7

کوئٹہ دہشتگردی کے عوامل

  • News cod : 8399
  • 18 ژانویه 2021 - 14:45
کوئٹہ دہشتگردی کے عوامل
اس جنگ کی ایک روش پراکسی وار ہے۔ جس میں دشمن کے اقتصادی زون میں موجود انسانی بستیوں سے استفادہ کیا جاتا ہے۔

تحریر: محمد روح الله
جب بھی کہیں پر کوئی واقعہ رونما ہو جاتا ہے تو اس واقعہ پر کئی پہلوں سے مطالعہ کیا جاتا ہے۔
سب سے پہلی تحقیق، اس کی حقیقت کے بارے میں ہوتی ہے کہ یہ جو واقعہ رونما ہوا ہے یہ کس نوعیت کی حقیقت ہے۔
پھر اس کے عوامل اور اہداف کی جستجو ہوتی ہے۔
کوئٹہ میں جو دلسوز واقعہ رونما ہوا ہے، اس واقعے میں کچھ نہتے مزدوروں کو بڑی بے دردی سے شہید کیا گیا ہے۔
وہ شہدا جن کو اس واقعے کیلئے انتخاب کیا گیا ان کا مسلک، مکتب تشیع ہے۔
جس گروہ نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے وہ پاکستانی داعش ہیں۔
یہ اس ماجرا کا خلاصہ ہے۔
اس واقعے کا سب سے پہلا اثر یہ ہوا کہ پورے پاکستان میں تشیع میں بیداری کی ایک لہر پیدا ہوئی۔ تشیع اس واقعے میں سراپا احتجاج بن گئے۔ کوئٹہ کے شیعہ نے دھرنا سے اس احتجاج کا آغاز کیا جو دیکھتے دیکھتے پورے پاکستان میں پھیل گیا۔
شہدا کے ورثا نے خود وزیر اعظم کو بلایا لیکن وزیر اعظم کے پاس وقت نہیں تھا لہذا چھ دن بعد ملک کا سربراہ حاضر ہوا۔
چھ دن تک ان سر بریدہ جنازوں کو سڑکوں پر منتظر رکھا۔ بہرحال جب وزیر اعظم کے پہنچنے سے مایوس ہوگئے شہدا کو دفن کیا گیا۔
وزیر اعظم کے اس عمل کو تحلیل کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کی نظر میں تشیع کی کتنی اہمیت ہے؟ وہ دیر سے کیوں ائے؟
ان کے آنے کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انہیں لگا ہے کہ کہیں چھ کروڑ تشیع بھی حکومت گرانے کیلئے پی ڈی ایم کا حصہ نہ بنے۔
بہرحال اس سانحے کا اثر پورے پاکستان کے تشیع پر پڑا ہے۔
گلگت بلتستان سے کراچی تک پارہ چنار سے کوئٹہ تک تشیع نے پاکستان کی تمام سڑکوں میں کنٹرول لیا۔
تشیع کے اس دھرنے کو جداگانہ تجزیہ و تحلیل کی ضرورت ہے۔

صوبہ بلوچستان کی اہمیت
صوبہ بلوچستان کی اہمیت کئی جہات سے ہے، ایک اہم ترین پہلو اس کی طبیعی منابع سے مالامال ہونا ہے۔
جبکہ اس خطے کی دوسری اہمیت اس کے گرم پانی پر گوادر بندرگاہ کا وجود ہے۔
درحقیقت پاک چین اقتصادی راہداری کا اصلی مقام یہی بندرگاہ ہے۔ چین نے اسی بندرگاہ کے سہارے سب کچھ داو پر لگایا ہوا ہے۔
یہ بندرگاہ پاکستان کی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
چین نے اقتصادی دنیا میں خود کو ٹرلین تک پہنچایا ہے اور جس نے تقریبا پوری دنیا کی معیشت کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ جس نے امریکا سمیت دیگر کئی ممالک کو تشویش میں ڈالا ہے۔ چین کی اقتصاد آئندہ چند سالوں میں امریکا کو بھی پیچھے چھوڑنے والا ہے۔ جس سے امریکا کی عالمی اجارہ داری خطرے میں پڑ رہا ہے۔ امریکا نے پوری دنیا پر استکبرانہ قبضہ کر رکھا تھا۔
لیکن چین کے اقتصادی رشد کرنے سے کم از کم امریکا دنیا کا واحد سپر پاور نہیں رہے گا۔ دنیا دوبارہ دو بلاک یا ممکن ہے چند بلاک میں تقسیم ہوں۔ لہذا ان خطوں پر سے امریکا کا تسلط ختم ہوگا۔ امریکا کی اقتصادی و حیثیتی مفادات خطرے میں پڑ جائے گا۔
لہذا چین کو اقتصادی طور پر نقصان دے کر ہی امریکا اپنی عالمی اجارہ داری اور تسلط کو برقرار رکھ سکتا ہے۔

