14

حضرت زہرا سلام الله علیها کی حیات طیبہ کے چند لازوال پهلو

  • News cod : 8326
  • 17 ژانویه 2021 - 21:14
حضرت زہرا سلام الله علیها کی حیات طیبہ کے چند لازوال پهلو
موثر اور عہد ساز انسانوں کی زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض انسانوں کی سیرت اور کردار کی اثر آفرینی مختصر لمحوں کے بعد معدوم ہوجاتی ہے اوربعض افراد کے کردار کی پختگی دوچار نسلوں تک اثر آفریں ہوتی ہے.لیکن کچھ ایسے کامل افراد بھی تاریخ میں دیکھنے کو ملتے ہیں.

( اسوه حسنه)
تحریر: بشیر مقدسی
مقدمه
موثر اور عہد ساز انسانوں کی زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض انسانوں کی سیرت اور کردار کی اثر آفرینی مختصر لمحوں کے بعد معدوم ہوجاتی ہے اوربعض افراد کے کردار کی پختگی دوچار نسلوں تک اثر آفریں ہوتی ہے.لیکن کچھ ایسے کامل افراد بھی تاریخ میں دیکھنے کو ملتے ہیں جن کی شخصیت ان کی سیرت وکردار کے آئینہ میں یوں ظاہر ہوتی ہے کہ اس کی تابناکی زمان ومکان کی حدود سے گذرجاتی ہے اور ہرعہد وعصر،ہررنگ ونسل اورہرتہذیب انسانی کے لئے برابرکےشریک ہوکر ،درخشاں تابناک، اسوہ حسنہ بن جاتی ہے.حضرت زہرا سلام الله علیهاکی حیات طیبہ بھی انفرادی اور سماجی لحاظ سے اس قدر پر فروغ اور حیرت انگیز ہے کہ اسکی تعبیر الفاظ میں نہیں کی جاسکتی ہے.
حضرت زہراسلام الله علیهاکی نورانی شخصیت کا تأثر وقت کی سطح پر بہتا ہوا وہ دریائے ناپیدا کنارہے جس سے ہر شخص بقدر بضاعت فیضیاب ہو سکتے ہیں ـ تمام انسانی کمالات اورخصوصیات میں بی نظیر اوربی مثال ہونے کے ناطے،حضرت زہرا سلام الله علیها کی ذات گرامی جویندگان راہ کمال انسانیت اور رہروان راہ وصول الی الخالق ، ‎ کیلئے بہترین سرمشق اورمشعل راہ کی حثیت رکھتی ہے ـ کیونکہ یہ وہ ہستی ہے کہ جسکی تعظیم کے لئے رسالت نے قیام فرمایا اور انکی حجت خدا ہونے کا واضح ثبوت پیش کردیا یہ وہ ہستی ہے جس کی مدح میں قرآن ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نظر آیا یہ وہ ہستی ہے جسے معصومین نے اپنا اسوہ قرار دیا چنانچہ امام مہدی علیہ السلام سیرت حضرت فاطمہ سلام الله علیهاکے اسوائیت کے پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ان لی فی بنت رسول الله اسوحسنه. بنت رسول کی زندگی میرے لئے بہترین اسوہ حسنہ ہے نیز علامہ اقبال بھی اسی اسوائیت کے پہلو کو اپنے ایمان افروز اشعار میں نمایاں طور پر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں .
مزرع تسلیم را حاصل بتول مادران را اسوہ کامل بتول
اس مختصر مضمون میں ہم حضرت زہرا سلام الله علیهاکی حیات طیبہ کے مختلف پہلوں میں سے چند اہم اور عصر حاضر کے لئے راھگشا نمونے بقدر بضاعت نگارش میں لانے کی کوشش کرینگے جو نہ فقط ہماری زندگی کو صبغہ اسلامی سے مزین کرینگے بلکہ بہت سارے معاشرتی مسائل اور مشکلات کے حل کے لئے راھگشا اور معاون بھی ثابت ہونگے مگر یہاںممکن ہے بعض کے ذہن میں یہ سوال ابھر آیا ہو کیا زندگی میں سرمشق اور نمونہ عمل کا ہونا،‎ ناگزیر ہے؟ذیل میں بطور مختصر بیان کرینگے کہ ضرورت سرمشق زندگی کے متعلق اسلامی نقطہ نگاہ کیا ہے.
