8

جنت البقیع کا تاریخی پس منظر

  • News cod : 46798
  • 30 آوریل 2023 - 12:11
جنت البقیع کا تاریخی پس منظر
کسی قوم کی ابتدائی تاریخ کا اندازہ اس کے تاریخی مقامات و آثار قدیمہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ انسانی معاشرے میں کسی قوم کے قدیمی ہونے یا ان کے عقائد کا اندازہ اس کے تاریخی مقامات سے اخذ کرسکتے ہیں۔ دنیا میں جتنی قومیں پائی جاتی ہیں، ان کی مذہبی رسومات کو دیکھ کر ان کی حقیقت کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

جنت البقیع کا تاریخی پس منظر

تحریر : ظہیر عباس

وفاق ٹائمز: اگرچہ یہ گھر جناب عقیل کیساتھ منسوب تھا، لیکن اسی حال میں یہ گھر رسول اللہ (ص) اور خاندان رسول اکرم (ص) کیلئے خصوصی آرام گاہ قرار پایا۔ اس سے پہلے جس شخصیت کو یہاں دفن کیا گیا، حضرت فاطمہ بنت اسد اور حضرت رسول خدا (ص) کے چچا حضرت عباس، انکے بعد آئمہ طاہرین علیہم السلام، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام، حضرت امام زین العابدین علیہ السلام، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام، امام جعفر صادق علیہ السلام اس گھر میں مدفن ہیں۔ رسول اکرم کے دور حیات میں اور کچھ مدت بعد اس گھر کے اوپر ایک بقعہ تھا، حضرت رسول خدا (ص) ایک جگہ پر کھڑے ہو کر اہل قبور کو سلام کرتے تھے اور دوسرے لوگ بھی رسول اکرم (ص) کی پیروی کرتے ہوئے یہاں کھڑے ہوکر بقیع میں مدفون لوگوں کا احترام کرتے تھے۔

کسی قوم کی ابتدائی تاریخ کا اندازہ اس کے تاریخی مقامات و آثار قدیمہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ انسانی معاشرے میں کسی قوم کے قدیمی ہونے یا ان کے عقائد کا اندازہ اس کے تاریخی مقامات سے اخذ کرسکتے ہیں۔ دنیا میں جتنی قومیں پائی جاتی ہیں، ان کی مذہبی رسومات کو دیکھ کر ان کی حقیقت کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ غیر مسلم لوگ بھی اپنی قدیمی تاریخ ثقافت کے بارے میں بخوبی واقف ہوتے ہیں اور ان کی حفاظت کرنا ان کی اولین ترجیح میں شامل ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان جہاں پر بنیادی عقائد کا ذکر ہوتا ہے، وہاں پر تاریخی و ثقافتی آثار خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر قبل از اسلام قوموں کا ذکر کیا گیا ہے، تاکہ مسلمان قبل از اسلام قوموں کی کامیابی و ناکامی کے اسباب کا مطالعہ کرنے کے بعد اسلام ناب محمدی کے مطابق دوسری قوموں سے سبقت حاصل کریں، لیکن بعض علم دشمن جنہوں نے علم سے دوستی کی بجائے اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ دوستی کرکے نہ فقط خود پر ظلم برپا کیا بلکہ اسلام مبین کے سینے پر کاری ضرب سے وار کیا، جس کا اثر رہتی دنیا تک باقی رہے گا، جس کی وجہ سے حقیقی اسلام کے پیروکار لوگوں کی دل آزاری کا سبب بنے ہیں۔

تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو مسلمانوں کے روپ میں حملہ آور ہوتے، وہ دراصل اسلام کے لباس میں اسلام دشمن تھے۔ یہودیوں کے آلہ کار کے طور پر انہوں نے اسلامی ثقافت و آثار پر حملے کیے ہیں۔ جنت البقیع کی بات کرنے سے پہلے دوسرے ممالک و غیر مسلم معاشرے پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں کسی ایک مقام پر بھی کوئی فرد نہیں ملتا، جس نے اپنی ثقافت و تاریخی مقامات پر ظلم برپا کرنے کی داستان لکھی ہو۔ یہ کام فقط مسلمانوں کے نام نہاد مفتیان دیں و مسلمان بادشاہوں کے کارنامے ملتے ہیں۔ ہر معاشرے کی پہچان اس کے قدیمی و تاریخی مقامات ہوتے ہیں اور ان کے بنیادی عقائد کیا ہیں، ہر قوم اپنے تاریخی مقامات کو خاص اہمیت دے کر ان کی حفاظت کرنا اپنی اولین ترجیح سمجھتے ہیں۔ اسلام دشمن عناصر نے جب بھی حملہ آور ہونے کی کوشش کی، وہ ان دو چیزوں سے خالی نہیں ہوگا، دشمن اسلام کے ساتھ مل کر دشمن سے مادی و ذاتی فوائد حاصل کرنے کی خاطر اسلام کو نقصان پہنچایا گیا یا فہم و فراست و بصیرت کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ کارنامے انجام دیئے جاتے رہے ہیں۔

کسی قوم یا مذہب سے اختلافات ہونے کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں، جن میں اس قوم کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ نہ ہونا شامل ہے یا حسد و بغض اور ان کے بنیادی نظریاتی عقائد سے نا آشنائی شامل ہے۔ ان میں سے کسی ایک کو بنیاد قرار دے کر اس ملت و مذہب کے خلاف کئی قسم کا قیام کیا جاتا ہے، جس میں عملی، فکری و مسلحانہ قیام قوموں کی تباہی کا موجب بنتا ہے، اسلام ناب محمدی کے اندر ایسے نظریات کی ہمیشہ نفی کی گئی یے، بلکہ اسلام غیر مسلموں کے ساتھ بھی بہترین انداز میں پیش آنے کا درس دیتا ہے۔ بعض ناعاقبت اندیش لوگوں نے اہل بیت اطہار علیہم السلام کے تاریخی مقامات یا قبور اس لیے ویران کر دیئے کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کی قبور پر لوگ کفر و شرک کرتے ہیں، حالانکہ یہ خود سیرت حضرت رسول اکرم (ص) کے مطابق قبور کی زیارت جائز ہے، بلکہ اجر و ثواب رکھتی ہے۔ ان لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ توسل کرنا یا شفاعت طلب کرنا رسول اللہ (ص) سے بھی غیر خدا کی عبادت میں شمار ہوتا ہے۔ ایسے نظریات ہمیشہ تنگ نظر لوگوں کے ہوتے ہیں، جن کے باس کوئی علمی دلیل نہیں ہوتی۔

اسی تنگ نظری کی بنیاد پر وہ لوگوں کا قتل عام کرتے ہیں۔ گھروں اور تاریخی مقامات کو ویران کرنے کا فقط اعلان نہیں کرتے بلکہ ایسے امور میں نام نہاد مفتیان دیں سے فتوے بھی صادر کرائے جاتے ہیں، تاکہ اس سے اسلام کے حقیقی چہرے کو داغ دار کیا جا سکے۔ ان کے افکار و عقائد خوارج و مذہب حنفی کلام اشعری و ابن تیمیہ سے جا کر ملتے ہیں۔ اسی طریقے سے خود ساختہ مذہب کو پروان چڑھایا گیا ہے۔ وہابیت کے نظریات میں مہم ترین امور میں سے شیعہ مخالفت ہے، اس لیے کہ شیعہ مکتب فکر کے نظریات میں انبیاء علیہم السلام و آئمہ طاہرین علیہم السلام سے توسل کرنا اور شفاعت کا طلب کرنا شامل ہے۔ وہابی نظریات میں رسول اکرم (ص) سے بھی توسل و شفاعت طلب کرنا شرک و کفر سمجھا جاتا ہے۔ ایسے افراد کی ابتداء آج کے دور سے نہیں بلکہ اسلام کے شروع سے ان کا ہونا قابل ذکر ہے۔ خود رسول اکرم (ص) نے کئی مقامات پر ایسے لوگوں کی سرزنش کی ہے، جن میں چند ایک افراد کو یہاں پر ذکر کرتے ہیں، جنہوں نے اسلام کے چہرے کو مسخ کرنے کی ناکام کوششیں کی ہیں۔