جنگ اقتصادی
لہذا امریکا چین کو روکنے کیلئے جنگِ اقتصادی کا اعلان کرچکا ہے اور امریکا اور چین کے درمیان اقتصادی جنگ چھڑ چکی ہے۔
جنگ اقتصادی میں اصل ہدف چینی اقتصادی رشد کو نقصان پہنچانا ہے تاکہ اس اقتصادی دوڑ میں چین امریکا سے آگے نہ جائے اور امریکی عالمی اقتدار میں رکاوٹ نہ بنے۔
اس جنگ کی ایک روش پراکسی وار ہے۔ جس میں دشمن کے اقتصادی زون میں موجود انسانی بستیوں سے استفادہ کیا جاتا ہے۔
کہ ان بستیوں میں موجود اجتماعی گروہوں کے اختلافات سے استفادہ کیا جاتا ہے اور ان کے اختلافات کو ہوا دے کر فتنے میں بدل دیا جاتا ہے۔ جب کسی خطے میں فتنہ قائم ہوجائے تو وہ خطہ انسانی آبادی کے رہنے کے لائق نہیں رہتا۔ وہ خطہ ویران ہو جاتا ہے۔ وہاں کی آبادیاں فرار کا سوچنا شروع کردیتے ہیں۔
جب ایسی فضا قائم ہوں تو اس طرح کی بے ثباتی میں کسی بھی اقتصادی پروجیکٹ کیلئے جاذبہ باقی نہیں رہتا۔
چین کے نئے عالمی اقتصادی منصوبے میں چین نے شاہراہ ریشمِ جدید کو دوبارہ احیاء کیا ہے۔
اس کے چھ مختلف راہداریاں ہیں جو مختلف ممالک سے گزرتا ہے۔
سیپک (CPEC) چین کا پاکستان سے گزر کر جانے والا ایک راہداری ہے۔ جو پاکستان کے شمال یعنی گلگت بلتستان سے گزر کر بلوچستان بندرگاہ تک جاتا ہے۔ اس راستے چین عرب ممالک سے تیل لیتا ہے اور چین کے تیار شدہ پراڈکٹس مختلف ممالک تک جاتا ہے۔

اقتصادی رشد میں جہاں پر تولید ضروری ہے وہیں پر رسد بھی ضروری ہے۔
جب ایک مملکت تولید و رسد کرے تب اس کی اقتصاد رشد کرتا ہے۔
ایران کے پاس تیل تو ہے لیکن عالمی مارکیٹ تک رسد نہیں ہے لہذا تیل ہوتے ہوئے بھی ایران اقتصادی طور پر ضعیف ہے۔
یہ امریکا کا آزمودہ طریقہ کار ہے کہ کوئی ملک کسی اقتصادی منبع سے مالا مال ہوں، اگر وہ امریکا کی اطاعت نہ کرے تو اس کی عالمی مارکیٹ تک رسدیروک دیتا ہے لہذا وہ منبع اقتصاد اور رشد کا سامان رکھتے ہوئے بھی اقتصادی طور پر ضعیف ہو جاتا ہے۔
جو طریقہ کار امریکا نے ایران کی اقتصادی ناکہ بندی کیلئے استعمال کیا ہے جس میں ایران کو عالمی مارکیٹ تک رسد کو روکنے کیلئے پابندیوں کا سہارا لیا ہے۔
جبکہ چین کو بھی ضعیف کرنے کیلئے یہی روش اپنایا ہے یعنی عالمی مارکیٹ تک چین کے مصنوعات نہ پہنچے۔ لیکن تھوڑی سے فرق کے ساتھ۔ چین کے خلاف پابندی کا ہتھیار کارگر نہیں ہے۔
کیونکہ چین ایران کی طرح منزوی مملکت نہیں ہے بلکہ چین خود اقوام متحدہ کا مستقل رکن ہے اور ویٹو پاور رکھتا ہے۔ لہذا پابندی کا ہتھکنڈا چین کے خلاف زیادہ موثر نہیں ہے۔
لہذا چین کی رسد کو روکنے کا ایک طریقہ کار یہ ہے کہ جن ممالک سے یہ روٹ گزرتا ہے ان ممالک کے ذریعے ان راہداریوں کو بند کرادے
لیکن جو ممالک اس بات پر راضی نہ ہوں ان میں بے ثباتی اور ان کو متزلزل کردے۔
پاکستان نے چین کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اور یہ راہداری بنایا ہے۔