نمونہ عمل اور اس کی ضرورت
دنیا میں کوئی بھی شخص بغیر نمونہ عمل کے زندگی نہیں کرتاہے بعض دانستہ طورپر اوربعض نادانستہ طورپر کسی کو اپناآئیڈیل بنائےہیں.اوراس مضمو ن میں نمونہ عمل سے مراد،‎ عمل اورفکر کا وہ عینی اور مشہود نمونہ ہے کہ کمال انسانیت تک رسائی حاصل کرنے کیلئے جس کا اتباع کیا جاتا ہے، شہید مطہری علیہ الرحمہ نے (اپنی کتاب انسان کامل میں) اسکی ضرورت پر تقریبا گیارہ دلیلیں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں انسانیت کے کمال تک رسائی حاصل کرنے کیلئے انسان کامل سے راہ کمال کاسیکھنا اور اسکا اتباع کرنا ضروری ہے اسکے بغیروہ اس مقام تک رسائی حاصل نہیں کرسکتاہے ،چنانچہ قرآن کریم میں رب العزت کا ارشاد ہورہا ہے :لقد کان لکم فی رسول الله اسوه حسنه ( سورہ احزاب 21 ).یعنی قرآن کریم نے اس آیت کریمہ میں مصداق اسوہ اور سرمشق کو بیان کرکے یہ بات واضح کردی کہ اسوہ اور نمونہ عمل کی ضرورت ایک روشن اور بدیہی شئی ہے جسکاانکار نہیں کیا جاسکتاہے.

حضرت زہرا سلام الله علیهاکی حیات طیبہ کن لوگوں کے لئے اسوه حسنه بن سکتی ہے؟
جہاں حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیهاکی حیات طیبہ ان افراد کیلئے آئیڈل اور نمونہ بن سکتی ہے جو اسلامی طرز زندگی کو فالو کرنے کی تگ و دو میں رہتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ انکی زندگی صبغہ الہی اختیار کریں جو چاہتے ہیں کہ کمال انسانیت اور منتہای عبودت کے اس ارفع مقام پر فائز ہو جہاں معبود کی ذات کے سوا سب کچھ ہیچ نظر آتا ہے، وہاں ان لوگوں کے لئے بھی سرمشق بن سکتی ہے جو اپنے ،‎ معاشرتی زندگی ،‎ ازدواجی زندگی اور زندگی کے دیگر شعبوں کے معاملات کو نمٹانے کی سعی اور کوشش میں ہوتے ہیں.
لہذا اسلامی طرز زندگی کو بطور شیوہ حیات قرار دیکر کمال انسانیت تک رسائی کا خواب تبھی شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے جب ہم کسی اسے انسان کامل جو عظمتوں اور انسانی اقدار کے بلند و بالا چیونٹیوں پر فائیز ہو ،کو اپنا نمونہ عمل اور الگو قرار دیں گے نیز اسکی سیرت و فضائل پر صرف داد دیکر انہیں وادی نسیان کے نذر کرنے کے بجائے اس پر من و عن عمل کریں گے. چونکہ انکی سیرت،‎ کمال انسانیت تک پہنچانے کا الہی نسخہ ہوا کرتی ہے اور جس طرح دوائی کھائے بنا صرف ڈاکٹر کی تجویز کو داد دینے سے بیمار ٹھیک نہیں ہوتا ہے بلکل اسی طرح بطور الگو معرفی شدہ ہستیوں کی سیرت کو اپنی زندگی کا شیوہ اور طرز عمل قرار دیئے بغیر کمال انسانیت تک رسائی بھی ممکن نہیں ہے.