امام احمد بن حنبل جن کی ابتداء آٹھویں صدی میں ہوئی ہے اور احمد بن تیمیہ سال 661 تا 728 قمری اس نظریئے کو سر عام بیان کرتا ہے اور قرآن و حدیث کے مخالف قبور کی زیارت کو ممنوع قرار دیتا ہے، قبر کا بوسہ لینا یا قبر کو مسح کرنا شرعاً حرام قرار دیتا ہے۔ ابن تیمیہ کے بعد اس کا شاگرد ابن قیم جوزی 756 قمری اسی موضوع کو آگے بڑھاتا ہے، لیکن ان دونوں کی کوششیں ناکام گزری ہیں۔ ان کے چار قرن بعد ابن تیمیہ و ابن جوزی کی فکر کا پرچم محمد بن عبدالوہاب نجدی بلند کرتا ہے۔ 1115 تا 1206 کے درمیان لوگوں کی زبانوں پر عام کرواتا ہے، اس نے لوگوں کو اپنی طرف جلب کرنا شروع کیا، اسی دوران محمد بن سعود کے ساتھ ایک معاہدہ طے کرتا یے کہ حکومت آپ کے پاس رہے، لیکن آپ کی حکومت میں اس فکر و تنگ نظری کو پروان چڑھنے دیا جائے۔ اسی بنا پر اسلام مبین میں بعض چیزوں میں تحریف کی گئی، جن میں توسل کرنا اور شفاعت مانگنا حرام قرار دیا گیا ہے اور اسی بنیاد پر یہ لوگ ان نظریات میں کامیاب ہوتے ہیں اور قبور کی بے حرمتی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

حکومت آل سعود
وہابی حکومت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جن میں اہل بیت علیہم السلام کی قبور پر ظلم برپا کیا گیا ہے، مختصر بیان کرتے ہیں۔
تاسیس حکومت آل سعود درعیہ
سعودی عرب کے قدیمی شہر ریاض کے شمال میں واقع ہے، جس میں سال 1160 تا 1216 تقریبا 75 سال حکومت کی گئی، جن میں پانچ بادشاہ گزرے ہیں۔ عبدالعزیز بن محمد سعود اور اس کے چاہنے والوں نے 1216 میں کربلا معلیٰ پر حملہ کیا، لوگوں کے قتل عام کے بعد ضریح مطہر امام حسین علیہ السلام کی بے حرمتی کرتے ہوئے توڑ دیا۔ امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کی بے حرمتی کرتے وقت گنبد کو بھی گرا دیا گیا۔ انہوں نے جب سال 1217 میں میں مکہ کا کنٹرول حاصل کیا تو ان کے پاس جہاں پر بھی ضریح یا گنبد ہوتے تھے، ان کو مسمار کر دیا جاتا تھا۔ اسی عمل کو انجام دیتے وقت مدینہ منورہ کی قبور اور جنت البقیع کو مسمار کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی، یہ کام تین دن تک جاری رہا۔ اسلام کے قیمتی ورثہ کو ختم کر دیا گیا۔ دوسری بار عبداللہ بن سعود اور دیگر بادشاہوں کو ساتھ ملا کر کربلا پر لشکر کے ساتھ حملہ آور ہوتا ہے۔ ہزاروں لوگوں کو شہید کرنے کے بعد حرم مطہر و ضریح کو مسمار کر دیتے ہیں، وہاں سے قیمتی اشیاء کو لوٹ لیا جاتا ہے۔

