حضرت عباس علیہ السلام وفا اور جوانمردی کا پیکر ہیں
مولانا سید عمار حیدر زیدی قم
السلام علیک یا صاحب الزمان!
اے فرزندِ زہراؑ، اے وارثِ حسینؑ! حضرت عباسؑ کی ولادتِ باسعادت پر ہم آپ کی خدمت میں ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں۔ وہ عباسؑ، جنہوں نے اپنی جان، اپنی شجاعت، اپنی جوانمردی اور اپنی وفاداری سب کچھ اپنے امام پر نچھاور کر دیا۔ وہ، جو باوفائی کا ایسا مینار بنے کہ رہتی دنیا تک وفا ان کے نام سے پہچانی جائے گی۔
اے ہمارے مولا! آج ہم بھی حضرت عباسؑ کی سیرت کو مشعلِ راہ بناتے ہوئے آپ سے عہد کرتے ہیں کہ جیسے قمر بنی ہاشمؑ نے اپنے امام کی نصرت میں کوئی کمی نہ آنے دی، ہم بھی آپ کی نصرت و اطاعت کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ جیسے حضرت عباسؑ نے اپنا سب کچھ امام حسینؑ پر قربان کر دیا، ہم بھی ہر آزمائش میں ثابت قدم رہنے کا عہد کرتے ہیں۔ اے ہمارے مولا! ہمیں اپنے سچے منتظرین میں شامل فرمائیں، اور وہ استقامت عطا کریں جو ہمیں آپ کے لشکر کے سپاہیوں میں شامل کرلے۔
حضرت عباس علیہ السلام 4 شعبان 26 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ امام علیؑ کے فرزند اور حضرت فاطمہؑ کے بھانجے تھے، جبکہ آپ کی والدہ ام البنینؑ ایک عظیم المرتبت خاتون تھیں، جنہوں نے اپنے بیٹوں کو اہلِ بیتؑ کی خدمت اور نصرت کے لیے پروان چڑھایا۔ حضرت علیؑ نے انہیں بہادری، حکمت، حلم اور وفاداری کی تعلیم دی، اور یہی تربیت کربلا میں ان کے کردار کی بنیاد بنی۔
حضرت عباسؑ کا بے مثال کردار وفاداری کی معراج اگر دنیا میں وفا کو کسی نے عملی شکل میں دیکھنا ہو، تو اسے کربلا میں حضرت عباسؑ کی سیرت کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ان کی وفاداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یزیدی لشکر نے جب انہیں امان دینے کی پیشکش کی، تو آپ نے دوٹوک الفاظ میں انکار کر دیا اور کہا:
“امان؟ حسینؑ کے بغیر؟ خدا کی قسم! حسینؑ کے بغیر کوئی زندگی نہیں!”
یہ وہ جملہ تھا جس نے رہتی دنیا تک حق پرستوں کو سکھا دیا کہ امامِ وقت کی وفاداری ہر چیز سے مقدم ہے، حتیٰ کہ جان سے بھی زیادہ۔
حضرت عباسؑ کی جوانمردی کا سب سے بڑا امتحان وہ لمحہ تھا جب خیموں میں بچوں کی پیاس شدت اختیار کر چکی تھی۔ انہوں نے مشک تھامی، اور اکیلے ہی نہرِ فرات کی طرف نکل پڑے۔ یزیدی فوج ان کی راہ میں حائل ہوئی، مگر عباسؑ کی تلوار بجلی کی مانند چمک رہی تھی۔ انہوں نے دریا پر قبضہ کر لیا، مشکیزہ پانی سے بھر لیا، اور جب پانی کو ہاتھ میں لیا تو ایک لمحے کے لیے رک گئے۔
“اے عباس! سکینہؑ پیاسی ہے، زینبؑ کے بچے پیاسے ہیں، تُو کیسے پانی پی سکتا ہے؟”
یہ تھا وفا کا وہ معیار، جو تاریخ نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ حضرت عباسؑ نے پانی نہیں پیا، بلکہ مشکیزہ لیے خیموں کی طرف روانہ ہو گئے۔
وفاداری کی آخری منزل شہادت کا لمحہ ہے کہ جب حضرت عباسؑ مشک کو لے کر خیموں کی طرف بڑھ رہے تھے، تو دشمن نے ان کے دونوں بازو قلم کر دیے، مگر پھر بھی وہ مشک کو دندانِ مبارک میں تھامے آگے بڑھتے رہے۔ آخر کار ایک ظالم نے سر پر ایسا وار کیا کہ آپ گھوڑے سے زمین پر آ گرے۔ اس وقت آپ کی زبان سے نکلا:
“یا اخا ادرك اخاك!” (اے میرے بھائی! اپنے بھائی کو سنبھالیے!)
امام حسینؑ دوڑ کر پہنچے، عباسؑ کے سر کو اپنی گود میں رکھا، مگر حضرت عباسؑ نے التجا کی:
“بھیا! مجھے خیموں میں نہ لے جائیے، میں سکینہؑ کا سامنا نہیں کر سکتا، کیونکہ میں پانی نہ پہنچا سکا۔”
یہی وہ لمحہ تھا جب کربلا کی سرزمین پر وفاداری اور ایثار کی آخری داستان مکمل ہوئی، اور حضرت عباسؑ کی روح پرواز کر گئی۔
اے امامِ زمانؑ! آج ہم حضرت عباسؑ کی سیرت کو اپنے لیے نمونہ بناتے ہیں۔ جیسے عباسؑ نے امام حسینؑ کی حفاظت میں جان قربان کر دی، ہم بھی آپ کی نصرت کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔ جیسے عباسؑ نے کبھی حکمِ امام سے روگردانی نہ کی، ہم بھی آپ کے ہر حکم پر لبیک کہنے کے لیے آمادہ ہیں۔
یا صاحب الزمان! ہمیں بھی عباسؑ کی طرح باوفا اور جانثار بنا دیجیے، تاکہ جب آپ ظہور فرمائیں، تو ہم آپ کے علمبرداروں میں شامل ہوں۔