9

عقائد توحید درس 7

  • News cod : 48640
  • 11 جولای 2023 - 11:27
عقائد توحید درس 7
موضوع سخن پروردگار عالم کی معرفت، اس حوالے سے گذشتہ گفتگو میں مختلف دلائل کا ذکر ہوا۔ اور ہماری گفتگو دلیل نظم پر ہے یعنی کائنات میں جو منظم نظام جاری ہے اور ہر نظام کا ایک ناظم ہے ۔

اللہ تعالیٰ کی معرفت پر برھان نظم، نباتات اور پرندوں کا نظام، واجب الوجود اور ممکن الوجود سےمراد

حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی 

خلاصہ :
موضوع سخن پروردگار عالم کی معرفت، اس حوالے سے گذشتہ گفتگو میں مختلف دلائل کا ذکر ہوا۔ اور ہماری گفتگو دلیل نظم پر ہے یعنی کائنات میں جو منظم نظام جاری ہے اور ہر نظام کا ایک ناظم ہے ۔

گذشتہ گفتگو میں اس کی مثالیں پیش کی گئیں اور آج مزید دو مثالیں پیش خدمت ہیں۔

قرآن مجید میں پروردگار عالم نے کائنات کے اندر نباتات کے نظام کی جانب اشارہ کیا۔

قرآن مجید میں سورہ الانعام 99 آیت میں ارشاد پروردگار عالم ہو رہا ہے:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

وَهُوَ الَّـذِىٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۚ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ نَبَاتَ كُلِّ شَىْءٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَـرَاكِبًاۚ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ ۙ وَّجَنَّاتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَالزَّيْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِـهًا وَّغَيْـرَ مُتَشَابِهٍ ۗ اُنْظُرُوٓا اِلٰى ثَمَرِهٓ ٖ اِذَآ اَثْمَرَ وَيَنْعِهٖ ۚ اِنَّ فِىْ ذٰلِكُمْ لَاٰيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُـوْنَ
ترجمہ :
اور اسی نے آسمان سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس سے ہر چیز اگنے والی نکالی پھر ہم نے اس سے سبز کھیتی نکالی جس سے ہم ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے دانے نکالتے ہیں، اور کھجور کے شگوفوں میں سے پھل کے جھکے ہوئے گچھے ہیں، اور باغ ہیں انگور اور زیتون اور انار کے آپس میں ملتے جلتے اور جدا جدا بھی، دیکھو ہر ایک درخت کے پھل کو جب وہ پھل لاتا ہے اور اس کے پکنے کو دیکھو، ان چیزوں میں ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

اہم نکات:

نباتات کا نظام بہت ہی پیچیدہ اورظریف اور بہت ہی عالیشان نظام ہے کہ جس پر انسانی اور حیوانی زندگی کا انحصار ہے۔

اس نظام میں بے انتہا خوبصورتیاں ہیں جیسے آسمان سے پانی کا آنا ۔ زمین سے سبزے اورچیزوں کا اگنا۔ دانوں کا نکلنا* ۔ *کھجور کے شگوفوں میں پھلوں کا آنا
پھلوں کے مختلف ذائقے اور مٹھاس

🔹یہ دقت اور ظرافت خود بخود نہیں ہو رہی نہ ہی اسے کوئی انسان باہر سے چلا رہا ہے بلکہ یہ وہی پروردگار ہے اور وہی خدا جو پورے نظام کو چلا رہا ہے جو پوری کائنات کے نظام کو چلا رہا ہے وہی خالق اس نظام نباتات کو بھی چلا رہا ہے۔

روایت :
امام جعفر صادقؑ نے بھی اسی نباتات کے نظام کے بارے میں فرمایا:

آپ لوگ درختوں اور مختلف جڑی بوٹیوں کی تخلیق میں غور کریں۔
فرماتے ہیں کہ؛
یہ درخت حیوان کی طرح ہمیشہ غذا کا محتاج ہے لیکن یہ حیوان کی طرح نہ تو اپنا منہ رکھتا ہے اور نہ ہی حرکت کر سکتا ہے کہ غذا کو لے لے۔

بلکہ اس کی جگہ یہ اپنی جڑیں زمین کے اندر لے جاتا ہے تاکہ زمین کی گہرائیوں سے اپنے لیے غذا لے اور پھر اس کی شاخیں اور پتے نکلتے ہیں اور ان پر میوے(پھل) نکلتے ہیں۔

