18

مہدویت پر بحث کرنے کی ضرورت

  • News cod : 10055
  • 09 فوریه 2021 - 12:56
مہدویت پر بحث کرنے کی ضرورت
موعود ” یا “مصلح کل” کا موضوع ایک ایسا نظریہ اور خیا ل نہیں ہے کہ جووقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ذہن میں پیدا ہوا ہو اور یہ ایسا موضوع ہو کہ جو انسانیت کے دردوں کی تسکین اور مظلوموں کی دلداری کا ذریعہ ہوبلکہ یہ موضوع شیعیت کی شناخت ہے۔کہ جس کی ضرورت اور اہمیت کو آیات و روایات کی روشنی میں درک کیا جا سکتا ہے۔

تحریر:علی اصغر سیفی

موعود ” یا “مصلح کل” کا موضوع ایک ایسا نظریہ اور خیا ل نہیں ہے کہ جووقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ذہن میں پیدا ہوا ہو اور یہ ایسا موضوع ہو کہ جو انسانیت کے دردوں کی تسکین اور مظلوموں کی دلداری کا ذریعہ ہوبلکہ یہ موضوع شیعیت کی شناخت ہے۔کہ جس کی ضرورت اور اہمیت کو آیات و روایات کی روشنی میں درک کیا جا سکتا ہے۔

زیر نظر تحریر میں، بطور اختصارمہدویت کے موضوع کے مختلف پہلوؤں پر بحث کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں:

۱۔ اعتقادی پہلو

عقیدہ زندگی کی اصل اساس ہے یعنی انسان میدان عمل میں جو کچھ بھی انجام دیتا ہے اس کی بنیاد اس کے عقائد ہوتے ہیں۔

بنابراین اگر انسان کا عقیدہ صحیح اور مستحکم ہو تو انسان عملی میدان میں لغزش اور شک و شبہ کا شکار نہیں ہوگا۔ وہ اہم ترین چیز ہے کہ جو ایک صحیح عقیدے کو تشکیل دیتی ہے وہ معرفت ہے۔

معرفت حاصل کر کے ہی ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ امام زمانہ علیہ السلام ہی آئمہ ھدیٰ کی امامت کو دوام دینے والی شخصیت ہیں۔ آپ فیض الہٰی کے (بندوں تک پہنچنے کے لئے) واسطہ، خاتم اوصیاءاور مظہر صفات رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ ہیں۔

امام زمانہ علیہ السلام خالق کائنات کی معرفت کا وسیلہ و ذریعہ ہیں جیسا کہ احادیث میں خداوند متعال اور اس کے اوصاف کی معرفت کا ذریعہ اور وسیلہ، اولیائے خدا اور آئمہ ھدٰی علیہم السلام کی شناخت کوقراردیا گیا ہے۔ یہ ہستیاں مظہر اسمائے الہٰی ہیں اور ان ذوات مقدسہ کی صحیح معرفت ہی خدا کی معرفت کا وسیلہ و ذریعہ قرار پاتی ہے۔

شیعہ اور سنی راویوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ سے نقل کیا ہے : ” مَن مَاتَ و َ لَم یَعرِفۡ اِماَمَ زَماَنَہِ ماَتَ مِیتةً جاَھَلیة ” [1]

(جو شخص اس حال میں مرا کہ اپنے زمانے کے امام کی معرفت ( شناخت) نہ رکھتاہو۔ وہ جہالت کی موت مرا)

بعض دعاﺅں میں ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ معرفت امام کی توفیق طلب کریں:

“اَلَّھُمَّ عَرِّفۡنِی حُجَّتَکَ فَا نَّکَ اِن لَّم تُعَرِّ فۡنیِ حُجَّتَک ضَلَلۡتُ عَنۡ دِیِنی ” [2]

“خداوندا! اپنی حجت کی معرفت عطا فرماکہ اگر تو نے مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاﺅں گا۔”

کیا اتنی(روایات )کی مو جودگی کے باوجود، امام زمانہ علیہ السلامکی شناخت کااہتمام نہیں کرنا چاہیے؟ اور کیا حضرت ولی العصر علیہ السلام کے مقدس وجود کے مختلف پہلو ﺅں کو بہتر طریقے سے نہیں پہچاننا چاہیے؟

امام زمانہ علیہ السلام کی صحیح اور درست شناخت سے کیسے غافل رہ سکتے ہیں جبکہ امام زمانہ علیہ السلام اپنے غیبت کے زمانہ میں بھی سب مخلوقات کو اپنے الہی فیض سے محروم نہیں رکھتے اور ہم سب امام زمانہ علیہ السلام کی امامت کے فیوضات سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔

۲۔ معاشرتی پہلو

جب سے انسان نے زمین پر قدم رکھا ہے اس وقت سے ایک سعادت مندمعاشرتی زندگی کی آرزو کر رہا ہے۔ اگر اس خواہش کے برآوردہ ہونے کا امکا ن نہ ہوتاتو ہرگز ایسی خواہش ، آرزو اور امید انسان کی فطرت میں قرار نہ دی جاتی جیسے کہ اگر پانی اور غذا نہ ہوتی تو پیاس اور بھوک بھی نہ ہوتی۔

