7

ہم یا تم، ضرور ہدایت پر، یا کھلی گمراہی کا شکار ہیں

  • News cod : 9372
  • 31 ژانویه 2021 - 10:20
ہم یا تم، ضرور ہدایت پر، یا کھلی گمراہی کا شکار ہیں
جب انسان عالی اہداف کو لے کر معاشرے کی اصلاح کا بیڑہ اٹھاتا ہے، اور انسانیت کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لانے کی تگ و دو شروع کرتا ہے، تو ایک مقام وہ بھی آتا ہے، کہ اس کے باجود کہ اسے مکمل یقین ہوتا ہے، کہ وہ حق پر ہے

تحریر: محمد اشفاق
انسانی زندگی میں مختلف مسائل پر فکر و نظر میں اختلاف رائے کا ہونا کوئی عیب نہیں، کیونکہ ہر انسان اپنے وجود میں ایک انفرادیت رکھتا ہے، جو وہ ہے، بعینہ اسی طرح کوئی دوسرا بالکل بھی نہیں، کیونکہ اس کا خالق بے مثل و بے مثال ہے، لہذا اس نے ہر مخلوق کے اندر اپنی ایک انفرادیت رکھی ہے، جو اسے دوسری مخلوق سے منفرد اور جدا کرتی ہے، اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں، کہ دنیا میں اربوں انسان رہتے ہیں، لیکن کسی ایک انسان کی آواز بھی بعینہ دوسرے انسان کی طرح نہیں ہے، اسی طرح انگوٹھے کا نشان، اور چہرے کے خد وخال۔ یہ ہو سکتا ہے، کہ بعض جگہ آوازوں میں شباہت ہو، یا چہرے ایک دوسرے کی طرح ہوں، لیکن بالکل ایک جیسے ہوں، بعینہ ایک دوسرے کی طرح ہوں، یہ بالکل بھی نا ممکن ہے، اگر کسی کا دل اس بات کو نہیں مانتا، تو وہ آج سے کہیں بھی کسی ایسے دو انسانوں کی تلاش شروع کر دے، جن کے چہرے ہو بہو ایک جیسے ہوں، یا ایک کی آواز بعینہ دوسرے کی آواز کی طرح ہو، یقین جانیے کہ وہ پوری عمر تلاش کرتا رہے گا، لیکن وہ کہیں بھی ایسی چیز ہرگز نہیں پائے گا، کیونکہ اس کون و مکان کا خالق ہر حوالے سے منفرد، یکتا، بے مثل ومثال، اور ہر جہت سے وحدہ لا شریک ہے، لہذا اس نے اپنے ہر مخلوق میں ایک انفردایت رکھی ہے، اور ہر ایک کو ایک امتیاز بخشا ہے، اور ہر مخلوق کو اس طرح سے منفرد رکھنا خود اس رب قادر و قاہر کی قدرت لا متناہی پر روشن دلیل ہے۔
جب یہ طے ہوا، کہ جسمانی ساخت اور ظاہری خدوخال کے اعتبار سے یگانگت نہیں، تو بالکل طبیعی بات ہے، کہ انداز فکر، طرز تفکر، اور سوچنے کے زاویوں میں اختلاف پایا جائے، یہ نہیں ہو سکتا، کہ دو آدمی بالکل ایک جیسا سوچیں، اور کسی خاص مسئلے پر ان کا انداز فکر ایک جیسا ہو۔
ہاں یہ ضرور ہے، کہ کچھ مسائل اتنے واضح، بدیہی، اور روشن ہوتے ہیں، کہ اس پر کوئی بھی انسان اختلاف نہیں کرتا، جیسے سورج کے نکلنے کے بعد دن کا اعتراف، یا یہ کہ جز کل سے چھوٹا ہوتا ہے، یا دو متضاد چیزیں جمع نہیں ہو سکتیں، یا جو چیزیں خمیر فطرت میں گوند کر رکھی گئی ہیں، ان پر کہیں بھی کبھی دو انسانوں کے اندر اختلاف رائے نہیں پایا جاتا، جیسے کہ ہر انسان کی فطرت میں کمال اور جمال سے محبت رکھی گئی ہے، اب کمال کے مصداق میں اختلاف ہو سکتا ہے، یہ عین ممکن ہے، کہ کوئی مال و دولت کے حصول کو کمال سمجھے، تو کوئی دنیاوی جاہ و جلال کو، لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی انسان کسی شے کو کمال جانتے ہوئے بھی اسے نفرت کرے، مگر یہ کہ وہ عقل کی دولت کھو کر جنون میں مبتلا ہو چکا ہو۔