پس زمین اس درخت کو ماں کی مانند پرورش دیتی ہے اور اس درخت کے جڑیں اس کے منہ کی مانند ہیں جو زمین سے غذا لیتی ہیں۔ جسطرح حیوانات اپنے بچوں کو دودھ دیتے ہیں اسی طرح درخت کی جڑیں زمین سے اپنی غذا کو چوستی ہیں۔ اور پھر اس سے مختلف قسم کے پھل اور پتے شاخیں نکلتے ہیں جس سے حیوان اور انسان فائدہ حاصل کرتے ہیں۔
یہ کتنا خوبصورت نظام ہے کہ جو ہماری زندگی کا ایک بنیادی جزء ہے۔
سبحان اللہ !

دوسرا نظام :
حیوان اور پرواز۔
یہ عجائب میں سے ایک چیز ہے یعنی فضا کے اندر ہر طرح کے چھوٹے ، بھاری، ہلکے پرندے رہتے ہیں اور وہ کون سی چیز ہے جو ان کو فضا میں تھام کر رکھتی ہے۔

سورہ نحل آیت نمبر 79

اَلَمْ يَرَوْا اِلَى الطَّيْـرِ مُسَخَّرَاتٍ فِىْ جَوِّ السَّمَآءِۖ مَا يُمْسِكُـهُنَّ اِلَّا اللّـٰهُ ۗ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُـوْنَ
کیا پرندوں کو نہیں دیکھتے کہ آسمان کی فضا میں تھمے ہوئے ہیں، انہیں اللہ کے سوا کون تھامے ہوئے ہے، بے شک اس میں بھی ایمانداروں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔
سبحان اللہ!

اہم نکات:

وہ کون سی ذات ہے کہ جو پرندے کو ہوا میں سنبھالتی ہے اور وہ دائیں بائیں حرکت کرتا ہے۔ یقنناً یہ ذات پروردگار عالم ہے کہ جس نے نظام پرواز بنایا۔

یہ سارے مختلف نظام کائنات کو بیان کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم یہاں سے متوجہ ہوں کہ یہ کائنات اسی طرح خلق نہیں ہوئی بلکہ کوئی ذات ہے جو اسے چلا رہی ہے۔

پروردگار عالم کے وجود اور اس کی معرفت کو بڑھانے کے لیے ایک اور اہم ترین دلیل ہے کہ جس کو علمی اصطلاح میں واجب الوجود اور ممکن الوجود کہتے ہیں۔

اس کی سادہ سی تعریف یہ ہے کہ کائنات کے اندر ہم جتنی بھی چیزیں دیکھ رہے ہیں یہ سارے ممکنات الوجود ہیں یعنی وجود ان کی ذات کا حصہ نہیں بلکہ انہیں کسی نے دیا ہے۔ یعنی یہ ایک زمانے میں نہیں تھے مگر اب ہیں اور وہ ہستی ان سے وجود لے بھی سکتی ہے۔

لیکن آیا پروردگار بھی ایسا ہے کہ جسے کسی نے وجود دیا ہے ایسا ہرگز نہیں۔ یہ چیز ایک تو ہمارے لیے ثابت نہیں دوسرا خلافِ عقل ہے۔

اگر پروردگار کو کسی نے وجود دیا ہے تو پھر اس کو وجود دینے والا کون ہے پھر جس نے اللہ کو وجود دیا اسکو وجود دینے والا کون ہے پھر یہ ایسی لڑی شروع ہو جاتی ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ۔ یعنی یہ خلاف عقل اور فضول سی بات ہے۔

ہم خود دیکھ رہے ہیں کہ بعض چیزیں ذاتی ہوتی ہیں اور بعض ذاتی نہیں ہوتیں۔ اللہ کا وجود اس کا ذاتی ہے۔ اس لیے اسے واجب الوجود کہتے ہیں یعنی اول ، ابدی، ازلی وہ وجود رکھتا ہے۔ اور وہاں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کس نے اسے وجود دیا ہے۔
جیسے کوئی آدمی ہمارے سامنے چینی رکھے اور ہم پوچھے کہ چینی کے اندر مٹھاس کیسے آئی تو لوگ اس بات پر ہنس پڑیں گے ۔ کیونکہ مٹھاس چینی کی ذات کا حصہ ہے۔ لیکن اگر کوئی میٹھا پانی لے آئے تو پھر پوچھ سکتے ہیں کہ اس میں مٹھاس کس نے ڈالی ہے اور کتنی ڈالی۔
مٹھاس چینی کی ذات کا حصہ ہے اور پانی کی ذات کا حصہ نہیں ۔