“مہدویت” ایک ایسی فکر ہے کہ جوبہت سے معاشرتی اثرات رکھتی ہے۔ ان میں سے سب سے اہم اثر، معاشرے کے پیکر سے مایوسی اور نا امیدی کا خاتمہ ہے مہدویت یعنی روشن مستقبل کی امید اور مظلوم اور بے سہارابشریت کے لئے آزادی کا پیغام اور یہ کہ ایک دن ایک مردخدا آئے گا اورلوگ جس چیز کی امید رکھتے ہیں وہ انجام پذیر ہو کر رہے گی۔

ہر مسلمان کا اس چیز پرپختہ یقین ہے کہ جو معاشرتی نظام،اس کی جائز خواہشات و آرزوﺅں کی تکمیل کر سکتا ہے اور جو اس معاشرتی نظام کو حق وعدالت کی بنیا د پر استوار کرسکتا ہے وہ اسلام کاوہ خوبصورت”حکومتی نظام” ہے۔جس کی کامل و مکمل شکل اما م زمانہ علیہ السلام کے ظہور کے وقت تشکیل پائے گی۔اوراس بات پر یقین امید، نشاط اورزندگی کے مساوی ہے۔

یہ فکر اتنی واضح و روشن ہے کہ حتٰی کہ بعض مستشرقین (جیسے جرمن فلسفی ماربین) نے بھی اس کو وضاحت سے بیان کیا ہے کہ”انتہائی اہم معاشرتی مسائل میں سے ایک مسئلہ جو امید (نجات) کا موجب ہو سکتا ہے وہ حضرت حجت ولی العصر علیہ السلام کے وجود پر اعتقاد رکھنا اور ان کے ظہور کا انتظار ہے”۔

بناءبر ایں،مہدی موعود علیہ السلام کے مقدس وجود پرعقیدہ رکھنا، (انسانوں کے) دلوں کے اندر امید کو زندہ کر دیتا ہے ، جو انسان اس “اصل”پرعقیدہ رکھتاہے وہ نا امید (اور مایوس) نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایک روشن اختتام حتمی ہے۔لہٰذاکوشش کرتاہے کہ خود کو اس (روشن اختتام )تک پہنچائے [3]اور یہی نظریہ اس کی مسلسل حرکت کا سبب بنتا ہے، بلکہ اس سے بڑھ کرروشن اختتام کو حقیقی شکل دینے کی را ہ میں جدوجہد کرتے ہوئے سختیوں و ناخوشگوار حوادث و واقعات کے سامنے شکست تسلیم نہیں کرتا ۔اس کا یہی عمل ” مہدویت” پر اعتقاد کے زیر اثر، بشریت کے لئے حاصل ہونے والا سب سے بڑا معاشرتی تخفہ ہے۔

سیاسی پہلو

عالمی سطح پر تاریخ ہمیشہ مختلف حکومتوں اور نظاموں کی شکست کی شاہد رہی ہے۔ عرصہ دراز تک دو غالب نظریات (کیپٹلزم،مغرب کی لبرل ڈیموکریسی کے نمائندہ کے طور پراور کیمونزم،سوشلزم کے نمائندہ کے طورپر ) نے ایٹمی اور غیر ایٹمی اسلحے کے ذریعے دنیاکےلئے خطرہ بنے رہے اور یہی ان کے نظریات اور نظاموں کی شکست کی واضح ترین دلیل ہے۔

ان نظریات نے عرصہ دراز تک معاصر عالمی سیاسی تفکر کو متاثر کئے رکھا لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے ایک شکست سے دوچار ہوا اور دوسرا (نظام یعنی سوشیالزم) شکست کے دہانے پہ ہے،مغربی لبرل ڈیموکریسی کودرپیش چیلنج کا آسانی سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس ( لبرل ڈیموکریسی) میں اخلاقی ، نفسیاتی، ٹیکنالوجی اور علمی (معرفتی ) بحرانوں کی بہتات اس بات کی علامت ہے کہ یہ شہنشاہیت اور نظام ایک سنگین شکست سے دوچار ہو نے والا ہے۔

ایسے حالا ت میں ناکامیوں،کھوکھلے نعروں اور امن و سلامتی کے سراب دیکھ کر تھکے ماندہ انسانوں کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟

آج کی بشریت عالمی سیاست میں نظر ثانی اور جدت کی پیاسی ہے۔ در حقیقت آج کا انسان شدید تشنگی محسوس کر رہا ہے او راس کو صرف “مدینہ فاضلہ” مہدوی کا نظام و منصوبہ ہی سیراب کر سکتا ہے۔

نظریہ مہدویت ایک عالمی نظریہ ہے اور یہ نظریہ دنیا کو چلانے کا ایک پروگرام اور منصوبہ رکھتا ہے۔بناءبر ایں جو نظام اور پروگرام معاصر بشریت کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ “مہدویت” یہی فکرہے۔ اور مہدویت کے حکومت کے بارے میں بلند ترین اور قیمتی اہداف و مقاصد ہیں، حتٰی کہ یہ فکر مہدویت، دینی حکومت (کے قیام) کے لئے ایک مفید اور قابل عمل منصوبہ بندی قرار پا سکتی ہے۔

