13

ہزارہ کی خاطر پرتعش زندگی کیوں چھوڑے؟

  • News cod : 7344
  • 07 ژانویه 2021 - 10:41
ہزارہ کی خاطر پرتعش زندگی کیوں چھوڑے؟
وفاق ٹائمز | جہاں قاتل کو چھپانے کی کوششیں کی جاے، مقتول کی آہ و فغاں کو زبردستی بند کردی جاے، وہاں پر قاتلوں کوغاروں میں نہیں اداروں اور ایوانوں میں ڈھونڈلینا چاہئے

ان دنوں میں وزیراعظم پاکستان نئے مکان بنانے میں مصروف ہیں۔
جبکہ کویٹہ میں ہزارہ برادری کے آباد گھر ویراں ہوگئے ہیں۔
شاید یہ بھی اس بات سے غافل ہیں کہ ریاست کی زمہ داری روٹی کپڑا اور مکان سے زیادہ تحفظ اور انصاف دیناہے۔
ہزارہ برادری نےکسی سےبھی روٹی کپڑا اور مکان نہیں بلکہ انصاف ہی مانگاہے۔
عمران خان کی پالیسی حریفوں سےکچھ مختلف ہوتی تو جاکر تعزیت پیش کرتے۔مگر ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔
پاکستان میں ہزارہ برادری کےلئے مکان سستے اور قبرستان مہنگے پڑ رہےہیں۔
جس طرح ہزارہ سے جینے کا حق پہلےچھیناجارہا تھا۔ اسی طرح آج بھی ان سے جینے کا حق چھیننا شروع ہواہے۔
پروفیسر ،ڈاکٹر ،انجنیر، حتی محنت کش مزدور بننا ان کا جرم بن گیاہے۔
کل کی طرح ہزارہ کا بچہ جوہی زمہ دار فرد بن کر محنت مزدوری شروع کردیتاہے پچاس روپے کی چاقو یا گولی کا نشانہ بن جاتاہے۔
کل بھی وہ خود ہی اپنا دکھ آپس میں بانٹتے تھے آج بھی کسی مداوا کےمنتظر ہیں۔
ویسے پرتعش زندگی میں مگن وزرا اور جج کیا جانے کہ دکھ کیاہوتاہے۔ ان کو تواپنی مدت پوری کرنی ہوتی ہے اور تنخواہ لینا ہوتاہے۔
ہزارہ اپنے عزیزوں کی لاشوں کو لے کر جتنے دن سڑکوں میں رہنا ہے رہنے دیجئے۔
ان کا ان سے کیا لینا دیناہے۔
چاہے احتجاج کرتے کرتے مقتولین کےورثا سڑکوں پر مہینے گزارےکوئی جج از خود نوٹس لینے کی زحمت کیوں کرےگا۔
مگر سموسہ کا وزن کم ہونے پر یقینا سوموٹو لیں گے کیونکہ یہ ملکی خزانے کا سب بڑا مسئلہ ہے۔
مگر وزرا، جج اور آفیسر ہزارہ کے حق میں صرف وہی روایتی جملہ بول سکتے ہیں کہ “اس میں ملک دشمن عناصر کا ہاتھ ہے”۔
ان عناصر کی نشاندھی نہ کرنے کی قسم بھی سب نے کھائی ہوئی ہے۔
اب تو داعش نے بھی زمہ داری اپنے اوپر لے لی ہے۔
لگتا ایسا ہے کہ اب کچھ سال داعش کے بچوں کو پڑھانے میں سب مصروف ہوجایں گے۔
سوچنے کی بات ہے کہ کسی وزیر یا جج کا کچھ جاتابھی کیا ہے کہ وہ نوٹس لیں؟ قتل بلوچ ، پختون ، ہزارہ ،شیعہ یا پھر کوئی گلگتی بلتی کا ہوتا ہے۔
ان کے اپنے رشتہ داروں کا قتل تھوڑی ہوتاہے کہ جو بلاول ہاوس،شریف ہاوس یا بنیگالہ کوچھوڑ کر کویٹہ،گلگت یا پھر ہنگو، پاراجنار پہنچ جاتے؟
کچھ سیاسی بیانات دے کر تعزیت پیش کردیں گے تو ان کی زمہ داری ہی مک جاے گی۔
رہی بات دھرنے اور احتجاجات کو دبانے کی تو پھر میڈیا کس کام کا ہے؟
احتجاجات اور دھرنوں میں لواحقین کی غلطی کی تلاش میں لگادیں گے۔
جوہی کوئی معمولی سی غلطی بھی سرزد ہوجائے اسے کوریج دیں گے۔
پھر مشتعل ،قوم پرست،غدار، یا پھر بیرونی ایجنٹ کے نام سے گرفتاریاں شروع ہوجایں گی۔
تب تک ورثا کے ذہن سے سانحے کے نشاں تک مٹ جایں گے۔
ایک بات طے ہے کہ جہاں قاتل کو چھپانے کی کوششیں کی جاے، مقتول کی آہ و فغاں کو زبردستی بند کردی جاے، وہاں پر قاتلوں کوغاروں میں نہیں اداروں اور ایوانوں میں ڈھونڈلینا چاہئے۔

تحریر اشرف سراج گلتری
a.seraaj512@gmail.com

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=7344