23

اصول کافی کا مختصر تعارف

  • News cod : 9446
  • 02 فوریه 2021 - 6:47
اصول کافی کا مختصر تعارف
اس کتاب کو امام زمانہ ع کی غیبت صغری کے زمانے میں آپ کے سفیروں کے حضور بیس سال کی مدت میں لکهی گئی ہے-جناب ابن طاووس حلی فرماتے ہیں:شیخ کلینی کے موثق اور امین ہونے پر سب کا اتفاق واجماع ہے

اصول کافی کا مختصر تعارف
تحریر:محمد حسن جمالی
اصول کافی شیعہ احادیث کی معتبر کتابوں میں سے ایک ہے،اس کے مولف کا نام محمد بن یعقوب کلینی رح ہے-اس کتاب کا شمار کتب اربعہ میں ہوتا ہے اور شیعہ جوامع روائی میں پہلی کتاب ہے-محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی رازی معروف ثقةالاسلام کلینی (م ۳۲۸ هجری قمری)شیعہ بڑے محدثین میں شمار ہوتے ہیں،آپ امام مهدی عج کی غیبت صغری کے زمانے میں متولد ہوئے اور آپ سمیت دیگر بعض محدثین کوامام حسن العسکری اور امام هادی علیهماالسلام سے ملاقات کرنے اور ان سے بغیر کسی واسطے کے روایات نقل کرنے کاشرف حاصل ہوا ہے- آپ سے بہت سارے محدثین نے احادیث نقل کئے ہیں جیسے ابن قولویه ( کامل الزیارات کے مولف)ہارون بن موسی تلعكبری،ابوالفضل شیبانی و محمد بن ابراهیم نعمانی( کتاب الغیبة نعمانی کے مولف)وغیرہ-جناب نجاشی کے قول کے مطابق شیخ کلینی نے اپنی ازشمند ترین کتاب(اصول کافی)بیس سال کی مدت میں مکمل کیا ہے-کافی کے مولف وہ عظیم علمی شخصیت ہیں جسے رجالی سارے علماء نے پوری تاکید کے ساتهہ موثق قرار دیا ہے-علم رجال کے ماہر جناب نجاشی سمیت علامہ حلی اور ابن داود نے اسے ان الفاظ سے یاد کیا ہے(أوثق الناس فی الحدیث و أثبتهم» یعنی شیخ کلینی سب سے بااعتماد و محکم عالم دین ہیں-علامه بحرالعلوم نے اپنی کتاب رجال میں پیغمبر اکرم ص کی اس روایت(اللہ تعالی ہر سوسال کے شروع میں اندلس سے دین کی تجدید کے لئے کسی کو اٹهاتا ہے)کو نقل کرنے کے بعد لکها ہے:ابن اثیر نے کلینی کو تیسری صدی کے شروع میں مذہب امامیہ کی تجدید کرنے والا شمار کیا ہے-اس نے یہ بهی لکها ہے کہ اس دانشمند کا کلام حق پر مبنی ہے جسے اللہ تعالی نے اس کی زبان پر جاری کردیا ہے- جو بهی اصول کے مطالب پر غور وخوض کرے گا اس کے لئے یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ وہ مذکورہ حدیث نبوی کا مصداق ہے-کیونکہ اصول کافی ایک ایسی مفید حدیثی کتاب ہے کہ کثرت احادیث اور دقت نقل روایات کے اعتبار سے اس کی کوئی نظیر نہیں-اس کے علاوہ اس کتاب کو امام زمانہ ع کی غیبت صغری کے زمانے میں آپ کے سفیروں کے حضور بیس سال کی مدت میں لکهی گئی ہے-جناب ابن طاووس حلی فرماتے ہیں:شیخ کلینی کے موثق اور امین ہونے پر سب کا اتفاق واجماع