بہرحال بدیہیات، فطریات، مسلمات اور ان جیسے دوسرے مسائل کو چھوڑ کر باقی امور میں اختلاف رائے کا وجود بالکل بھی عیب نہیں، بلکہ اگر طرز اختلاف درست سمت میں ہو، اور ہدف اصلاحِ فکر ہو، تاکہ ترقی اور پیش رفت کے نئے افق روشن ہوں، تو اس جیسا اختلاف کسی رحمت سے کم نہیں، شاید جو ایک حدیث میں آیا ہے، کہ میری امت کا اختلاف رحمت ہے، اس سے مراد ایسا با ہدف اختلاف ہو، کہ جن کا مقصد حسنِ نیت پر مبنی ہو۔
لہذا صرف اختلاف کے ہونے کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا، ہاں اختلاف کے طرز، اور اس کے ہدف پر بحث ہو سکتی ہے، اور اس کے طرز پر غور و فکر کرکے اسے ایک ایسے اسلوب میں ڈھالا جا سکتا ہے، کہ جسکا نتیجہ مزید بہتری، اچھائی اور کامیابی کے سوائے کچھ نہ ہو۔
لہذا یہی وجہ ہے، کہ بلند اہداف رکھنے والے، دردمند، اور مقدس آرمان پالنے والے انسان اپنے وجود کے اندر سمندر سے کہیں زیادہ وسیع دل رکھتے ہیں، وہ اپنے آپ کو محور حق سے متصل ہونے کے باجود بھی مخالف کے اختلاف کو خوش آمدید کہتے ہیں، اس کی باتوں کو سنتے ہیں، اور اسے یہ حق دیتے ہیں، کہ وہ حریت اور آزادی کے ساتھ اپنا مطمع نظر پیش کرے، البتہ یہ خواہش ضرور رکھتے ہیں کہ فکر آزاد رکھنے والا، فکر و تدبر کا درست سلیقہ بھی جانتا ہو، تاکہ آزادی اظہار ایک نعمت بن کر سامنے آئے، نہ یہ کہ انسان کو حیوان بنانے کا سببب بنے، اس لئے حضرت اقبال نے بہت ہی دلنشین پیرائے میں کہا ہے:
آزادی افکار سے ہے —— ان کی تباہی
رکھتے نہیں، جو فکر و تدبر کا سلیقہ
ھو فکر اگر خام ——- تو آزادی افکار
انسان کو حیوان —— بنانے کا طریقہ
لہذا اختلاف رکھنا عیب نہیں، بس طرز اختلاف مہذبانہ ہو، نیت اختلاف اخلاص پر مبنی ہو، اور ہدف اصلاح اور درستگی ہو۔
اور جب انسان عالی اہداف کو لے کر معاشرے کی اصلاح کا بیڑہ اٹھاتا ہے، اور انسانیت کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لانے کی تگ و دو شروع کرتا ہے، تو ایک مقام وہ بھی آتا ہے، کہ اس کے باجود کہ اسے مکمل یقین ہوتا ہے، کہ وہ حق پر ہے، بلکہ وہ محور حق و حقانیت ہے، بلکہ اس کا ہر عمل حق کا آئینہ دار ہوتا ہے، ان سب چیزوں کے باجود، طرف مقابل کو راہ راست پر لانے کی خاطر، اس کے ساتھ گفتگو کا دروازہ کھلا رکھنے کے ارادے سے اسے یہ کہتا ہے، کہ آئیں آپس میں بات چیت کرتے ہیں، ایک اچھے انداز سے بحث و مباحثہ کرتے ہیں، تاکہ جمال حق سے بہرہ مند ہو سکیں، اور عین ممکن ہے، کہ میں حق پر ہوں اور آپ گمراہی پر، یا آپ حق پر ہوں اور میں گمراہی کا شکار ہوں۔
