8

شہید لیفٹیننٹ سید یاسر عباس ایک بہادر سپوت

  • News cod : 6152
  • 23 دسامبر 2020 - 16:01
شہید لیفٹیننٹ سید یاسر عباس ایک بہادر سپوت
یہ زندگی خدا تعالی کی امانت ہے۔ ہر عام و خاص کیلئے ضروری ہے کہ امانت کی پاسداری کرتے ہوئے اسے حقدار کو لوٹائے۔ امانت کی سب سے بہتر پاسداری خدا کی راہ میں شہادت ہے۔ اگر زندگی کا اختتام موت ہے تو اس کا بہترین انتخاب شہادت ہے۔ بلاشبہ شہداء کے خون میں وہ تڑپ ہے جس سے معاشرے جمود سے تحرک کی طرف راستہ طے کرتے ہیں۔

تحریر: شاہد عباس ہادی

یہ زندگی خدا تعالی کی امانت ہے۔ ہر عام و خاص کیلئے ضروری ہے کہ امانت کی پاسداری کرتے ہوئے اسے حقدار کو لوٹائے۔ امانت کی سب سے بہتر پاسداری خدا کی راہ میں شہادت ہے۔ اگر زندگی کا اختتام موت ہے تو اس کا بہترین انتخاب شہادت ہے۔ بلاشبہ شہداء کے خون میں وہ تڑپ ہے جس سے معاشرے جمود سے تحرک کی طرف راستہ طے کرتے ہیں۔ شہداء کے خون سے پست معاشرہ ایک صالح معاشرے میں تبدیل ہو جاتا ہے کیونکہ شہداء مثل شمع ہیں جن کے خون کی حرارت سے مردہ معاشروں کی سانسیں بحال ہوتی ہیں۔ شہداء کا خون وہ آسمان ہے جس کے سائے میں معاشرے سنور و نکھر جاتے ہیں اور قوم و ملت کو ایک نئی اور پر امن زندگی عطا ہوتی ہے بقول شاعر:

شہید کی جو موت ہے
وہ قوم کی حیات ہے

وطن عزیز پاکستان کی شمع انہی شہداء کے پاک خون سے روشن ہوئی اور اس خون نے وہ چراغ جلائے جن کی روشنی ہر عام و خاص کی زندگی پر اب بھی موجود ہے۔ انہی شہداء میں سے ایک نام شہید لیفٹیننٹ سید یاسر عباس کا ہے جو پاک وطن کے عظیم مجاہد اور بہادر سپوت تھے۔ شہید یاسر عباس 22 جولائی 1988ء کو ٹیکسلا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید جعفر عباس آرمی میں تھے اور 2010ء میں کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ بلاشبہ والدین کی تربیت اور دعاؤں سے ہی انسان ترقی کے منازل طے کرتا ہے۔
شہید سید یاسر عباس ایک باکمال اور شجاع انسان تھے۔ شہید کی زندگی کے جس پہلو پر نظر کریں تو انسان حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ نجانے شہداء کو بے پناہ خصوصیات کہاں سے عطا ہو جاتی ہیں۔ کہتے ہیں ہر شہید کی آنکھوں میں ایک چمک ہوتی ہے جس سے ہر انسان موہ لیتا ہے۔ اسی طرح شہید یاسر عباس کے والدین کہتے ہیں کہ شہید کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی جس سے ہمیں شہید کے بلند کردار ، حریت پسندی ، غیرت و حمیت اور خصوصا شہادت کی خوشبو محسوس ہوتی تھی اور شہید بھی اپنے رفقاء کو کہتے نظر آتے کہ شہادت میرا رستہ ہے دیکھنا میری تصویر وطن عزیز کے عظیم شہداء کے ساتھ ہوگی۔ شہید کی زندگی کے تمام پہلو چاہے وہ تعلیمی قابلیت ہو یا فرائض کی انجام دہی ، چاہے وہ حقوق الله ہوں یا حقوق العباد ، چاہے وہ غیرت و حمیت ہو یا بہادری و شجاعت غرضیکہ ہر پہلو میں شہید اپنی مثال آپ تھے۔ شہید کے افکار و نظریات ، بہادری ، حوصلہ مندی اور شجاعت کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
شہید کے والدین ، بہنوں ، رشتہ داروں ، دوستوں اور قریبی افراد سے لئے گئے انٹرویو سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شجاعت و بہادری شہید کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی تھی۔ 22 مئی 2011ء کراچی میں مہران نیول بیس پر رات کی تاریکی میں دہشتگردوں نے حملہ کیا۔ دہشتگردوں کے پاس جدید اسلحہ ، کلاشنکوف ، راکٹ لانچر اور دستی بمب وغیرہ موجود تھے۔ سید یاسر عباس کو جیسے ہی فائرنگ کی آواز سنائی دی ، انہوں نے فورا جیپ نکالی اور جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔ دہشت گرد ائیر فورس کے ایریا سے نیوی کے کمپاؤنڈ کی طرف بڑھنا چاہتے تھے جہاں دیگر اہم طیاروں کے علاوہ اورینC.3 طیارے کھڑے تھے جبکہ بیس پر دیگر غیر ملکی آفیسرز کے علاوہ چینی انجینئرز بھی موجود تھے جنہیں خاص طور پر خطرہ تھا اور دہشت گردوں کا مقصد اور منصوبہ بھی انہیں یر غمال بنانا تھا۔ سید یاسر عباس نے دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے انہیں چند منٹ تک روکے رکھا۔ اس دوران شہید کے کئی ساتھی بھی اسے چھوڑ گئے وہ اکیلا ہی جرأت، بہادری، جوانمردی سے دشمن کا مقابلہ کررہا تھا۔ کمانڈر لیفٹیننٹ سید یاسر عباس نے وطن عزیز کے دشمنوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر سینے میں تین گولیاں کھائیں۔ تاہم اس وقت پاک فوج کے کمانڈوز موقعہ پر پہنچ گئے اور اگلے چند منٹوں میں دہشتگردوں کا قلع قمع کردیا۔ شہید کو نہایت زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیا جہاں شہید زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئے۔

جہاں جہاں پہ گرا ہے لہو شہیدوں کا
وہاں وہاں پہ فرشتے سلام کرتے ہیں

ایسا جرأت مندانہ اقدام شہید کے اعلی کردار پر دلالت کرتا ہے۔ شہید کی جرأت و بہادری پہ ہر محب وطن فخر محسوس کرتا ہے۔ ایک قوم ، ایک ملت ہونے کے ناطے ہم پاک وطن کے اس عظیم فرزند کو سلام پیش کرتے ہیں اور مادر وطن کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کو پیغام دیں گے جب تک شہید یاسر عباس جیسے بہادر سپوت موجود ہیں اس ملک پر ذرہ بھر آنچ نہیں آ سکتی۔

ہم تو مٹ جائیں گے اے ارض وطن لیکن
تم کو زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=6152