ہے-ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں:عباسی دور حکومت میں جناب کلینی کا شمارشیعہ فاضل روئسا میں ہوتا ہے-علامہ محمدتقی مجلسی فرماتے ہیں:حق اور انصاف کی بات یہ ہے کہ کلینی کی طرح شیعہ علماء میں کوئی آیا ہی نہیں،جو شخص اصول کافی کی روایات اور کتاب کی تربیت پر غور کیاجائے اسے یہ بات قبول کرنے میں دقت محسوس نہیں ہوگی کہ اسے اللہ تعالی کی تایید حاصل تهی-
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیخ کلینی نے اصول کافی کس وجہ سے لکهی؟اس عظیم کارنامے کا محرک اصلی کیاتها؟اس کا جواب خود اس کتاب کے مقدمے میں مولف کتاب نے لکها ہے-وہ اصول کافی کی تالیف کا محرک یہ بتاتے ہیں کہ ایک شیعہ دینی مومن بهائی نے مجهے خط لکها جس کا مضمون یہ تها کہ جناب شیخ کلینی ہمارے زمانے کے لوگوں نے علم ودانش کو خیر باد کہا ہے، وہ جہالت اور نادانی کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں،وہ خود کو لقلقہ زبان سے تو مسلمان کہتے ہیں مگر اسلامی قوانین سے بے خبر ہیں-انہوں نے اپنے اچهے لوگوں کی اندہی تقلید میں کچهہ اعمال بجالانے کو دین نام رکها ہوا ہے اور مہم وغیر مہم اعمال کی تشخیص کا معیار انہوں نےاپنی عقل کو قرار دے رکها ہے لہذا آپ سے گزارش یہ ہے کہ کوئی ایسی کتاب لکهہ دی جائیں جو سارے لوگوں کی ہداہت وراہنمائی کا سبب بنے-جناب شیخ کلینی نے خط لکهنے والے کو جواب میں لکها: اے برادرآپ نے اپنی تحریر کے ذریعے مجهے اس حقیقت کی جانب متوجہ کرایا کہ مختلف احادیث نقل ہونے کی وجہ سے کچهہ دینی مطالب آپ لوگوں کے لئے مشکل ہوئے ہیں،آپ لوگ ان کی حقیقت کو نہیں سمجهہ پارہے ہیں- آپ کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ روایات کے اختلاف کے کچهہ اسباب وعلل ہیں جنہیں سمجهانے والا کوئی قابل اعتماد دانشمند تمہارے پاس نہیں جس کی وجہ سے آپ نے مجهہ سے ایسی کتاب تالیف کرنے کا تقاضا کیا جو دینی علم ودانش کے طلبگاروں کی ضرورت کی تکمیل کرے اور وہ ان کی ہدایت کا باعث بنے- اگرلوگ دینی علم اور اپنے سچے اماموں کی روایات اور ثابت سنتوں پر عمل کرنا چاہیں تو وہ اس کتاب کی طرف رجوع کرکے اس سے لے سکیں اور وہ اس کتاب کو دیکهہ کر خدا کے واجبات اور پيغمبر (ص) کی سنت پر عمل کرسکیں-پس جان لو اے برادر احادیث کے حقائق خود ائمہ ہی بہتر بیان کرسکتے ہیں- انہوں نے اس سلسلے میں ہماری راہنمائی فرمائی ہیں، انہوں نے صحیح احادیث کی تشخیص کے لئے زیلی بعض معیاروں کا تعارف پیش کردیا ہے:
1-انہوں نے فرمایا ہے کہ ہماری طرف سے جو روایات آپ تک پہنچے انہیں قرآن سے موازنہ کریں،اگر وہ قرآن کے مطابق ہوں تو انہیں لے لیں اور ان پر عمل کریں لیکن وہ اگر مخالف قرآن ہوں تو ان پر عمل نہ کریں انہیں دیوار سے دے ماریں یعنی رد کریں-