مگر افسوس آج مسلمان اس قدر فرنگی ظاہری جلووں سے اس قدر مرعوب ہو چکے ہیں کہ اپنے معنوی رول ماڈلز کی طرز زندگی سے ایک قلم دور ہوگئے ہیں فرنگی طرز زندگی کو اپنے لئے اعزاز سمجھنے لگے ہیں اوربعض تو اس قدر فرنگی پوچ اور فریبندہ کلچر کا دلدادہ ہوگئے ہیں کہ اپنے الہی رولز ماڈل کے متعلق زبان داری کرتے ہوئے کہتے ہیں چودہ سو سال پہلے کی طرز زندگی کیونکر اس وقت کیلئے رول ماڈلز بن سکتی ہے؟ زین لهم الشیطان ماکانوا یعملون.
انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اسلامی اور انسانی اقدار کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو موسم کے ساتھ تبدیل ہوجائیں یہ زندگی کے وہ ثابت اور لاتغییر اصول ہے جو رہتی دنیا تک برقرار رہنے والے ہیں حضرت زہرکی حیات طیبہ انہی اقدار کا عملی نمونہ ہے جسے اللہ نے انسانوں کے لئے بطور رول ماڈل متعارف کروایا ہے.
لہذا اس گروہ کا عقیدہ درست نہیں ہے جو ائمہ علیه السلام کو انسانوں سے مختلف مخلوق قرار دیکر کہتے ہیں نمونہ عمل قرار پانے کیلئے اسوہ او راسوے کی اتباع کرنے والے کی زندگی میں سنخیت کا پایاجانا ضروری ہے جبکہ ہماری زندگی اور ائمہ کی زندگی میں کو ئی سنخیت نہیں پائی جاتی ہے انکے وجود نوری ہے جب ہم خاکی ہیں لہذا انکی زندگی ہمارے لئے قابل عمل نہیں ہے.
کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالی،‎ رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم انسانوں کے لئے اسوہ حسنہ کے طور پر پیش کرتا اور نہ ہی رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم معصومین علیهم السلام کی زندگی کو نجات کا ضامن قرار دیتے ہوئ انکی اتباع اور پیروی کا حکم دیتے،‎ لہذا معلوم ہوا کہ یقینا قابل عمل ہے اور انسانیت کی نجات انہی ہستیوں کے اتباع میں مضمر ہے .
حضرت زہرا سلام الله علیها کو اسوہ قرار دینے کا مطلب:
واضح رہے کہ حضرت زہراسلام الله علیها کی فضیلتیں دو طرح کی ہیں فضائل نفسی اورنسبی .فضائل نفسی ،‎ بغیر کسی نسبت کے انسان میں پائے جانے والے فضائل کو کہاجاتاہے اورکسی سے منتسب ہونے کے نتیجے میں ملنے والے فضائل کو فضائل نسبی کہا جاتاہے (سید جواد نقوی ، کتابچه ،حضرت زهرا الگو حسنه) پس حضرت زہرا اسوہ ہیں اسکا مطلب کیا ہے ؟ اسکا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ سب خواتین امام کی ہمسر بنیں یا سب امام کی ماں بنیں بلکہ اسوہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ ان صفات او خصوصیات میں حضرت زہرا سلام الله علیهاکی پیروی کی جائے جن کی وجہ سے وہ اس قابل ہوئیں کہ امام کی ماں بنیں ان صفات میں ان کا اتباع کیا جائے جن کے پرتو میں وہ حق و باطل کی معیار بن کر یوں ابھری کہ زبان وحی جنبش میں آئی اور حدیث ان اللہ لیغضب لغضبک و یرضی لرضاک ( کے ذریعے حضرت فاطمہ سلام الله علیهاکے سر پر عصمت و طہارت کا لازوال سہرہ سجادیا.
سیرت حضرت زهر ا کے چند لازوال نقوش
جامعیت کے ناطے دین اسلام کا اپنا طرز حیات ہے اور یہ لائف پیٹرن دین و دنیا دونوں میں کامیابی کا ضامن ہے او رقدم قدم پر انسانیت کی راہنمائی کرتا ہے اور ہدایت کے لئے نمونہ عمل کا بندوبست بھی کیا ہے تاکہ انکی سیرت کے مطابق اپنی زندگیاں استوار کریں .
