6

مکتب شہید سلیمانی۔۔۔۔ کُفر کے سامنے سر اٹھا کر جئیں

  • News cod : 6196
  • 24 دسامبر 2020 - 13:11
مکتب شہید سلیمانی۔۔۔۔ کُفر کے سامنے سر اٹھا کر جئیں
شہید زندہ ہوتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، اب یہ عُقدہ کھلا ہے کہ زندہ لوگ ہی شہید ہوتے ہیں۔ مُردے شہید نہیں ہوا کرتے۔ پس زندگی اور شہادت لازم و ملزوم ہیں۔ جو زندہ ہیں وہی شہید ہوتے ہیں اور جو شہید ہوتے ہیں وہی زندہ ہوتے ہیں۔ یعنی جہاں زندگی ہے، وہاں شہادت ہے اور جہاں شہادت ہے وہاں زندگی ہے۔

تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

شہید زندہ ہوتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، اب یہ عُقدہ کھلا ہے کہ زندہ لوگ ہی شہید ہوتے ہیں۔ مُردے شہید نہیں ہوا کرتے۔ پس زندگی اور شہادت لازم و ملزوم ہیں۔ جو زندہ ہیں وہی شہید ہوتے ہیں اور جو شہید ہوتے ہیں وہی زندہ ہوتے ہیں۔ یعنی جہاں زندگی ہے، وہاں شہادت ہے اور جہاں شہادت ہے وہاں زندگی ہے۔ مُردہ افراد جہاد نہیں کرسکتے، بھلا مُردوں کا جہاد اور جدوجہد سے کیا تعلق۔؟ جہاد اصغر ہو یا اکبر، اپنے ہی نفس کے خلاف ہو یا اپنے دشمن کے خلاف، یہ مُردوں کا کام نہیں ہے۔ جو زندہ ہوتے ہیں، وہی جہاد کرتے ہیں۔ اب جہاد کی ایک اور قسم بھی ہے جسے جہادِ کبیر کہتے ہیں۔ جہادِ کبیر بیک وقت نفس، دشمن اور زندگی کے تمام شعبوں میں طاغوت کے خلاف سربکف ہونے کا نام ہے۔ بشری حیات میں توحید محوری ہی جہادِ کبیر ہے۔

آسان لفظوں میں طاغوت کے سامنے جھکے ہوئے، کفر کے ہاتھ پر بیعت کئے ہوئے اور شیطان کے پروردہ معاشرے کو توحید کی پٹڑی پر ڈالنے کی کوشش کرنے کا نام جہادِ کبیر ہے۔ جو انسان اپنے عقائد، نظریات، معاشرے، تہذیب، ثقافت، تمدن، تعلیم، تربیت، عبادت، معرفت، عرفان، فلسفے، سیاست، اقتصاد اور اخلاق سمیت ہر چیز سے طاغوت اور کفرک ے غلبے کو ختم کرنے کی کوشش کرے، وہ اِس دنیا میں زندہ ہے، اُس کی جدوجہد جہادِ کبیر کی مصداق ہے اور وہی مجاہدِ کبیر ہے۔ جو انسان سارے میدانوں میں کُفر کی اطاعت کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے، وہ انبیا و مرسلین کی تحریک میں شامل ہو جاتا ہے۔ انبیاء و مرسلین کی بعثت کا مقصد ہی یہی تھا کہ سارے شعبوں سے کافروں کا غلبہ ختم کیا جائے۔ یہ جہادِ کبیر انبیاء و مرسلین کا مکتب ہے۔ یہ تمام میدانوں میں افراد کی تعلیم و تربیت کا جہاد ہے۔ ارشادِ پروردگار ہے: فَلَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ جَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا[1] لہٰذا آپ (ص) کفار کی بات ہرگز نہ مانیں اور اس قرآن کے ذریعے ان کے ساتھ بڑے پیمانے پر جہاد کریں۔

یہ آیت جہاد کبیر پر دلالت کرتی ہے۔ اس کا پیغام تین نکات پر مشتمل ہے۔
1۔ کافروں کی اطاعت نہ کریں۔
2۔ فقط اطاعت نہ کرنا کافی نہیں بلکہ ان کے خلاف جہاد کریں۔
3۔ ان کے ساتھ جہاد قرآن مجید کے ذریعے کریں۔
اب ان تینوں نکات کو مربوط کر لیجئے: اگر پہلے ہی کافروں کے آگے سر خم کر لیا تو پھر اگلے دونوں مرحلے نہیں آئیں گے اور اگر کافروں کے سامنے سر اٹھا کر جینا ہے تو پھر ہر محاذ پر سر اٹھانا ہوگا، پھر تہذیب و تمدن، علم و ادب، صحافت و سیاست، مدیریت و اقتصاد اور سائنس و ٹیکنالوجی وغیرہ سب میں خود کفیل ہونا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ سارے میدانوں میں کفار کے ساتھ پنجہ ازمائی بھی کرنی ہوگی، یہ پنجہ آزمائی تلوار کے زور پر نہیں بلکہ قرآن فہمی کی طاقت سے ہونی ہے۔ کفار کے سارے نظاموں کے مقابل اور متبادل کے طور پر قرآنی و توحیدی نظام لانے ہونگے۔

کُفر کے سامنے کمر خمیدہ، جھکے ہوئے اور مطیع لوگ یعنی مُردہ لوگ قرآنی نظام کے دعویدار نہیں ہوسکتے ہیں۔ عصرِ حاضر میں شہید قاسم سلیمانی مکتبِ جہادِ کبیر کے علمبردار ہیں۔ وہ سارے شعبوں میں کفر کے سامنے سر اٹھا کر جینے کے حق میں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے عہد میں دنیا کافر طاقتوں کی دست بوسی میں مصروف تھی، اُس وقت شہید قاسم سلیمانی نے دنیا کی کافر طاقتوں کو مخاطب کرکے کیا خوب کہا تھا: ہم ملت امام حسین ؑ ہیں، ہم ملتِ شہادت ہیں، ہم نے سخت حادثات گزارے ہیں، آو ہم تمہارے منتظر ہیں۔۔۔۔ یہ کُفر کو توحیدکی للکار تھی، یہ صدا آج بھی گونج رہی ہے، یہ آواز آج بھی ہم سے یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ ہم زندگی کے سارے شعبوں میں کُفر کے سامنے سر اٹھا کر جئیں۔ آج چاہے میڈیا کا محاذ ہو، تعلیم کا میدان ہو، کشمیر کا مسئلہ ہو یا فلسطین کا مورچہ، ہم ہر جگہ کافروں کے غلبے کے خلاف سرگرم رہیں۔ مکتبِ توحید میں کُفر کے سامنے سجدہ ریز ہونے، ظلم سہنے اور ظلم پر خاموش رہنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] فرقان ۲۵

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=6196