8

تشیع کا سیاسی نظریہ (۱۰)

  • News cod : 5612
  • 14 دسامبر 2020 - 10:55
تشیع کا سیاسی نظریہ (۱۰)
حوزہ ٹائمز | دین اسلام کا سیاست سے گہرا ربط ہے۔ دین اور سیاست کا باہمی تعلق سبب بنتا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا تصور نہ کیا جائے۔ قرآنی سیاست اور دنیاوی سیاست میں فرق ہے۔

قرآن کریم کے سیاسی افکار

سورہ نحل آیت ۸۹ کے مطابق قرآن کریم وہ الہی کتاب ہے جس میں انسان کی زندگی کے ہر اہم مسئلہ اور زندگی کے مختلف شعبہ جات کے متعلق ہدایتِ الہی اور رہنمائی موجود ہے۔
انہی اہم ترین مباحث میں سے ایک سیاسی مباحث ہیں جن کے متعلق قرآن کریم نے اپنا موقف واضح طور پر بیان کیا ہے اور قرآنی موقف نہ ماننے کے نتائج اور مضر اثرات کی بھی نشاندہی کی ہے۔
کیونکہ دین اسلام کا سیاست سے گہرا ربط ہے۔ دین اور سیاست کا باہمی تعلق سبب بنتا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا تصور نہ کیا جائے۔
قرآنی سیاست اور دنیاوی سیاست میں فرق ہے۔ قرآنی سیاست سے مراد وہ سیاست ہے جو قرآنی افکار و تعلیمات کی روشنی میں انجام پائے۔ قرآن کریم کے مطابق دینی سیاست کے دو اہم حصے ہیں:
۱۔ فلسفہِ سیاسی اسلام،
یعنی اسلام کی نظر میں سیاست کے نظریاتی خدوخال اور اس کے پیش نظر اہداف و مقاصد کا بیان۔
۲۔ فقہ سیاسی اسلام
یعنی اسلامی سیاست کی سوجھ بوجھ اور اس کے بنیاد اصول و ضوابط۔
اسلامی کی نظر فلسفہِ سیاست سے عمیق ترین بحث یہ کی جاتی ہے کہ سیاست اور اعتقاد کا گہرا باہمی تعلق و ربط ہے۔ جیساکہ سورھ نساء آیت ۵۹ اللہ تعالی فرماتا ہے:
یا أَیھا الَّذِینَ آمَنُواْ أَطِیعُواْ اللّہ وَأَطِیعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِی الأَمْرِ مِنکمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِی شَیءٍ فَرُدُّوہ إِلَی اللّہ وَالرَّسُولِ إِن کنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّہ وَالْیوْمِ الآخِرِ ذَلِک خَیرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیلًا
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں کی اطاعت کرو، پس اگر کسی مسئلہ میں تم آپس میں کس جھگڑے کا شکار ہو جاتے ہو تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہ سب سے بہتر ہے اور حقیقی مصلحت کے سب سے قریب ہے۔
تفسیر راہنما میں اس کے ذیل میں وارد ہوا ہے:
کیونکہ اللہ، اس کے رسول اور اولوا الامر کی اطاعت کرنا ایک سیاسی امر ہے اور اسی طرح سے یہ اطاعت ایک قسم کا اعتقادی مسئلہ بھی بن جاتا ہے۔ پس اس بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی اور عقائدی مسائل کا ایک دوسرے سے گہرا رابطہ اور تعلق ہے۔
سورہ نساء آیت ۱۴۴
سے بھی اس مطلب کا استفادہ کیا جا سکتا ہے جس میں مومنین کی بجائے کفار کو اپنا سرپرست و ولی بنانے کی نفی کی گئی ہے۔
سیاسی امور میں ایمان و کفر کی رعایت واضح دلیل ہے کہ سیاست اور اعتقاد کا گہرا ربط اور تعلق ہے۔ لہذا اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت ایمانی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
قرآن کریم کی آیات کے تناظر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کے تمام سیاسی امور کی اصل بنیاد عدالت ہے۔
لفظ عدل (ع، د، ل) اور اس کے مختلف مشتقات قرآن کریم میں ۲۹ بار اور لفظ ظلم اور اس کے مشتقات ۲۹۰ بار وارد ہوئے ہیں۔
اس طرف توجہ رہے کہ ان سطور میں جو مطالب و نکات آیات کریمہ کے ذیل میں بیان کیے گئے ہیں وہ اسلام کی نظر میں سیاست اور سیاسی مباحث و افکار کی طرف ایک اجمالی اشارہ ہے ۔ کیونکہ اس موضوع کی تفصیلی ابحاث کو ان مختصر سطور میں سمیٹا نہیں جا سکتا۔
ان موضوعات کی تفصیلی معلومات کے لیے متعلقہ کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اللہ سبحانہ و تعالی سے دعا ہے کہ ان سب قرآنی مباحث کو زیر بحث لانے اور ان سیاسی عناوین کو معاشروں پر لاگو کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔

ترتیب: اکبر حسین فیاضی

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=5612