمیں اپنے ہاں دعوت پہ بلائے تو ہماری خوشی کی انتہا نہیں رہے گی، اسے اپنے لیے باعث فخر سمجھیں گے کہ وزیراعظم یا صدر نے ہمیں مدعو کیا ہے ، ہم چند دن پہلے ہی تیاری میں لگ جائیں گے، بڑے احتمام اور نہایت احتیاط سے جائیں گے اور دوران ِ دعوت اس بات کا خاص خیال رکھیں گے کہ کوئی خلاف مروت کام سرزد نہ ہو، اب آپ خود دیکھ لیں کہ رمضان المبارک میں اللہ رب العزت ہمیں اپنے ہاں دعوت پہ بلا رہا ہے ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ اللہ رب العزت کی ضیافت نصیب ہو رہی ہے اس پورے مہینے میں اللہ تعالی ہمیں اپنی برکت، رحمت اور مغفرت سے نواز رہا ہے لہذا ہمیں اپنے آپ کو ان تمام چیزوں سے بہرہ مند ہونے کا اہل بنانا چاہیے۔

☆ دعوت میں جانے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ میزبان کی خواہشات کا لحاظ کرے اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر اپنی طرف سے کوئی ایسی حرکت نہ کرے جو میزبان کو ناگوار گزرے کیونکہ اس سے اس کی ہتک ہوتی ہے، لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ رمضان المبارک میں اللہ تعالی کے احکامات کا خاص خیال رکھیں کوئی ایسا کام نہ کریں جو اس کی نارضگی کا موجب بنے۔

☆ رمضان مبارک میں اللہ تعالی کی طرف سے دی گئی یہ دعوت صرف کھانے پینے کی حد تک محدود نہیں ہے جو کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے اگرچہ یہ بات بجا ہے کہ اس مبارک مہینے میں ہمارے کھانے پینے کی چیزوں میں بہت برکت آتی ہے ہمیں ایسی ایسی چیزیں کھانے کو مل جاتی ہیں جن کا ہم عام دنوں میں تصور بھی نہیں کر سکتے، لیکن اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ ہم ہر لمحہ اس کی مہمانی میں ہیں چاہے سو رہے ہوں یا جاگ رہے ہوں، لہذا ہمیں چاہیے کہ کسی بھی لمحے میں اس کی معصیت نہ ہو یعنی اس کی نافرمانی سے بچے رہیں۔

☆ ماہ رمضان کی برکت سے تمام شیطانوں کو باندھ دیا جاتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی زنجیر یا رسی سے ان کو باندھ دیا جاتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بافضلت مہینے میں روزہ دار تمام گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں چاہے ان کا تعلق آنکھ سے ہو یا کان سے، ہاتھ سے ہو یا پاوں سے یا پھر ذبان سے، جب روزہ دار ان تمام گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں تو گویا وہ ایک لحاظ سے شیاطین کے بہکاوے میں نہیں آتے، یوں وہ ان کے شر سے محفوظ ہو جاتے ہیں لہذا کوشش کرنی چاہیے کہ دوبارہ گناہوں کی انجام دہی کے ذریعے شیاطین ہم پے مسلط نہ ہوں۔

☆ ماہ مبارک رمضان میں مسلمانوں کا رجحان عبادات کی طرف زیادہ ہو جاتا ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عام دنوں کی بہ نسبت رمضان کے مہینے میں مساجد وغیرہ میں عبادت گزاروں کا رش کافی بڑھ جاتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس بابرکت و با فضیلت مہینے میں کثرت عبادت و بندگی کی وجہ سے انسان کی خواہشات نفسانی دب جاتی ہیں جبکہ اس کی روحانی اور معنوی پہلو کو تقویت مل جاتی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی غالب اکثریت مساجد کی طرف رخ کرتی ہے۔

☆ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے فرمایا کہ: اس مہینے میں تمہارا سانس لینا تسبیح اور سونا عبادت کا درجہ رکھتا ہے، یہ بات نہایت اہم ہے یہاں پہ تسبیح اور عبادت سے مراد ہماری عادّی تسبیح یا عبادت نہیں ہے بلکہ تکوینی تسبیح و عبادت مقصود ہے ہم جو تسبیح پڑھتے ہیں یا جو عبادت بجا لاتے ہیں ممکن ہے کہ اس میں کمی بیشی کی وجہ سے، خضوع و خشوع نہ ہونے کی وجہ سے یا ریا کاری وغیرہ کی وجہ سے اللہ کی بارگاہ میں قبول نہ ہو کیونکہ ہماری سوچ اور فکر پاک نہیں ہوتی ہمارے خیالات پاک نہیں ہوتے لیکن جو تسبیح یا عبادت تکوینی ہوتی ھے یعنی واقع کے مطابق ہوتی ہے وہ سو فیصد قبول ہے لہذا یہاں جس تسبیح اور عبادت کا ذکر فرمایا ہے وہ درحقیقت تسبیح ِ واقعی یا عبادت ِ واقعی ہے کیونکہ سانس لینے اور سونے میں کوئی ریا کاری وغیرہ نہیں ہوتی جب ہم سو رہے ہوں سوچ اور فکر پاک ہوتی ہے ہمارے خیالات پاک ہوتے ہیں چنانچہ پورا پورا ثواب دیا جائے گا۔

☆ ایک اہم بات یہ ہے عام دنون میں جب انسان سو جاتا ہے تو اس کا نامہ اعمال بند ھوتا ہے کیونکہ وہ ابھی سو رہا ہے کوئی نیک یا برا عمل بجا نہیں لا رہا چنانچہ اعمال لکھنے والے فرشتے اس کے نامہ اعمال کو بند کر دیتے ہیں مگر چونکہ رمضان المبارک میں اس کا سونا بھی عبادت ہے تو گویا وہ سوتے ہوئے بھی عبادت میں مشغول ہے لہذا نیک و بد اعمال لکھنے والے فرشتے بھی برابر اس کے نامہ اعمال میں عبادت کا ثواب لکھتے رہتے ہیں، واقعی اللہ بڑا مہربان ہے۔

دعا کہ اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو اس ماہ مبارک رمضان کے فلسفے کو سمجھ کر اس کے فیوضات سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔

(آمین یا رب العامین)

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=45081