اسی طرح ہم پروردگار کے بارے میں نہیں پوچھ سکتے کہ اسے کس نے خلق کیا ہے اور کس نے اسے وجود دیا ہے ۔ کیونکہ وجود اس کی ذات کا حصہ ہے۔

ہم اپنے بارے میں اور نباتات و حیوانات کے بارے میں یہ سوال کر سکتے ہیں کیونکہ :

۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم پہلے موجود نہیں تھے ہمیں کسی نے وجود دیا۔

۔ ہم سارے جس طرح اپنا وجود لینے میں اللہ کے محتاج ہیں اسی طرح وجود باقی رکھنے میں بھی اللہ کے محتاج ہیں۔

۔ ہم ہر چیز میں خدا کے محتاج ہیں جب کہ وہ غنی ہے۔ اور وہ کسی چیز میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہو رہا ہے:
سورہ فاطر آیت نمبر 15
يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اَنْتُـمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّـٰهِ ۖ وَاللّـٰهُ هُوَ الْغَنِىُّ الْحَـمِيْدُ
اے لوگو تم اللہ کی طرف محتاج ہو، اور اللہ بے نیاز تعریف کیا ہوا ہے۔

ہم نظام بدن کو خود نہیں چلاتے ، بیماری کی شفاء ، غذا ، پانی میں اللہ کے محتاج ہیں لیکن یہ خدا ہے جو بے نیاز ہے اور اس کی حمد و ثنا ہوگی۔

سورہ طور آیت 35 میں ارشاد پروردگار عالم ہو رہا ہے:

اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَؕ
کیا وہ کسی اصل سے نہ بنائے گئے یا وہی بنانے والے ہیں۔

پروردگار عالم کی بہت ساری آیات ہیں جو نظام تخلیق پر اور ہمارے اللہ کی جانب محتاج ہونے دلالت کرتی ہیں۔

اور جتنی مثالیں بیان ہوئیں یہ اللہ کی معرفت پر یقین کامل ہونے اور عبودیت کا جذبہ اور اللہ کےسامنے تسلیم ہونے کے جذبے کو بڑھاتی ہیں۔ اور پھر ہمارے اندر اطمینان وصبر و یقین بڑھے گا اور ہم نے جو ایک دوسرے کے لیے تلخی پیدا کی ہے اور یہ حکومتوں نے جو مسائل بنائے ہیں پھر ہم ان پر صبر بھی کر سکتے ہیں اور اس کا مقابلہ بھی کر سکتے ہیں۔

اہل انتظار:
اہل انتظار یہی ہیں ۔ ان کی پہلی صفت موحد ہونا ہے اور اسی موحد ہونے کے سبب وہ حالت اطمینان میں ہیں ۔ اور ہر چھوٹی بڑی تکلیف کا سامنا کرتے ہیں اور صبر کرتے ہیں۔ اور ان کے توکل ، اطمینان اور صبر میں کوئی لغزش نہیں آتی ۔ اس لیے وہ ثابت قدمی کے ساتھ اپنے اطمینان کو قائم رکھتے ہیں۔ اسی لیے اہل انتظارکی بہت زیادہ عظمت و فضیلت بیان ہوئی ہے کہ وہ ایمان پر ثابت قدم ہیں اور ایمان پر ثبات قدمی توحید کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔

لہذا جتنا ہم غورو فکر کریں گے اور پروردگار عالم پر ہمارا یقین اور اطمینان بڑھے گا اتنی ہماری زندگی پر اطمینان اور مسرت بخش ہو جائے گی ۔ اور اتنی پریشانیوں میں بھی ہم موحد اور اہل انتظار ثابت ہونگے اور تحریک ِ ظہور چلا سکتے ہیں کہ جب ہم اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل سے نکلیں گے تو ہماری توجہ کا حقیقی محور ہمارے امام زمانہؑ عج الشریف ہوں گے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=48640

ٹیگز