6

سلسلہ دروس انتظار – درس 2

  • News cod : 48018
  • 12 ژوئن 2023 - 14:24
سلسلہ دروس انتظار – درس 2
موضوع: انتظار کا معنی و مفہوم، انتظار کا حقیقی معنی احادیث و روایات کی رو سے،انتظار تربیت و کمال پانے کا عمل ، انتظار عالمی حکومت کا پیش خیمہ

استاد محترم آغا علی اصغر سیفی

کتابچہ 8 انتظار
موضوع: انتظار کا معنی و مفہوم، انتظار کا حقیقی معنی احادیث و روایات کی رو سے،انتظار تربیت و کمال پانے کا عمل ، انتظار عالمی حکومت کا پیش خیمہ
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی

خلاصہ:
ہم دورِ غیبت میں ہیں اور اس دور میں ہمارا اہم ترین وظیفہ امام زمانہ ؑ عج کا انتظار ہے۔

انتظار کا مفہوم اور اس کی حقیقیت:

زمانہ غیبت میں شیعان علی ؑ کا عنوان منتظرین ہے۔ یہ غیبت 260 ھ میں شروع ہوئ اور آج تقریباً گیارہ سو چوراسی سال ہو چکے ہیں اور یہ ممکن ہے کہ مذید طولانی بھی ہو سکتی ہے۔

یہ غیبت فقط انتظار سے ختم ہو گی ۔ جب دنیائے اسلام، دنیائے تشیع ، امام کا حقیقی معنوں میں انتظار کریں گے تو یہ غیبت ختم ہو جائے گی۔

بظاہر لوگ کہتے ہیں کہ ہم عبادات، عزاداری اور نیک اعمال کر رہے ہیں تو آیا یہ انتظار نہیں ہے۔
یہ ایمان، اسلام اور تشیع کی رو سے تو عمل ہے لیکن امام زمانہؑ عج کے منتظر کے عنوان سے شائد وہ اعمال نہیں کہ جو مولاؑ کے ظہور کا سبب بنیں گے۔

اسلیے ضروری ہے کہ انتظار کے مفہوم کو سمجھا جائے۔ اور اس پر غور و فکر ہو اور بلآخر جب ہم یہ معرفت حاصل کریں گے کہ امام منتظَر کے منتظرِین کیسے ہونے چاہیے۔ تو یہ وہ چیز ہے کہ جس سے ظہور کی راہ ہموار ہو گی اور یہ غیبت کی تاریکیاں ختم ہونگیں اور دنیا نور پروردگار کے ظہور کا مشاہدہ کرے گی۔

انتظار کیا ہے:

ماہرین لغت کے اعتبار سے کہتے ہیں۔ انتظار کا معنیٰ کسی کی راہ دیکھنا ہے۔ انتظار عجلت، نگہبان اور مستقبل کی جانب امید کے معنیٰ میں بھی ہے۔

لغت کے اعتبار سے انتظار انسان کی ایک باطنی و نفسیاتی حالت ہے جس میں انسان کسی کی راہ دیکھتا ہے۔ بعض مرتبہ یہ کیفیت انسان کو مایوس اور ناامید بھی کر دیتی ہے اور انتظار کرنے والا ہاتھ پہ ہاتھ رکھے ایک بہتر مستقبل کی خاطر موجودہ حالات کو تحمل کرکے اور بغیر کسی جدو جہد کے صرف انتظار ہی کرتا ہے۔


ہم دیکھتے ہیں کہ یہ نفسیاتی کیفیت کسی کو حرکت میں لے آتی ہے اور وہ کچھ نہ کچھ عمل ضرور کرتا ہے۔
انتظار کیا ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنا اور انتطار کرنا یا پھر کسی کے آنے کی امید میں حرکت اور عمل کے ساتھ تیاری کرنا۔
ہم اپنے عام سے عام مہمانوں کی آمد سے قبل ان کے شایان شان کتنی تیاری کرتے ہیں۔ ہم کبھی بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کسی مہمان کا انتظار نہیں کرتے۔ یہ ناپسندیدہ بات سمجھی جاتی ہے کہ کسی مہمان کے آنے سے قبل اس کے لیے اہتمام نہ ہو اور ہم فقط انتظار کررہے ہوں۔

جب عام مہمانوں کے لیے اتنا اہتمام ہوتا ہے اور اگر کسی مہمان کی دنیاوی حیثیت اگر بڑی ہوتو پھر اس کے لیے بہت زیادہ انتظار ہوتا ہے۔

لیکن کائنات کی اتنی بڑی ہستی ہو اور اس کے انتظار کے لیے کچھ نہ کیا جائے ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہے ، روزمرہ کے کام اور زندگی، وہی کسب معاش، وہی عبادات وہی زندگی ہو تو پھر ہم جس کا انتظار کررہے ہیں ہم نے اس کے لیے کیا کیا؟