انہی ہستیوں میں سے ایک اعلی نمونہ اور اسوہ حسنہ والی ہستی حضرت فاطمہ زہراسلام الله علیهاکی ذات گرامی ہے جسے ہمارے لئے اعلی مثال اور عظیم نمونے کے طور پر پیش کیا گیا ہے.مختصر یہ کہ ان مذکورہ قابل الگو فضائل میں اسطرح حضرت زہراسلام الله علیهاکا اتباع کیا جائے کہ ہماری زندگی حضرت زہراسلام الله علیهاکی حیات طیبہ کے سانچے میں یوں ڈھل جائے کہ انکی دلی محبت اور انکی عقیدت ہمارے ہر عمل سے چھلک پڑیں. یها ں انکے تمام فضائل کا ذکر اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں لہذا ذیل میں اختصار کے ساتھ چند اہم راھگشا نقوش زیب قرطاس کرونگاـ
1.ازدواجی زندگی : جب اہل قلم حضرت زہراسلام الله علیهاکی ازدواجی زندگی پر قلم اٹھاتے ہیں تو حضرت زہراسلام الله علیهاکی صرف گھریلو اخلاقیات ان کے مد نظر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے شہزادی کونین کی شادی بیاہ کے نہایت سادہ رسومات پر کما حقہ قلم نہیں اٹھا یا گیا جبکہ ازدواجی زندگی شادی بیاہ اور حق مہر کو بھی شامل ہوتی ہے . اس مختصر مضمون میں اس مبارک رشتے کی تفصیلی بیان ممکن نہیں .
تاریخ کے مطابق آپ جیسے بالغ ہوئیں آپکے لئے رشتے آنا شرو ع ہوئے بلاخرہ حضرت امام علی علیه السلام سے آپ کی شادہ ہونا طے پایا تو پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے حکم پر حضر امام علی علیه السلام نے اپنا ذرہ بیچ کر مہر کی رقم حضور اکرم کے حوالہ کردی اور پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم نے اس رقم کو تین حصوں میں تقسیم کیا ایک حصہ شہزادی کے گھریلو ضروریات کے لئے مختص کیا دوسرا حصہ شادی کے اخراجات کے لئے اور تیسرا حصہ جناب ام سلمہ کے حوالے کردیا اور فرمایا یہ رقم علی کے حوالہ کردو تا کہ علی اس رقم کے ذریعہ اپنے ولیمہ کے انتظامات کر سکیں . (مجلسی، بحارالانوار ،ترجمه،ج،43 ، ص 409 و 358) کائنات کے عظیم ترین شخص کی با عظمت بیٹی کی شادی کی سادگی دیکھیں کہ ایک ذرہ سے پوری شادی کا اہتمام ہوا جبکہ پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم عالم اسلام کے لیڈر تھے چاہتے تو شاندار طریقے سے بجا لاسکتے مگرامت کی آسانی اور فضولیات سے بچنے کی خاطر جس سادگی کے ساتھ اس مقدس رشتے کو جوڑ دیا گیا اسکی تعبیر الفاظ میں نہیں کی جاسکتی ہے.
