5

سلسلہ دروس انتظار درس 5

  • News cod : 48227
  • 21 ژوئن 2023 - 16:03
سلسلہ دروس انتظار درس 5
موضوع سخن : انتظار شیعوں کے اندر انتظار اتنا واضح ہے کہ دیگر مکاتب فکر کے حضرات نے بھی اسے اپنی کتابوں میں بیان کیا۔ حتیٰ کہ دشمنوں نے بھی اس موضوع پر تبصرہ کیا۔

موضوع: دشمنوں کا شیعہ انتظار سے خوف، عقیدہ مہدویت کے خلاف سازشیں ، انتظار کے پہلو ، فکری تیاری

استاد محترم آغا علی اصغر سیفی

خلاصہ :
موضوع سخن : انتظار

شیعوں کے اندر انتظار اتنا واضح ہے کہ دیگر مکاتب فکر کے حضرات نے بھی اسے اپنی کتابوں میں بیان کیا۔ حتیٰ کہ دشمنوں نے بھی اس موضوع پر تبصرہ کیا۔

دشمنوں کا شیعہ انتظار سے خوف، عقیدہ مہدویت کے خلاف سازشیں:

کافی عرصہ قبل اسرائیل میں تل ابیب اسلام اور تشیع کے خلاف ایک کانفرنس ہوئ تھی جس کا ایجنڈا تھا کہ شیعت کی استحکامت پر سوچ وبچار کہ شیعہ کیوں اتنے پائیدار اور مستحکم ہیں اس کی وجہ
دو نکات ہیں :

1۔ سرخ نظریہ
سرخ نظریہ نگاہ ِ عاشورہ ہے ۔ یعنی مولاؑ امام حسینؑ کی عزاداری

2۔ سبز نظریہ۔
امام مھدیؑ کا ظہور ہے جس سے پوری دنیا میں بہاروں کی رنگینی پیدا ہو گی۔

تو اس کانفرنس میں موجود بڑی بڑی اسلام دشمن شخصیات تھیں جن میں برناردلؤس مائیکل ایم جی جنشر برون اور مارٹن کرمر نے اس بحث پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور انقلاب اسلامی پر تبصرہ کرتے ہوئے اس حوالے سے ان کا ایک مشہور جملہ ہے۔
” یہ شیعہ امام حسینؑ علیہ السلام کے نام پر قیام کرتے ہیں اور امام زمانہ عج کے نام پر اس قیام کو تحفظ دیتے ہیں۔ ”

جتنے بھی ہمارے دشمن ہیں وہ دیکھ رہے ہیں کہ شیعوں کا رہنما غائب ہیں لیکن پھر بھی شیعہ اپنے رہنما سے وابستہ ہیں اور اس کے نائبین سے راہنمائی لے رہے ہیں۔

انہوں نے کئ اقدامات کئے ہیں اور اس مقدس تفکر کو نابود اور کمزور کرنے کے لیے متعدد سازشیں کی ہیں۔

انہوں نے بلاواسطہ اس نظریہ میں دخالت کرتے ہوئے مختلف افراد کو شخصیت دینا اور جھوٹے مہدی بنانا اور مختلف سازشوں کے ذریعہ عقیدہ مہدویت کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لیے مختلف افراد کی تربیت اور ان کی طرفداری کرنا جیسے احمد کسروی ، شریعت سنگلجی، سلمان رشدی اور احمد الکاتب اور شرف الدین وغیرہ
ان جیسے لوگ ہر دور میں ذرائع ابلاغ پر اسلام و عقائد مکتب تشیع کے خلاف غلط نشریات اور پروپیگنڈہ کے ذریعے عوامی افکار کو منحرف کرتے ہیں۔

بیسویں صدی کے آخری عشرے میں ایسے پروپیگنڈے کا ہدف حضرت مہدیؑ کے ظہور کو بنایا گیا ۔ 1982 عیسوی میں (نوسٹر عدامس) نامی سیریل تین ماہ تک ایک امریکی چینیل سے نشر ہوئی ۔ یہ فلم ایک ماہر نجوم اور فرانسیی طبیب میشل نوسٹر عدامس کی زندگی پر بنائی گئی تھی جو پانچ سو سال پہلے مر چکا تھا اس سیریل میں اس کی مستقبل کے حوالے سے پیشنگوئیوں کی منظر کشی کی گئی تھی۔ جس میں اس کی اہم پیشن گوئی پیغمبر اسلام کے نواسے کا مکہ مکرمہ سے ظہور اور مسلمانوں کو متحد کرنا اور مغربی دنیا پر فتح حاصل کرکے مغرب میں واقع بڑے شہرو کو نیست و نابود کرنا شامل تھا۔