ایسا انداز گفتگو اور اور طرز عمل مد مقابل کے سوچ پر لگے ہوئے تعصب، جہالت، ضلالت اور گمراہی کے تالے توڑنے میں کافی تاثیر رکھتا ہے، اگر مد مقابل کا دل مکمل طور پر سیاہ نہ ہو چکا ہو، اور اس کے اندر ضد و عناد اور ہٹ دھرمی نہ ہو، تو یقینا اس کے لئے حق کی طرف واپسی کسی بھی وقت ممکن ہے، فرعون کے جادوگر اس کی واضح دلیل ہیں۔
اسی خوبصورت اور انتہائی پر تاثیر طرز عمل کی طرف قرآن مجید نے سورہ سبا کی آیت نمبر 24 میں انتہائی دلنشین انداز میں اشارہ کیا ہے، ارشاد خداوندی ہے: { قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَى هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ}،
(اے حبیب) آپ (ان سے) کہہ دیجیے کہ آسمانوں اور زمین میں سے کون تم لوگوں کو رزق دیتا ہے، آپ (ہی) کہہ دیجیے (کہ وہ صرف) اللہ ہی ہے، اور (یہ بھی واضح کر دیں)، کہ ہم یا تم لوگ، یا تو ہدایت پر ہیں، یا کھلی گمراہی میں (ڈوبے ہوئے) ہیں۔
اب میں آپ سے سوال کرتا ہوں، کہ کیا ختمی المرتبت حق پر نہیں تھے؟ کیا آپ عین حق و حقیقت نہ تھے؟ کیا آپ خود محور حق کا مرکز نہ تھے؟ کیا آپ کو اللہ نے یہ خطاب نہیں کیا؟ یسین! قرآن حکیم کی قسم، بے شک آپ ہی صراط مستقیم پر فائز ہیں، کیا آپ کو یہ خطاب نہیں ہوا؟ کہ آپ نور دینے والے چراغ ہیں؟ اگر یہ سب کچھ ہیں، جو کہ یقین ہیں، تو پھر یہ تردد کیسا، یہ دو احتمال کیوں دییے گئے؟ ایسا کیوں کہا گیا؟ کہ ہم اور تم یا حق پر، یا کھلی گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہیں؟
جوابا یوں عرض کروں گا، کہ یہی تو اسلوب قرآن کی چاشنی اور دلآویزی ہے، اور یہی وہ اسلام کی دلآویز تہذیب اور حقیقی چہرہ ہے، کہ وہ گم کردہ راہ اور بھٹکے ہوئے کو فورا دھتکارتا نہیں، اسے فورا گمراہی کے بے رحم صحرا میں نہیں پھینکتا، بلکہ اس کے لئے ہمیشہ واپسی کا دروازہ کھلا رکھتا ہے، اس سے ہمیشہ حکمت و دانائی، لطف و عنایت، اور نرم لہجے میں بات کرتا ہے، اسے یہ حق دیتا ہے، کہ وہ آزادی اور حریت کے ساتھ سوچے، تاکہ جب وہ فطرت کی یہ دلنشین آواز سنے، کہ ہم یا تم حق پر یا کھلی گمراہی میں ہیں، تو اس کا ضمیر جاگ اٹھے، اور عین ممکن ہے، کہ وہ رحمت کے گھنے سایے کی طرف لوٹے، محور حق کی جاذبیت اسے کھینچ لائے، اور فطرت کی آغوش اسے ایک دفعہ پھر پناہ دے۔
لہذا اس آیت میں بہت زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے، اس کو دستور عمل بنانا چاہیے، ہمیشہ دوسرے کو اختلاف کا حق دینا چاہیے، البتہ پھر وہی بات دہرائے دیتا ہوں، کہ اختلاف رائے رکھنے والا بھی یہ سوچ کر اختلاف رکھے، کہ آیا یہاں اختلاف رائے بنتا ہے؟ کیا اس اختلاف کی بنیاد اخلاص نیت اور ہدف اصلاح ہے؟ تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ معاشرے کے مشکلات کو کم کرنے میں ایک اچھا، مثبت اور مفید کردار ادا کر سکیں، اللہ ہم سب کو درست طرز عمل اپنانے کی توفیق دے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=9372