2- جو روایت عامہ کی گفتار کے مطابق ہو اس پر عمل نہ کریں کیونکہ ان کی مخالفت میں ہدایت ہے-
3- جس روایت کی صحت پر سب کا اتفاق ہو اسے لے لیں کیونکہ اس کی صحت میں شک نہیں -البتہ ان معیارات کے بل بوتے پر ہم فقط بعض روایات کی تشیص دے سکتے ہیں اکثر روایات کی تشخیص کے لئے ذیادہ احتیاط درکار ہے-اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے مجهے اصول کافی تالیف کرنے کی توفیق دے کر آپ کے تقاضا کو پورا کرنے کا موقع بخشا-
حدیث کی یہ عظیم کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے جو اصول،فروع اور روضہ سے عبارت ہے-پہلا حصہ یعنی اصول اعتقاد سے مربوط روایات پر مشتمل ہے-دوسرا حصہ یعنی فروع فقہی روایات پر مشتمل ہے اور تیسرا حصہ یعنی روضہ مختلف ومتفرقہ روایات پر مشتمل ہے-
اس کتاب کے پہلے حصے میں آٹهہ فصل یا بقول مولف آٹهہ ابواب ہیں جن میں مولف گرانقدر نے شیعہ عقائد کے بنیادی اصولوں کے ساتهہ اعتقادی مسائل سے مربوط بعض دیگر مطالب بیان کئے ہیں-
انہوں نے ہر عنوان کو مختلف ابواب میں تقسیم کیا ہے اور ہر باب میں متعدد روایات نقل کی ہیں جیسےباب الکفر والایمان اس میں دو سو ابواب ہیں-
کتاب العقل والجهل اس میں فقط ایک باب ہے جس میں 36روایات ہیں،اسی میں امام کاظم ع کا وہ توصیہ بهی ہے جسے آپ نے ہشام سے فرمایا تها- کتاب فضل العلم یہ بہت سارے ابواب پر مشتمل ہے-ان میں سے بعض مباحث یہ ہیں:علوم ودانش کی تحقیق کا وجوب، علم کی صفت،دانش اور دانشوروں کی فضیلت،لکهنے کی فضیلت، عالم کی صفت،تقلید،برحق عالم ،بدعت،رأى اور قیاس،علم کے بغیر اظہار خیال سے نہی،قرآن و سنت کی طرف لوگوں کا نیاز مند ہونا-
کتاب التوحید بهی حدوث عالم اور اس کے خالق کی شناخت، خدا کی معرفت کے کم ترین درجے،خدا کی کیفیت کے بارے میں بات کرنے سے منع کرنا،خدا کو قابل مشاہدہ قرار دینے والے نظرئے کا بطلان، ذات خدا کی صفات،اراده سمیت خدا کی دیگر صفات فعلی،اسماء الہى کے معانی،مشیت و اراده،سعادت و شقاوت، جبر و قدر و امر بین الامرین وغیرہ بیان ہوئے ہیں-
کتاب الحجة-یہ کتاب ایمان وکفر کے بعد اصول کافی کا سب سے وسیع حصہ ہے جس میں تین سو تیس ابواب ہیں جن میں بہت ذیادہ روایات نقل ہوئی ہیں-جن کے عناوین یہ ہیں:حجت کی احتیاج اور ضرورت،انبیاء رسولوں اور ائمہ اطہار کے طبقے،رسول نبی اور محدث میں فرق،امام کی شناخت کی ضرورت اور اس کی اطاعت لازم ہونا،ائمہ کی صفات(والیان امر، خازنان علم، نور الهى، ارکان زمین و…)،ائمه کے سامنے اعمال پیش ہونا