بے ثباتی کے حربے
کسی ملک کو بے ثبات اور متزلزل کرنا ہو تو اس ملک میں دہشتگردی پھیلا جاتا ہے۔ مختلف متصادم گروہوں کو لڑایا جاتا ہے۔ جب دو بڑا گروہ آپس میں لڑتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس خطے میں تمام اقتصادی فعالیتیں بند ہوجاتی ہیں۔

پاکستان کیلئے نقشہ
مستشرقین جب مشرق کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کا ہدف یہ نہیں ہوتا کہ وہ علم میں اضافہ کرے اور تحقیقی اداروں کا قیام ہوں۔ بلکہ ان کا اصلی ہدف پوری دنیا پر تسلط ہے۔ تسلط کیلئے انہیں مختلف اقوام کی شناخت اور ان کے مختلف کمزوریوں اور خصوصیات کا علم ہوں۔ تاکہ جس خطے میں کسی چیز کی ضرورت پڑے تو ان کی اپنی ثقافت اور کمزوری کے مطابق ان میں یہ کام انجام پائے۔
پاکستان میں دو خطہ جو اہم ہے وہ گلگت بلتستان اور بلوچستان ہے۔
دشمن نے انہی دو خطوں کو چنا ہے۔ گلگت بلتستان میں شورش برپا ہوں اور بلوچستان میں شورش برپا ہوں۔
صرف انہی دو کو انتخاب کرنے کی بھی وجہ عیاں ہے۔ کیونکہ ایک اس راہداری کی شروع کی جگہ ہے جگہ دوسرا اس کی انتہا ہے۔
لہذا شروع اور آخرکار کو بند کرے تو درمیان ہی بند ہوگا۔
اگر شروع اور انتہا کو چھوڑ کر کسی اور جگہ کا انتخاب کرے تو ممکن ہے کہ وہ راستہ بدل کر کسی اور طرف سے لے جائے۔
جبکہ شروع اور آخر میں کوئی متبادل مقام نہیں ہے۔ اب بلوچستان میں ایسا واقعہ ہو تو ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ بندرگاہ بلوچستان کی جگہ سندھ میں بنائے یا پنجاب میں بنائے۔
یا اگر گلگت بلتستان میں ہنگامہ ہوں تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ چین انڈیا سے لیکر آئے۔ چین سے ملانے کا تنہا سنگم گلگت بلتستان ہے۔

بلوچستان کیلئے انتخاب شدہ راستہ
چونکہ بلوچستان کوئٹہ میں شیعہ بھاری اکثریت میں موجود ہے۔
لہذا ضیاء کے زمانے میں شیعہ کو محاصرے میں ڈالنے کیلئے کوئٹہ شیعہ کے گرداگرد تکفیری افراد کو پال رکھے ہیں تاکہ یہ تشیع کو سرکوب کرے اور محاصرے میں رکھے۔
کیونکہ اس زمانے میں سویت یونین کو روکنے کیلئے پاکستان نے امریکا کے ساتھ مل کر طالبان بنائے۔
کیونکہ سویت یونین کے ساتھ گرم پانی متصل نہیں ہے۔ لہذا پاکستان کے گرم پانی پر اس کی نگاہیں ٹکی ہوئی تھی۔
اگرچہ پاکستان بننے سے پہلے سے ہی ان کی نگاہ اس پر ٹکی ہوئی تھی۔
لیکن جب پاکستان بنا اور انہیں پاکستان ضعیف محسوس ہوا انہوں نے یہ حرکت شروع کیا۔
لہذا پہلا قدم افغانستان کو قبضے میں لیکر اٹھایا۔
ان کا اگلا ٹارگٹ پاکستان کو قبضے میں لینا تھا۔
اصلی ہدف ہی پاکستان کو سویت یونین کا ایک کالونی بنانا تھا۔
پوری دنیا ڈری ہوئی تھی۔ امریکا نے جب سویت یونین کے خلاف پراکسی وار شروع کیا تو پاکستان نے بھی اس میں شمولیت اختیار کیا اور طالبان بنائے۔
دوسری طرف ایران میں اسلامی انقلاب وجود میں ایا۔ امام خمینی رح نے جب صدور انقلاب کا تذکرہ کیا۔ تو مغرب نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور صدور انقلاب کا معنی سویت یونین صدور انقلاب کی مانند قرار دیا۔
یعنی ان کی تفسیر کے مطابق ایران تمام اسلامی ممالک پر قبضہ کرنے والا ہے۔
لہذا عرب ممالک کو جان بوجھ کر ایران کے خلاف اکسایا۔
لہذا انقلاب اسلامی کا لازمی اثر یہ تھا کہ پوری دنیا کے مسلمانوں میں خیزش پیدا ہوں۔
اس خیزش کو روکنے کیلئے ضیاء نے انہی تکفیریوں کو مختلف عناوین سے شیعہ کشی پر مامور کردیا۔
ایک کام جو اس نے انجام دیا وہ یہ کہ شیعہ کثیر آبادی والے مناطق کے گرداگرد تکفیریوں کا محاصرہ ڈالا۔
لہذا آج جو ہزارہ شیعہ کے گرداگرد موجود تکفیریوں کا وجود، ضیاء کے زمانے کا ہے۔

