حریت کے امام ؑ اور اصلاح امت
علامہ محمد رمضان توقیر
مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان
نواسہ رسول‘ دلبند بتول‘ جگر گوشہ حیدر کرار حضرت امام حسین علیہ السلام نے یذید کی تخت نشینی کے بعد جو اصولی موقف اختیار کیا وہ اللہ کے احکام کے مطابق‘ قرآنی فرمودات کے مطابق‘ سنت ِ نبوی ؐ کے مطابق‘ سیرت ِ علوی کے مطابق اور معروضی حالات و کیفیات اور اُس دور کے تقاضوں کے عین مطابق تھا۔ امام عالی مقام نے حالات اور صورت حال کی جو منظر کشی کی تھی ان کا تقاضا تھا کہ قیام کیا جائے۔ یذید کی تخت نشینی سے لے کر روز عاشور آخری سجدے تک مظلوم کربلا نے مختلف مقامات اور مختلف مراحل میں اپنے قیام کی جو وجوہات اور اپنی جدوجہد کے محرکات بیان فرمائے ان میں سب سے زیادہ حساس اور سنگین معاملہ اصلاح ِ نظام ِ امت تھا۔
جو مفاسد یزیدی دور میں پیدا ہوچکے تھے۔جو خرابیاں یزیدی نظام نے پیدا کردی تھیں۔ جو انحرافات یزیدی حکومت نے شروع کردئیے تھے۔ جو ناجائز اضافے یزیدی قابضین نے کرلیے تھے۔ دین اور شریعت کے ساتھ جو مذاق یزید اور اس کے ساتھیوں نے شروع کردیا تھا۔ احکام قرآن اور سنت ِ رسول کے ساتھ جو کھلواڑ یزیدی گماشتے کررہے تھے ان کا ہاتھ جھٹکنا نواسہ رسول ؐ کی ذمہ داری تھی۔ ان کے خلاف آواز بلند کرنا وارث ِ توحید کی ذمہ داری تھی۔ ان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کہنا محافظ ِ شریعت کی ذمہ داری تھی۔ امام عالی مقام کے منصب کا تقاضا تھا کہ وہ ان حالات میں فاسد نظام اور لادین سسٹم کے خلاف میدان ِ عمل میں آتے۔چاہے اس کے لیے انہیں لوگوں کی تائید حاصل ہوتی یا نہ ہوتی۔
اسی فارمولے کے تحت جوانان ِ جنت کے سردار نے شہادت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا کے لیے رخت ِ سفر باندھا۔ اگرچہ دنیاوی لحاظ سے ایک طاقتور‘ جابر‘ جارح اور دشمنی رکھنے والی حکومت اور حکمران کے خلاف قیام کے لیے نکلے لیکن خود تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ مدینہ کے گورنر سے ملاقات کے لمحے سے لے کر صبح ِ عاشور تک ہر مرحلے پر امام عالی مقام نے حالات کو مذاکرات‘ بات چیت اور سیاسی انداز میں درست کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ تمام تر حالات اور یزیدی حصار کے بعد شہادت ہی مستقبل نظر آرہی تھی لیکن اس کے باوجود تشدد سے گریز اور لوگوں کو اصلاح کی طرف لانے کی کوشش فرماتے رہے۔
امام حسین ؑ کی جدوجہد اور مشن کا محور و مرکز اپنے نانا ؐ کی امت کی اصلاح تھا۔ یہ قیام برائے فساد نہیں تھا۔ یہ قیام برائے سیاست نہیں تھا۔ یہ قیام برائے حکومت و مملکت نہیں تھا۔ یہ قیام ذاتی اغراض کے حصول کے لیے نہیں تھا۔ یہ قیام خاندانی خواہشات کی تکمیل کے لیے نہیں تھا۔ یہ قیام کسی گروہ یا قبیلہ کو اقتدار میں لانے کے لیے نہیں بلکہ اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو رائج کرنے کے لیے تھا۔ قرآنی و الہی احکام اور شریعت محمدی ؐ کو پامالی سے بچانے کے لیے تھا۔ اسلام اور اس کی تعلیمات کو رہتی دنیا تک محفوظ رکھنے کے لیے تھا۔ امت مسلمہ و محمدیہ کی دنیا و آخرت میں اصلاح پیدا کرنے کے لیے تھا۔