،انبیا کے علم کا وارث ائمہ،ائمہ کے ہاں جو چیز ہے (قرآن کریم کا مکمل علم، کتب انبیا، صحیفه فاطمة، جفر، جامعه و…)،ائمه کے علم ودانش,بارہ اماموں میں سے ہر ایک کی امامت پر دلالت کرنے والی نصوص اورمعصومین ع کی زندگی کی منتخب تاریخ-
کتاب الایمان و الکفر،یہ اصول کافى کا سب سے بڑا حصہ ہے جو دوسو ابواب سے ذیادہ پر مشتمل ہے- اس کے اصلی مباحث یہ ہیں:مؤمن و کافر کی خلقت، اسلام و ایمان کے معنی،صفات مؤمن و حقایق ایمان،اصول و فروع کفر، «گناہوں اور ان کے آثار،درجات و اقسام،کفر کے انواع واقسام-
کتاب الدعاء یہ دو حصوں پر مشتمل ہے: پہلےحصے میں دعا کی فضیلت اور اس کے آداب بیان ہوئے ہیں-اس کے شروع میں دعا کے آثار،دعا کی بدولت قضائے الہی تبدیل ہونا،دعاتمام بیماریوں کی شفا اور اس کی استجابت وغیرہ کا ذکر ہوا ہے -اس کے بعد دعا کے آداب جیسے روبہ قبلہ ہوکر بیٹهنا، دعا کے وقت خدا کو یاد کرنا، مخفی طور پر دعا کرنا،دعا کے مناسب اوقات، اجتماع میں دعا کرنا وغیرہ بیان ہوچکے ہیں- اس کے دوسرے حصے میں بعض حالات میں دعا کرنا،بعض ادعیہ کا متن اور چهوٹے اذکار وغیرہ نقل ہوئے ہیں-
کتاب فضل القرآن اس میں 14ابواب ہیں، جن میں حاملان قرآن کی فضیلت،تعلیم وتعلم،حفظ،قرائت و ترتیل قرآن کی فضیلت بیان ہوچکی ہےنیز ہرروز قرآن پڑهنے کی فضیلت کی مقدار معین ہوئی ہے «اصول» کافى کا آخری عنوان (کتاب العشرة) ہے جس میں لزوم معاشرت، اچهی معاشرت، معاشران خوب و بد سمیت معاشرت کے بعض آداب و وظایف،اجتماعی روابط جیسے ایک دوسرے کو سلام کرنا، بڑوں کا احترام، کریموں کا احترام،جلسوں میں امانت کی رعایت، ہمسایہ کا حق،ہمسر کا حق،نامه نگارى و… بیان ہوئے ہیں –
فروع کافی:
کتاب کافی کے دوسرے حصے کا نام «فروع الکافی» ہے جس میں فقہى مسائل سے مربوط روایات نقل ہوئی ہیں- اس میں موجود مباحث کے عناوین یہ ہیں:
کتاب الطهارة،کتاب الحیض،کتاب الجنائز ،کتاب الصلاة،کتاب الزکاة والصدقه،کتاب الصیام، کتاب الحج، کتاب الجهاد،کتاب المعیشة،کتاب النکاح، کتاب العقیقه، کتاب الطلاق ،کتاب العتق والتدبیر والمکاتبه، کتاب الصید، کتاب الذبائح، کتاب الاطعمه ،کتاب الاشربة،کتاب الزى والتجمل والمروة ،کتاب الدواجن،کتاب الوصایا،کتاب المواریث ،کتاب الحدود، کتاب الدیات، کتاب الشهادات ،کتاب القضا والاحکام، کتاب الایمان والنذور والکفارات- توجہ کیجئے کہ فروع کافى میں ایسے بعض عناوین ضمنی طور پر بیان ہوئے ہیں جو فقہی کتابوں میں معمولا مستقل طور پربیان ہوئے ہیں جیسے اجاره، بیع، رهن، عاریه، ودیعه وغیرہ-عنوان المعیشة میں امر به معروف اور عنوان الجهادنیز عنوان الحج میں زیارت ناموں کا ذکر ہوا ہے-

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=9446