(ب) آل سعود کی پہلی شکست
عبداللہ بن سعود کی حکومت کے دوران امیر مصر محمد علی پاشا اور اس کے بیٹے ابراہیم پاشا کو لشکر کے ساتھ حجاز کی طرف بھیجا جاتا ہے، تاکہ آل سعود و وہابی فکر کو ختم کیا جائے۔ سال 1231 قمری اپنے وظیفے کا آغاز کرتے ہوئے آل سعود کی بادشاہت کو شکست سے دوچار کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد عبداللہ بن سعود اور اس کے خاندان کو قاہرہ طلب کیا جاتا یے، اس کے ذریعے آل سعود و وہابی حکومت کا خاتمہ ہوتا یے۔ تقریبا 80 سال تک دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں آل سعود ناکام رہتے ہیں۔

(ج) آل سعود کا ابتدائی دور جدید
اس دور میں عبدالعزیز بن عبدالرحمن بن فیصل مشہور ابن سعود جس نے سعودی عرب کی بنیاد رکھی اور سعودی عرب کی پہلی بادشاہت کا آغاز ہوتا ہے، اس نے آٹھ شوال 1344 قمری میں عبداللہ بلہید کے فتویٰ کی بنیاد پر نجد کے بزرگ مفتیان سے فتوے صادر کرائے، تاکہ تمام قبور مکہ و مدینہ بالخصوص جنت البقیع کو خاک میں یکساں کیا گیا۔

مختصر تاریخ جنت البقیع
بقیع کا معنی وہ زمین ہے کہ جس پر مختلف درخت ہوں، لہذا اس کو باغ بھی کہا جاتا ہے۔ بعض نے بقیع کو مادہ بقعہ سے لیا ہے کہ جس سے مراد وہ قبریں جن پر بقعہ ہو۔ اس مقام پر یثرب کے لوگوں کا قبرستان تھا اور قبل از اسلام سے لوگ یہاں پر اپنی اموات کو دفن کرتے تھے۔ لیکن اسلام آنے کے بعد یہ جگہ مسلمانوں کے لیے مخصوص کر دی گئی۔ مدینہ منورہ کے لوگ اپنی اموات کو مختلف جگہوں پر دفن کرتے تھے، جن میں قبرستان بنی حرام اور بنی سالم ہیں اور کبھی کبھار لوگ اپنے مرحومین کو گھروں میں دفن کرتے تھے۔ صحابی رسول اکرم (ص) عثمان بن مظعون اور حضرت رسول خدا (ص) کے بیٹے حضرت ابراہیم کو اس مقام پر دفن کرنے کے بعد یہ رسم پیدا ہوئی۔ اسی وجہ سے صحابہ کرام و رسول اکرم (ص) کے دوستوں نے مل کر اس مقام سے جھاڑیوں اور درختوں کو کاٹ کر جگہ صاف کر دی۔ اس جگہ پر اب لوگ اپنی اموات کو دفن کرتے تھے۔

اس دوران صرف حضرت عقیل بن ابو طالب علیہ السلام کا گھر تھا کہ جہاں رسول اللہ (ص) کی توجہ کا مرکز بنا۔ اگرچہ یہ گھر جناب عقیل کے ساتھ منسوب تھا، لیکن اسی حال میں یہ گھر رسول اللہ (ص) اور خاندان رسول اکرم (ص) کے لیے خصوصی آرام گاہ قرار پایا۔ اس سے پہلے جس شخصیت کو یہاں دفن کیا گیا، حضرت فاطمہ بنت اسد اور حضرت رسول خدا (ص) کے چچا حضرت عباس، ان کے بعد آئمہ طاہرین علیہم السلام، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام، حضرت امام زین العابدین علیہ السلام، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام، امام جعفر صادق علیہ السلام اس گھر میں مدفن ہیں۔ رسول اکرم کے دور حیات میں اور کچھ مدت بعد اس گھر کے اوپر ایک بقعہ تھا، حضرت رسول خدا (ص) ایک جگہ پر کھڑے ہو کر اہل قبور کو سلام کرتے تھے اور دوسرے لوگ بھی رسول اکرم (ص) کی پیروی کرتے ہوئے یہاں کھڑے ہوکر بقیع میں مدفون لوگوں کا احترام کرتے تھے

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=46798