انہوں نے جو کچھ مانگا کیا ہم نے وہ دیا اور انہوں نے اپنے آنے کی جو شرائط رکھیں کیا ہم نے وہ پوری کیں۔ بلآخر یہ ساری چیزیں عمل سے وابستہ ہیں۔

ہمارے دین اور شریعت اور فرامین محمدؐ و آل محمدؑ میں انتظار کو کبھی بھی ایک نفسیاتی کیفیت کے ساتھ تعبیر نہیں کیا گیا بلکہ عمل کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔

رسولؐ کریم کا اس حوالے سے مشہور فرمان ہے:
فرمایا:
افضل الاعمال امتی انتظار الفرج من اللہ عزوجل، افضل عبادة المؤمن انتظار فرج الله
میری امت کا بہترین عمل امام مہدی ؑ کا انتظار ہے۔
مومن کی افضل عبادت ظہور مہدی عج کا انتظار ہے

حتی کہ انتظار کو محبوب ترین عبادت قرار دیا ہے۔

انتظار الفرج عبادۃ، سئل عن علی علیہ السلام رجل ای الاعمال احب الی اللہ عزوجل؟ قال علیہ السلام
انتظار الفرج۔۔۔

امیر المومنین ؑ سے کسی سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں محبوب ترین عمل کیا ہے؟
فرمایا
انتظار الفرج۔

یہ عمل اتنا محبوب، عظیم اور بہترین عبادت ہے۔
کیونکہ جس ہستی کا انتظار کیا جا رہا ہے اگر وہ ہستی ظاہر ہو تو:
۔ پوری دنیا پہ دین خدا نافذ ہوگا
۔ پوری دنیا عبادت گذار ہو گی
۔ پوری دنیا عدل و انصاف سے بھرے گی
۔ پوری دنیا سے ظلم و ستم ختم ہو جائے گا
۔ دنیا کے دکھ اور درد ختم ہو جائیں گے۔
بس اس اعتبار سے ایک بہت بڑی حقیقت اور ایک بہت بڑے عمل کا جو مقدمہ یا تمہید ہے وہ اس اعتبار سے وہ بھی اتنا ہی محبوب اور عبادت ہے ۔ کیونکہ انتظار , امام زمانہؑ عج کی عالمی حکومت کا پیش خیمہ ہے۔

ہمارے اردگرد، ہم دیکھتے ہیں کہ عام طور پر لوگوں نے انتظار کو ایک خاموشی سمجھا ہوا ہے ۔ وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں گم ہیں ۔ یا زیادہ سے زیادہ گفتگو کی حد تک یا پھر ہمارے اعمال چاہے وہ اجتماعی ہوں جیسے مجالس وغیرہ۔ ہم ان کو انتظار کی کیفیت سے تعبیر دیتے ہیں ۔

لیکن
عملاً وظائف منتظرین تو شروع ہی نہیں ہوئے۔
روٹین کے اعمال و عبادات بعنوان مسلمان و مومن ہمارا فریضہ ہیں یہ تمام اعمال عصر رسولؐ میں بھی تھے اور عصر آئمہؑ میں بھی اور عصر ظہور میں بھی ہو نگے۔

لیکن
کچھ ایسے اعمال و وظائف تھے جو ہمیں کیفیت انتظار میں انجام دینے تھے۔
یعنی اتنے بڑے عظیم کام اور ایک عظیم حکومت الہیٰ کا قیام جس ہستی نے کرنا ہے تو اس عظیم مولاؑ کے لیے ہمارے ذمہ کچھ وظائف ہیں جو ہم نے روزمرہ کے کاموں ، عبادات اور اعمال سے ہٹ کر کرنے ہیں۔

روایات کی رو سے انسان نے حالت انتظار میں تکامل پانا ہے۔
انسان اسی طرح کمال پائے گا جیسے آگ میں جل کر کندن بنتا ہے اور ایک خوبصورت شکل میں ڈھل کر جواہرات بنتا ہے۔

اسی طرح لوگوں نے غیبت کی مشکلات میں وظائف انتظار پر عمل کرتے ہوئے کمال کے مراتب کو پانا ہے ۔ کیونکہ ان پر حجت خدا کے ظہور اور ان کی ہمراہی کی ایک بہت بڑی ذمہ داری آرہی ہے۔

انسانوں کی اقسام
1۔ تنزل کا شکار ہیں۔ ان کی زندگی حیوانی ، مادی اور پستی کا شکار ہے
2۔ جمود کا شکار ہیں۔ روزمرہ کی زندگی میں رکے ہوئے ہیں
3۔ کچھ انسان کمال کی راہیں ڈھونڈ رہے ہیں اللہ کی بارگاہ میں بلند درجات اور بے پناہ توفیقات کے طالب ہیں اور ان کی راہ بلندی کی جانب ہے اور یہاں امام زمانہؑ عج کا کرم شامل حال ہے ۔

امام کے ظہور سے پہلے باکمال لوگ ہیں جو امام زمانہؑ کی حکومت کے لیے ماحول تیار کریں گے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=48018

ٹیگز