اگر (نظریہ) مہدویت صحیح اندازمیں بیان ہوجائے تو دنیا بھر میں اصلاحی تحریکوں میں جان پڑ جائے گی۔ جس طرح کہ انقلاب اسلامی ایران ، حضرت امام مہدی علیہ السلام کے عالمی انقلاب کے لئے مناسب پیش خیمہ اور نقطہ آغاز بن چکا ہے۔

تاریخی پہلو

مہدویت کاسلسلہ امامت اور نبوت کے تسلسل کا نام ہے۔ اس وجہ سے تاریخ کے ایک حساس دور میں اس کا آغاز ہوا ہے۔ اور آج تک جاری و ساری ہے اور مہدویت کا یہ سلسلہ بشریت کی دنیوی زندگی کے اختتام تک باقی رہے گا۔ بناءبر ایں، امام علی علیہ السلامسے لے کر امام ولی عصر علیہ السلام تک (ان آئمہ کی) امامت کی کیفیت کے بارے میں بالعموم اور مہدویت کے بارے میں بالخصوص مسلمانوں کا رد عمل اور نیز اس سے پیش آنے والے تاریخی حوادث، تاریخ اسلام کے اہم اور حساس موضوعات قرار دئیے جا سکتے ہیں۔

مہدویت کے موضوع پر ہمیشہ بحث ہوتی رہی ہے اور شیعہ، سنی رورایات میں ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ سے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے بارے میں کثرت سے بشارتیں ذکر ہوئی ہیں۔تاریخ اسلام میں ہمیشہ امام مہدی موعود علیہ السلام کے عقیدے پر جہت سے آثارمرتب ہوئے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی اور حال میں بہت سی اصلاحی تحریکیں، نظریہ مہدویت سے متاثر تھیں( جیسے مصر میں فاطمیوں کی تحریک اور سوڈان میں مہدی سوڈانی کی تحریک ) ، (مہدی) موعود علیہ السلام پر عقیدہ کی بنیاد پر وجود میں آنے والی اصلاحی تحریکوں نے اسلامی معاشرے پر جو عجیب اثرات چھوڑے انہیں دیکھ کر کچھ حیلہ بازوں نے بھی لفظ مہدی کو استعمال کرتے ہوئے اپنے غلط اہداف تکہ پہنچنے کے لئے مہدویت کا دعویٰ کیا اورمسلم معاشروں کے کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا ۔

ثقافتی پہلو

ہم مسلمانوں کی (جملہ) ذمہ داریوں میں ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ مہدویت کے کلچر کو پھیلانے کے لئے زمین ہموار کر کے آنحضرت علیہ السلام کے ظہور میں (مزید) تاخیر کو روکیں۔ مہدویت کے ثقافتی پہلو کے اعتبار سے چند نکا ت پر کام کرنے کی ضرورت ہے:

۱۔ انتظار کی پالیسی کو واضح کرنا

انتظار کی پالیسی کا مطلب ہے وسعت نظر اورامام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کے لئے تمام وسائل اور توانائیوں کو کام میں لانا۔ امام کا ظہور فقط اسی وقت ہوگا جب ہم جمود کی حالت سے نکل کر اپنے آپ کو ایک فعال اور متحرک پروگرام کے تحت منظم کرلیں اور اپنے مشن تک پہنچنے کے لئے توانائیاں بروئے کار لائیں اور نظر ہماری مستقبل پر ہونا چاہئے۔

کیونکہ جب تک مستقبل روشن اور واضح نہ ہو اس وقت تک صحیح منصوبہ بندی نہیں کی جا سکتی۔

۲۔ غلط افکار کی پہچان

ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی کمزوریوں کو پہچانیں اوران کا ازالہ کریں ۔ مثال کے طور پر امام زمانہ علیہ السلام کی بحث میں افراطی رنگ نہ دیں۔ اسی طرح فقط امام کا قہر وغضب کا چہرہ لوگوں کے سامنے نہ رکھیں بلکہ امام کے اسوہ رحمت اور بے پناہ بخشش کو بھی پیش کریں۔ اسی طرح ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے کہ انتظار کا مفہوم تحریف کا شکار نہ ہو جائے۔ اور معاشرے میں ظلم وستم کے بڑھنے پر بھی سکوت اختیار نہ کریں کہ غلط افکار معاشرے پر حکم فرما ہوں۔

۳ ۔ دشمن شناسی

اسلام دشمن معاشرے میں مہدویت کی تعلیم کے رشد کو روکنے یا تحریف کرنے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں اوردشمن کوتو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اگر دشمن ایسا نہ کرے تو تعجب کرنا چاہیے۔ چونکہ دشمن کی ماہیت ہی یہی ہے۔پس اہل حق کو کوشش کر نی چاہیے کہ مہدویت کی ابحاث کو صحیح انداز میں پیش کریں تاکہ ہر قسم کی تخریب و تحریف کو روکا جا سکے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=10055