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کل کی شادیاں نہ فقط اسلامی نہیں رہی بلکہ ان شادیوں نے تو سیرت فاطمہ الزہرا کا جنازہ هی نکال دیا ہے اور سنت سے اجنبی ہوکر رہ گئیں ہیں اور جہاں نت نئے خرافات اور رسومات نے شادی کا اسلامی اور زہرائی چہرہ مسخ کردیا ہے وہیں لایحتاج اور دیکھادیکھی فضول خرچیوں کی وجہ سے شادی ایک عذاب بن گئی ہے اس طرح بنت رسول صلی الله علیه وآله وسلم کی سیرت کو پائمال کرکے ہم نہ فقط رسول اللہ کی تکلیف کا ذریعہ بن رہے ہیں بلکہ سنت رسول کی کمزوری اور غیر اخلاقی امور کے فروغ کا باعث بھی بن رہے ہیں شادی بیاہ کے سلسلے میں سیرت و سنت سے دور ہونے کی وجہ سے لاکھوں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بے نکاح گھوم رہے جسکے نتیجے میں جتنے فسادات اور فحاشیاں جنم لے رہی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں سچ یہ ہے کہ دنیا کے پوچ جلوے اور ظاہری رعنائیوں کی انہماک نے اکثر و بیشتر مسلمانوں کو روح اسلام سے ایک قلم دور کردیا ہے جسکے نتیجے میں وہ قرآن و سنت کو پس پشت ڈال کر باگے جارہے ہیں فَما لِهؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً ـ
اسی ضمن میں حضرت زہرا سلام الله علیهاکی ایثار کا ایک نمونہ بھی پیش کروں تاریخ کے مطابق حضرت زہرا نے شادی کی رات سائل کے سوال پر اپنی شادی کا جوڑا جو کہ دلہن کے لئے بہت اہم ہوتا ہے،بخش دیا علامہ اقبال نے حضرت فاطمہ زہرا کی بخشش اور ایثار کے جلوں میں سے ایک کو بہترین اشعار کے پیرائے میں یوں بیان کیا ہے.
بہر محتاجی دلش آنگونہ سوخت بہ یہودی چادر خود را
حضرت زہراسلام الله علیهانے شادی کی رات ہی شادی کا جوڑا سائل کو دیکر آپنے پیرو کاروں کو یہ پیغام دیا کہ شادی کی رات خاص کر محتاجوں اور ضرورتمندوں کا خیال رکھاجائے.
اگر آج مسلمان اسی شادی بیاہ اور ایثار فاطمہ الزہرا سلام الله علیهاکو بطور نمونہ اپنی زندگی میں اتارنے کی کوشش کرے اور سینکڑوں فضول خرچیوں کے بجائے فقیروں اور مسکینوں پر خرچ کرنے کو اپنا شیوہ بنائے تو اسلا می معاشرے کی تقدیر بدل جائے گی یقینا اس معاشرے میں کو ئی فقیر رہے گا نہ کو ئی مسکین بلکہ نتیجتا معاشرے سے بہت سارے فسادات اور غیر اخلاقی امور کا خاتمہ ہوگا.

۲ـ قرآن کی تلاوت
دنیا کا ہر وہ شخص جو اسلامی طرز زندگی گزار نا چاہتا ہے قرآن کریم اس کے لئے ایک ایسا لائحہ عمل ہے جس کے پرتو میں و ہ اسلامی طرز زندگی گزارنے میں کا میاب ہوسکتا ہے جس کے لئے تلاوت قرآن ضروری ہے اسی ضرورت کے پیش نظر قرآن كريم ميں غالبا ايك آيت ميں كسي حكم كے متعلق دو بار اشاره نهيں هوا هے.بلكه ايك آيت ميں ايك هي حكم بيان هوا هے ، ليكن جب ، تلاوت كا تذكره آتاهے تو قرآن كريم كا يه انداز بدل جاتاهٍے اور ايك هي آيت ميں دوبار تلاوت قرآن كا مطالبه كرتاهوا نظرآتاهٍے:«فَاقرَؤا ما تَيَسَّرَ مِنَ القُرآن» « فَاقرَؤا ما تَيَسَّرَ مِنه»(مدثر،‎ ۲۰)اس آيت ميں پرور دگار نے نصيحت والے انداز ميں قرآن كريم كي قرآئت كا مطالبه كركے يه واضح كرديا كه تلاوت اور قرائت قرآن كتني اهميت كي حامل هے۔