اس پروپیگنڈے کا مقصد مہدی موعود کو نعوذ باللہ شدت پسند ، بے رحم اور طاقت کے نشے میں چور شخص کی صورت میں منظر کشی کرنا تھا ۔ تاکہ مغربی اقوام کے جذبات کو اس منجی موعود کے خلاف بھڑکا کر مختصر مدت میں نفسیاتی ماحول فراہم کیا جا سکے ۔ موجودہ شواہد کو دیکھتے ہوئے یہ احتمال بھی دینا بجا ہو گا کہ نائین الیون 2001 میں نیویارک پر دہشتگردانہ حملوں کی سازش کو بہت پہلے سے تیار کیا گیا تھا۔

اس سازش سے وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ مسلمان دہشت گرد ہیں ۔ تو دشمن کئی حیلوں اور بہانوں سے اور سازشوں سے کام کر رہے ہیں

اور آج کے دور میں ہم کیا کام کر رہے ہیں۔

انتظار کے فکری پہلو کی تیاری:

بطور شیعہ ہمارا اصل کام انتظار کرنا ہے۔ یعنی شیعہ خود انتظار ہے۔ یعنی اگر ہم منتظر ہیں تو ہم شیعہ ہیں ورنہ ہم شیعہ نہیں ہونگے۔

ہر زمانے کے شیعہ کی اپنی پہچان ہے یعنی ہر زمانے کے امام کا شیعہ۔ جیسے شیعہ علوی، شیعہ سجادیہ ، شیعہ جعفری اور اسی طرح ہم شیعہ مھدی ہیں۔ ہمارا رنگ ، منشاء اور کردار وہی ہے جو امام زمانہؑ عج چاہتے ہیں۔

ہمیں فکری ، عملی اور اخلاقی طور پر بھی مضبوط اور بہتر ہونا ہے۔

ایک منتظر وہ ہے جو پچھلے گیارہ آئمہؑ کی تعلیمات پر بھی عمل کرتا ہے اور بارہویں آقا کے لیے تیار ہے۔

پہلا مرحلہ:
ہمیں چاہیے کہ ہم انتظار کو اس کے تمام جہات کے ساتھ سمجھیں۔
انتظار کے کئی پہلو ہیں۔
1۔فکری پہلو
2۔ روحانی صلاحتیں
3۔ دنیاوی امور میں نظم
4۔ اخلاقیات
5 ۔امام کی راہ میں حرکت۔

اگر ہم فکری طور پر اگر خود کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں وہ تعلیمات حاصل کرنی ہوں گی جو ہمیں بصیرت عطا کریں اور شعور میں تکامل دیں۔

منتظر شخص تب عملی طور پر تیار ہوتا ہے جب وہ عقلی اور فکری طور پر تیار ہو گا ۔ یعنی فقہی مسائل میں بصیرت اور گہرا فہم و ادراک رکھے۔

رسول ؐ اللہ نے فرمایا:
لکل شی دعامۃ و دعامۃ ھذا الدین الفقہ والفقیہ الواحد اشد علی الشیطان من الف عابد
ترجمہ :
ہر چیز کے لیے کوئی نہ کوئی بنیاد ہوتی ہے اور دین اسلام کی اساس گہر فہم و ادراک ہے۔
شیطان کے مقابلے میں ایک فقیہ کی حیثیت ہزار عبادت گزاروں سے (جو بغیر معرفت کے عبادت کرتے ہیں) کہیں زیادہ اور موثر ہے۔
ہمارے اندر بے پناہ نظریات ہیں کونسا حق ہے اور کونسا حق نہیں ہیں ان کا جاننا بے حد ضروری ہے۔

قرآن مجید میں آیا ہے:
فَبَشِّرْ عِبَادِۙ,الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗؕ-
میرے بندوں کو خوشخبری سنادو۔جو کان لگا کر بات سنتے ہیں پھر اس کی بہتربات کی پیروی کرتے ہیں
یعنی فقط سننا نہیں ہے بلکہ غور سے سننا ہے اور پھر اس کی پیروی کرنی ہے۔
ہمیں اپنی معلومات کے لیے اصول اور ضابطہ رکھنا چاہیے۔ کون سی معلومات ہیں جو کمال دینے والی ہیں اور کون سی معلومات ہیں جو ذہنوں کو پستی کی جانب میں لے جانے والی ہیں۔
ہم نے ہر چیز کو اپنے ذہن اور فکر میں نہیں ڈالنا ۔
سب سے اہم یہ ہے کہ ہم دینی معلومات کو حاصل کریں اور پھر ان میں غور و فکر کریں ۔ یہی ہمارا اہم ترین فریضہ ہے۔

پروردگار عالم ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم فکری طور پر استقامت پیدا کریں اور امام زمانہؑ کے فکری طور پر مضبوط منتظر کہلوائیں۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=48227