اب امریکا ضیاء کے بوئے ہوئے فصل سے استفادہ کررہے ہیں۔
اس زمانے میں تکفیریوں کا وجود انقلاب اسلامی کے صدور روکنے کیلئے تھا۔
لیکن اب بھی وہ تکفیری موجود ہیں اور ان سے امریکا چین کے مقابل لڑنے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔
کوئٹہ کے شیعہ کو اس جرم میں مارا جارہا ہے۔
کوئٹہ میں یہ کام ہوسکتا ہے۔ چونکہ چین کا یہ پراجیکٹ صرف دو سال کا نہیں ہے کہ امریکا بہت جلد نتیجہ لینا چاہے گا۔
بلکہ یہ پراجیکٹ طویل مدت ہے۔ لہذا اس کی بساط بھی یہاں اے باندھنے کیلئے ایک مستقل راہکار کی ضرورت ہے۔
جس کیلئے پاکستان مخصوصا بلوچستان کیلئے فرقہ واریت کا راستہ چن لیا ہے۔
جس کی فضا تقریبا ماہ محرم میں رکھ دیا تھا۔
پہلے اہلسنت کے کسی شخصیت کو مارا۔
پھر شیعہ کو مارا۔
پھر کسی مدرسے پر حملہ کروایا۔
اب شیعہ کشی۔
یعنی پاکستان کو دوبارہ فرقہ واریت میں ڈال رہے ہیں۔ اس طرح سے یہ خطہ ناامن رہے۔
تشیع کیلئے آمادہ رہنے کی ضرورت ہے۔ ذہنی لحاظ سے اور حفاظتی لحاظ سے۔
گلگت بلتستان کیلئے انتخاب شدہ راستہ گلگت اور بلتستان دو شیعہ نشین خطہ ہے۔
بلتستان جہاں 87 فیصد شیعہ ہیں جبکہ گلگت جہاں تقریبا 50 فیصد شیعہ موجود ہے۔
اب ہر دو منطقہ کیلئے ان کی ابادی کے تناسب سے نقشہ کھینچا گیا ہے۔
دونوں کیلئے مشترکہ کھینچا گیا نقشہ یہ ہے کہ ان کو حقوق کے نام شورشیں کروائے۔
پاکستان مخالف تحریک ان میں ایجاد کرے۔
سیاسی و شناختی حقوق گلگت بلتستان کا حق ہے۔ لیکن یہ آواز گلگت بلتستان والوں کے منہ سے خود نکلے نہ کہ کوئی اس سے غلط استفادہ کرے۔
یو ایس ایڈ فری میں گلگت بلتستان میں موجود نہیں ہے۔
امریکا جو دنیا کا لقمہ چھین کر کھانے والا ہے نے کب سے امداد شروع کیا ہے؟
یہ امداد ایک بہانہ ہے۔ اصل ان کو گلگت بلتستان میں ورود کیلئے بہانہ چاہئے۔ امداد کے نام پر مختلف لوگوں سے ارتباط قائم کرنا اور چین کے خلاف پراکسی وار کیلئے لوگوں کو امادہ کرانا ہے۔
جب سے گلگت بلتستان میں یو ایس ایڈ ایا ہے۔ پاکستان مخالف اور حقوق کی تحریک زوروں پر شروع ہوگئی ہے۔
جبکہ حقوق کی تحریک تو انسان کو شعور کی بنیاد چاہئے تھا۔
حقوق کیلئے خود آواز اٹھائے۔
انسان کا ذہن ایسا ہی ہے جب کوئی بات اسے کہے تو وہ بات ذہن میں ہضم ہوجاتا ہے اور کچھ دن بعد وہی بات اس کا مطالبہ بن جاتا ہے۔
گلگت بلتستان کے عوام کو چاہئے کہ اپنی حقوق کی تحریک خود چلائے۔ جب تک حقوق نہ ملے جدوجہد جاری رکھے۔ حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے مخلص علماء کے زیر سایہ یہ جدوجہد کرے۔ نہ کہ کسی بے ایمان اور دین فروش اور خود فروش کے زیر سایہ۔ وہ حتما آپ کو حقوق کیلئے نہیں بلکہ اپنی ماموریت کیلئے اکسائے گا۔