حضرت زہرا اور قرآن جیسے موضوعات میں اکثر و بیشتر انکے فضائل بیان کئے جاتے ہیں مگر حضرت زہرا کی زندگی میں قرآن کی اہمیت جیسے موضوعات پر بہت کم قلم اٹھایا جاتاہے یہاں مختصر انداز بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت فاطمہ الزہراسلام الله علیهاکی زندگی مجسمہ قرآن تھی انکی زندگی کا محور قرآن تھا اس قدر حضرت زہراسلام الله علیهاکو قرائت قرآن سے محبت اور عقیدت تھی کہ فرمایا :حُبّب اِلَیَّ مِنْ دنیاکُم ثلاثُ: تلاوة کتاب الله والنّظر فی وجه رسول الله والانفاق فی سبیل الله( بحارالانوار،‎ ج ۷۹ ص ۲۷،‎)»تمہاری دنیا سے تین چیزیں مجھے پسند ہے : اللہ کی کتاب کی تلاوت کرنا،‎ رسول کے چہرہ انور کی زیارت کرنا اور اللہ کی راہ میں انفاق شہزادی کونین کوتلاوت قرآن سے اسقدرشغف تھا کہ آپنے آخری آیام میں حضرت امام علی علیہ السلام سے وصیت کرتے ہوئے کثرت سے تلاوت قرآن کرنے کی در خواست کی اور فرمایا:وَ أَجْلِسْ عِنْدَ رَأسی قِبَالَةَ وَجْهی فَأَکْثَر مِن تَلاوةِ القُرآنِ وَ الدُّعاءِ فَإنَّها سَاعَةٌ یحْتاجُ اْلَمیتُ فیها إلی أُنسِ الأحیاءِ(محمد دشتی، نہج الحیاہ ‎ ج ،‎ صیام ص،‎۲۹۵) غرض یہ کہ حضرت زہراسلام الله علیهاکی زندگی کا کوئی لمحہ بغیر قرآن کے نہیں گزرتاہے چنانچہ علامہ اقبال نے اس بیش بہا سیرت کو کیا خوب شعر کے انداز میں پیش کیا ہے .
آن ادب پرودہ صبر و رضا آسیا گردان و لب قرآن سرا
ليكن افسوس كے ساتھ كهنا پڑتا هے كه اکثر مسلمانوں كے پاس قرآن كيلئے تھوڑا ٹائم نهيں هے ، یه ايك حقيقت هے كه هم نے قرآن كے سلسلے ميں بهت كوتاهي كي هے همارے كاندھوں پر قرآني حوالے سے تمام ذمه دارياں هيں كيا هم آپنے آپ مطمئن هيں كه هم نے قرآني حوالے سےتمام ذمه داريوں كو پورا كرديا هے۔
كمپيوٹر،انگلش ((languageوغيره سيكھنے ميں هم كئي مهينے صرف كرديتے هيں،فضول باتوں ميں كئي گھنٹے ضايع كرديتے هيں، كيا هم اپني مقدس كتاب كوسمجھنے كيلئے تھوڑا سا وقت صرف نهيں كرسكتے هيں؟! هم اپنے بچوں كي مروجه تعليم كا كتنا خيا ل ركھتے هيں،كتناپيسه خرچ كرتے هيں؟ كياهميں اپنے بچوں كي قرآني تعليم كے حوالے سے اتني فكر هے جتني انكي دوسري تعليم كے حوالے سے هے.!؟ كيا هم اپنے بچوں كي قرآني تعليم كواتني اهميت ديتے هيں جتني اهميت انكي دوسري تعليمات كوديتے هيں اگرهم سے پوچھا جائے كه تم نے وحي كے بار ے ميں كيا كيا ؟ توكيا جواب ديں گے… وقال الرسول يا ربي ان قومي اتخدوا هذا القرآن مهجورا کتنا غم انگیز ہے انکی زندگی جوسینکڑوں صفحات پر مشتمل ناولز وغیرہ تو پڑھ لیتے ہیں مگر قرآن کا ایک صفحہ پڑھنا گوارا نہیں کرتے ہیں .کس قدر ماتم کیا جائے انکی فکر پر جو شب قدر تو مناتے ہے مگر وہ مقدس کتاب جس کی وجہ سے شب قدر کو فضیلت ملی ہے اس سے غافل ہیں. اللہ نے قرآن نے اس لئے نازل کیا ہے تاکہ ہماری زندگی انسانیت کے اعلی سانچے میں ڈھل جائے مگر ہم اسی مقدس کتاب سے ایک قلم دو ر ہے جو ہمیں مادی او رمعنوی مشکلات سے نکلنے کا سیدھا راستہ بتانے والی ہے. چنانچہ رہبر انقلاب کا فرمانا ہے کہ عالم اسلام کو در پیش چیلنجز کا علاج قرآن کریم کی تعلیمات کے سامنے تسلیم ہونے میں ہی ہے.
