14

دعائے عرفہ امام حسینؑ

  • News cod : 48355
  • 28 ژوئن 2023 - 14:03
دعائے عرفہ امام حسینؑ
ایران، عراق، افغانستان اور پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک میں اس دعا کو گروہی شکل میں پڑھتے ہیں جس میں شرکت کرنے والوں کی تعداد بطور خاص حج کے ایام میں میدان عرفات میں ہزاروں تک جا پہنچتی ہیں۔

دعائے عرفہ امام حسینؑ شیعوں کے ہاں بہت اہمیت کا حامل ہے جسے وہ اپنے امام کی پروری کرتے ہوئے عرفہ کے دن (9 ذی الحجۃ) میدان عرفات اور دیگر شہروں میں مساجد، امام بارگاہوں اور دیگر مقامات پر پڑھتے ہیں۔ یہ دعا بلند و بالا عرفانی اور عقیدتی مضامین پر مشتمل ہے اور کہا جاتا ہے کہ امام حسینؑ نے اپنے اہل خانہ کے بعض افراد کے ساتھ میدان عرفات میں اپنے خیمے سے باہر اس دعا کو خدا کی بارگاہ میں ارشاد فرمایا ہے۔

غالب اسدی کے دو فرزند بشر و بشیر نقل کرتے ہیں کہ: عرفہ کے دن غروب کے قریب میدان عرفات میں امام حسینؑ کی خدمت اقدس میں تھے کہ آپ اپنے اہل خانہ اور بعض اپنے اصحاب کے ساتھ خیمے سے باہر تشریف لے گئے اور انتہائی خضوع اور خشوع کی حالت میں پہاڑ کے بائیں طرف خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے اپنے ہاتھوں کو چہرہ مبارک کے برابر بلند کرکے اس دعا کو ارشاد فرمایا۔ کفعمی کی روایت کے مطابق دعائے عرفہ ان جملات کے ساتھ اختتام پذیر ہوتا ہے:

لا اله الا انت وحدک لا شریک لک لک الملک و لک الحمد و انت علی کل شیء قدیر. یا رب، یارب یا رب
لیکن کتاب اقبال الاعمال میں سید بن طاؤس کے مطابق دعائے عرفہ مذکورہ جملات کے بعد ان جملات کے ساتھ ادامہ دیتا ہے:

الهی انا الفقیر فی غنای فکیف لا اکون فقیرا فی فقریاور آخر میں یوں ختم ہوتا ہے: و انت الرقیب الحاضر انک علی کل شیء قدیر و الحمدلله وحده۔
سند
کفعمی نے کتاب البلد الامین میں اور سید بن طاؤس نے کتاب مصباح الزائر میں اس دعا کو ذکر کیا ہے ان کے بعد علامہ مجلسی نے کتاب بحار الانوار میں اور شیخ عباس قمی نے مفاتیح الجنان میں اس دعا کو ذکر کیا ہے۔ اس دعا کے دو راوی بشر و بشیر کے بارے میں آیت الله سید ابو القاسم خوئی فرماتے ہیں: یہ دو بھائی غالب اسدی کوفی کے فرزند ہیں۔ بشر امام حسینؑ اور امام سجادؑ کے اصحاب میں سے ہے لیکن بشیر صرف امام حسینؑ کے راویوں میں سے ہے۔[2] اگر چہ بعض محدثین اس دعا کے سند کو قطعی نہیں سمجھتے لیکن اس مشہور قاعدے: دلالته تغنی عن السند کے مطابق چہ بسا کسی حدیث یا دعا کا مفہوم اور مضمون اس قدر بلند مرتبہ اور باعظمت ہے کہ اس کے سند سے ہم بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ اور یہ دعا بھی انی دعاوں میں سے ہے کیونکہ اس دعا کا مضمون اور مفہوم عالی ترین عرفانی اور اعتقادی مضامین پر مشتمل ہے جو صرف کسی نبی یا امام کے بغیر کسی عام شخص سے صادر نہیں ہو سکتا ہے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=48355