دوسرا کام جو بلتستان میں ہوسکتا ہے وہ لسانیت کی بنیاد پر تشیع کو آپس میں لڑانا ہے۔ کیونکہ بلتستان میں علما کبھی بھی فرقہ واریت کی اجازت نہیں دیتا۔
دوسری طرف فرقہ واریت کیلئے دو فرقہ چاہئے۔
وہاں شیعہ اکثریت میں ہے۔ لہذا فرقہ واریت ایک ناممکن عمل ہے۔
جبکہ یہاں بلتی زبان، گلگتی زبان بولنے والے شیعہ موجود ہیں۔
دونوں شیعہ ہیں۔ لیکن دشمن ان میں لسانیت کا پھوٹ ڈال سکتے ہیں۔
یہ کام بھی وہاں پر ہورہا ہے۔
یہاں ہشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
تشیع لسان و خطے کی وجہ سے نہیں پہچانے جاتے، تشیع فقط مذہب سے پہچانا جاتا ہے۔
لہذا شیعیت کی حفاظت کی خاطر لسانیت کو ترک کرے۔

گلگت جہاں دو فتنے کا احتمال ہے۔ ایک تو شیعہ، سنی فرقہ واریت۔ کیونکہ وہاں پر سنی اور شیعہ دونوں موجود ہے۔ لہذا ایک تو ان میں یہ عمل ہوسکتا ہے۔
لہذا شیعہ سنی دونوں کو اس گیم کا حصہ نہیں بننا۔
دوسرا احتمال وہی حقوق کے نام پر گلگت کو اکساسکتا ہے۔
ان کیلئے بھی وہی راہنمائی ہے کہ حقوق کی جدوجہد ضروری ہے۔ لیکن صحیح اور حقیقی قیادت کے زیر سایہ یہ تحریک چلائے۔
لیڈروں کی شناخت کرے کہ کونسا لیڈر ہمیں کس سمت میں لے جارہا ہے۔
وہ شخص جو لیڈر بننے سے پہلے لوگوں کے سلام کا جواب تک نہیں دیتا تھا لیکن اب وہ لیڈر بن گیا ہے۔ اس سے بچنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس میں معمولی برابر بھی آپ سے ہمدردی نہیں ہے۔
یا اقتدار کی لالچ میں ایا ہے یا کوئی بیک پر اس کی ڈوری ہلا رہا ہے اور حقوق کا لفظ اس کی منہ سے نکال رہا ہے۔

نتیجہ
پاکستان میں ہر فتنے کی زد پر تشیع آتا ہے، کسی بھی عنوان سے۔
تشیع کو اپنی بصیرت اور حفاظت بڑھانے کی ضرورت ہے۔
امریکا اور چین میں جنگ اقتصادی چھڑ چکی ہے۔ اس جنگ کیلئے امریکا نے فرقہ واریت اور لسانیت کو ابزار قرار دیا ہے۔
مچھ کے شہدا اس جنگ کے شروعات ہیں ابھی ایسے مزید کاروائیاں ہونی ہے۔
اس سے پہلے کہ دشمن دوبارہ ان تکفیری مزدوروں کو اکسائے اور شیعہ کشی کرے تشیع اپنا حفاظتی نظام مستحکم کرے۔ قانونی طور پر اپنے لئے شیعہ سیکیورٹی ایجنسی بنوائے اور اپنی حفاظت کو مستحکم کرے۔
کیونکہ یہ واردات اس وقت تک ہونگے جب تک چین کا اقتصادی نظام مفلوج نہیں ہوجاتا ہے۔
دہشتگردی کی یہ جو تازہ لہر شروع ہوچکی ہے۔
پاکستان کے سابقہ وزیر رحمان ملک کے بقول جنوبی پنجاب میں ہزاروں تعداد داعش میں بھرتی ہوئے ہیں۔ پاکستان کے رسمی موقف کے مطابق اب تک اربوں روپیہ پاکستان مین منتقل ہوا ہے۔
بہرحال یہ سب خبریں حساس ہیں۔ حفاظتی تدابیر بڑھانے والی ہے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=8399