3. اخلاص : اخلاص کے لغوی معنی پاک اور صاف ہونے اور خالص ہونے کے ہیں راغب اصفہانی کہتے ہیں کہ اخلاص سے مراد ما سواللہ سے دل کو پاک کرلیناہے ( راغب اصفہانی،‎ مفردات،‎ ۱۵۵) پس اخلاص کا مطلب کسی بھی نیک عمل میں محض رضائے خداوندی کو مدنظر رکھنا ہے جو دنیاوی اغراض اور نفسانی خواہشات سے دوری کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے. شہزادی کونین کی ایک لازوال نقوش میں سے ایک اخلاص عمل ہے جو انکی وجود مبارک میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی،‎ اخلاص کے اس مقام پر فائزتھیں ه رسول نے فرمایا : ان اللہ لیغضب لغضبک یعنی اگر کو ئی دیکھنا چاہئے کہ اللہ اس سے راضی ہے کہ نہیں تو شہزادی کونین کی طرف دیکھے کہ وہ ان سے راضی ہیں یانہیں بی بی کو اللہ تعالی کی رضایت کے سوا اور کچھ نہیں سوجھتی تھیں چنانچہ کسی دن پیغبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا : جبرئیل آپکی حاجت روائی کے لئے حاضر ہے کو ئی حاجت ہو تو بیان کریں پوری ہوگئی تو جواب میں فرمایا: لا حاجَةَ لِی غَیرُ النَّظَرِ اِلی وَجهِهِ الکَرِیمِ؛ (ریاحین الشریعہ،‎ ج۱ ص،‎ ۱۰۵)سوائے نظارت جمال الہی کے اور کوئی آروز نہیں سبحان اللہ اس درجہ معنویت اور رضایت الہی کا طلب کہ رب سے رب ہی کے سوا اور کوئی تقاضا نہیں کرتیں ہیں. اس روایت کے مطابق حضرت فاطمہ الزہرا سلام الله علیهاکی اس خصوصیت میں ان لوگوں کے لئے ایک اہم درس ہے جو رب سے سوائے رب کے سب کچھ تقاضا کرتے ہیں .
حضرت زہرا صلی الله علیه وآله وسلم اخلاص کے اعلی چیونٹیوں پر فائز تھیں اسی اخلاص کامل و اکمل کے نتیجے میں اللہ نے آپ کو بیشمار فضائل سے نوازا چنانچہ رسول خدا فرماتے ہیں: زہرا کی اخلاص کا نتیجہ تھا کہ وہ اس بلند و بالا مقام پر فائز ہوئیں اور وہ رسول گرامی کی وارثت اور نسل رسول اللہ کو ادامہ دینے والی صفت جو انہیں کمال اخلاص کے نتیجے میں ملے:
لخصلتین خصّها اللّه بهما: إنّها ورثت رسول اللّه صلی اللّه علیه و آله و سلم، و نسل رسول اللّه صلی اللّه علیه و آله و سلم منها و لم یخصّها بذلک إلّا بفضل إخلاص عرفه من نیّتها مجلسی،‎ بحار الانوار،‎ ۴۳/۳۷)
یہ ایک اصل ہے جسے ہم اپنا الگو قرار دے سکتے ہیں اور اپنے تمام فعالیتوں کو کوششوں کا نہائی مقصد اللہ قرار دیں تا کہ ہماری زندگی صبغہ الہی اختیار کرے تو اللہ ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازے گا اور دنیا اور آخرت میں سعادت اور کامیابی کا سامان فراہم کرے گا.
اختصار کی خاطر اسی پر اکتفا کرتے ہوئے دعا کرتاں هو اللہ تعالی ہم سب کو شهزادی کونین کی معرفت کے ساتھ انکی سیرت پر چلنے کی توفیق عطافرمائے. امین
جاری

 

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=8326