یہ درست ہے کہ سیدالشہداء نے اپنے قیام کے ذریعے بہت کٹھن اور سنگین راستہ اختیار کیا۔ اپنے نانا کی تربت اور اپنے نانا کا شہر چھوڑا۔ اپنی ماں کی لحد اور پورے خاندان سے جدا ہوئے۔ حج بیت اللہ کو ادھورا چھوڑتے ہوئے احرام توڑ کر مکۃ المکرمہ کو خیرباد کہہ دیا۔ اپنی باعصمت و پاکیزہ خواتین اور کمسن و شیر خوار بچوں کو طویل اور کٹھن سفر کی صعوبتوں سے گذارا۔ پھر میدان کرب و بلا میں اپنے اصحاب کو اس مشن پر قربان کر ڈالا۔ خاتم الانبیاء کے خاندان کے متعدد افراد کو شہادت کے لیے پیش کردیا۔ اپنے کڑیل جوان سے لے کر شیرخوار بچے تک قربان کرتے ہوئے خود کو بھی اس مشن کی تکمیل بلکہ معراج کے لیے قربان کردیا۔ معاملہ کربلا تک محدود نہ رہا بلکہ کربلا کے بعد کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں اور زندانوں تک اپنے نائب اور بیٹے حضرت امام زین العابدین ؑ اور اس الہی مشن میں برابر کی شریک اپنی بہن سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی قید و تشدد و صعوبت و مصائب اور ظلم بھی برداشت کیے لیکن الحمدللہ اصلاح امت کی اس تحریک کو اس حد تک کامیاب کرایا کہ تاقیام قیامت اس تحریک کو بطور مثال تو پیش کیا جاتا رہے گا لیکن اس کی کوئی مثال نہیں ہوگی۔
ہم اگر اپنے گردوپیش میں حالات کا جائزہ لیں۔ اپنی ذاتی زندگی سے لے کر اپنی اجتماعی زندگیوں تک اور پھر اپنے ملک کے نظام کی خرابیوں اور نقائص سے لے کر عالمی سطح پر موجود ملکوں کے اداروں تک ہر مقام کا جائزہ لیں تو ہمیں اصلاح کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے دور میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری ادا کرنا نہایت مشکل ہوچکا ہے۔ حق کو حق اور باطل کو باطل کہنانہایت دشوار ہوچکا ہے۔ سچ کو بیان کرنا اور جھوٹ کو بے نقاب کرنا ممکن نہیں رہا۔ انسانی اقدار کو محفوظ کرنا اور غیر انسانی عزائم کے آگے بند باندھناکسی کے بس میں نہیں رہا۔ موجودہ اکثر حکمرانوں کے اندر بھی ۱۶ ہجری کے حکمرانوں جیسی خرابیاں اور نقائص پائے جاتے ہیں۔
ان تمام حقائق کے باوجود اصلاح امت کے لیے اجتماعی سطح پر بالعموم اور حکومتی سطح پر بالخصوص کوئی پیش رفت نہیں ہورہی۔ ہم امام حسین ؑ کی ذات سے بلحاظ ِ مومن‘ بلحاظ مسلمان‘ بلحاظ حریت پسند حتی کہ بلحاظ انسان محبت کا اظہار بھی کرتے ہیں اور عقیدت بھی نچھاور کرتے ہیں لیکن جب عمل اور اصلاح کا مرحلہ آتا ہے تب امام حسین ؑ کی تعلیمات سے رخ موڑ لیتے ہیں۔ امام حسین ؑ کی جدوجہد کو فراموش کردیتے ہیں۔ امام حسین ؑ کے قیام کو بھول جاتے ہیں۔ حتی کہ امام حسین ؑ کی اتنی بیش بہا اور اعلی ترین قربانیوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے جو انہوں نے اپنے لیے بلکہ ہمارے لیے پیش کی تھیں۔ موجود حالات کی نزاکت کا تقاضا ہے کہ ہم بھی اصلاح امت کے لیے قیام کریں۔ موجودہ نظام کے نقائص کا تقاضا ہے کہ ہم بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داریاں ادا کریں۔ دینی تعلیمات اور اسلامی اقدار جس طرح پامال کی جارہی ہیں اس کا تقاضا ہے کہ ہم بھی میدان عمل میں نکلیں۔ جابر و ظالم اور فاسد و فاجر طاقتیں جس شدت کے ساتھ عالمی معاشرے بالخصوص اسلامی معاشروں اور اسلامی ممالک پر قابض ہوتی جارہی ہیں اس کا تقاضا ہے کہ ہم کم تعداد میں ہونے کے باوجود سر پر کفن باندھے اور مستقبل کی پرواہ نہ کیے بغیر قربانی دینے کے لیے آمادہ وہو جائیں اور اپنے دور کی کربلائیں پربا کردیں۔ تبھی اصلاح امت اور اصلاح نظام کا ہدف حاصل ہوگا۔ یہی سیرت حسین ؑ ہے اور یہی پیغام کربلا ہے۔