25

امام خمینیؒ ایک اسلامی لیڈر

  • News cod : 11045
  • 20 فوریه 2021 - 10:54
امام خمینیؒ ایک اسلامی لیڈر
امام خمینیؒ کی شکل میں (کہ جو فرزند رسول خدا ؐ و پیرو حیدر کرار ؑ تھا )مسلمانوں کو ایک ایسا رہبر عطا کیا جو اپنے علم و عمل ، صفات و اخلاق، شجاعت و شہامت میں رسول خدا ؐ و آئمہ معصومین ؑ کے کردار کی عکاسی کرتا تھا

سید ذیشان حیدر الحسنی
ادیان الٰہی میں سے خداوند عالم نے اسلام کوایک جامع دین اور قیامت تک کے لئے انسان کی نجات کی وسیلہ قرار دیا ہے اسی لئے رسول خدا ؐ نے اپنی دعوت کا آغاز اپنے اس شعار “قولوا لا الٰہ الا اللہ تفلحوا” سے کیا۔ اور جس ہستی پر اس دین کو نازل کیاگیا اس کو خدا نے انسان کامل اور افضل البشر کے نام سے متعارف کروایا اور ہمارے لئے یہ دستور نازل کردیا کہ “لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ”(۱) کہ تمہارے لئے رسول خدا ؐ کی زندگی میں اسوہ حسنہ ہے کہ جو بھی چاہتا ہے کہ انسان کامل کی منزل پر فائز ہو وہ اپنے رسول کی سیرت پر عمل کرے۔ اور رسول خدا ؐ کی ذات مبارک ہی وہ ہیں کہ جنہوں نے پہلی اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی کہ جو ایک طرف تو دین اور سیاست کے بہترین حسن امتزاج کا نام ہے اور دوسری طرف آج کے تمام کمیونیزیم، سیکولیریزیم اور میٹالیریزیم مذاہب کے ابطال کا۔ لیکن متأسفانہ دور حاضر کے مسلمان نے اسلامی اقدار کو پس پشت ڈا ل دیا اور سیاست سے دین کی جدائی کا قائل ہوگیا اور اقبال جیسا عظیم مفکر او رحکیم الامت یہ نالہ و فریاد کرتے ہوئے
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی (۲)
اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔
لیکن بیسویں صدی میں خداوند عالم نے امام خمینیؒ کی شکل میں (کہ جو فرزند رسول خدا ؐ و پیرو حیدر کرار ؑ تھا )مسلمانوں کو ایک ایسا رہبر عطا کیا جو اپنے علم و عمل ، صفات و اخلاق، شجاعت و شہامت میں رسول خدا ؐ و آئمہ معصومین ؑ کے کردار کی عکاسی کرتا تھا اور جو اقبال کے اس شعر کا مصداق حقیقی ہے
ہزاروں سال نرگس اپنی بی نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتی ہے چمن میں دیدور پیدا (۳)
کہ جو اسلام کے شجر سے اس طرح پیوست ہو گیا جیسا کہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ “یا ایھا الذین آمنوا ادخلوا فی السلم کافۃ” ”اے ایمان والو! تم سب کے سب ایک بار اسلام میں پوری طرح داخل ہوجاؤ “۔ (۴)
اسی لئے تو حضرت شہید باقر الصدرنے امام کے متعلق فرمایا تھا “ذوبوا فی الخمینی کما ذاب فی الاسلام ” کہ خمینیؒ میں ایسے ڈوب جاؤ جیسے وہ اسلام میں ڈوب گیا ہے ۔
رہبر معظم فرماتے ہیں کہ امام خمینی سے محبت تمام نیکیوں سے محبت کا نام ہے۔ کیونکہ امام وہ ہستی ہیں کہ جنہوں نے آج کے دور کے تمام مکاتب فکر کے دانشمندوں کو اپنے قول و عمل سے بتادیا کہ اسلام دین کامل ہے اور بشر و معاشرے کی نجات اس سے وابستہ ہونے میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا آپ کو ایک عظیم فقیہ، فلسفی، اصولی، عارف اور مربی ہو نیکے علاوہ ایک ایسے عظیم رہنما ہو نیکے ناطے پہچانتی ہے جس نے اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھی اور اس راہ میں تمام مشکلات و سختیوں کو وسعت قلبی کے ساتھ تحمل کیا اور ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے مقصد و ہدف سے پیچھے نہیں ہٹے۔
امام خمینیؒ اورحوزہ:
چونکہ علماء کے متعلق روایت میں وارد ہوا ہے کہ “العلماء ورثۃ الانبیاء” (۵) کہ علماء انبیا کے وارث ہیں لہٰذا جو ذمہ داریاں انبیاء اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں وہی علماء پر بھی واجب ہیں اور انبیاء کے جہاں وظائف میں سے لوگوں کو کتاب و حکمت کی تعلیم اور تزکیہ نفس ہے وہاں معاشرے کی رہبری و رہنمائی بھی ہے اور اس آیت میں انبیاء کے وظائف کی تصریح کی گئی ہے”ھو الذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم آیتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ” (۶) وہی ہے کہ جس نے امیوں میں سے ہی رسول کو مبعوث کیا کہ جو ان پر آیات کی تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں امام خمینی ؒ ایران کے فاسد معاشرے میں(جو ظلم و استبداد ی نظام کے تحت فحش و گناہ کی آماجگاہ بن چکا تھا) اپنے آپکو علم و عمل سے مزین کرنے کے بعد حوزہ میں طلاب کی فکری و اخلاقی تربیت کرنے میں مشغول رہے یہاں تک کہ آہستہ آہستہ ان کو سیاسی امور میں مداخلت پر ابھارنے لگے جو کہ شاہ اور اسکے حواریوں کے لئے ناقابل برداشت تھا اور چونکہ علماء بھی سیاست سے (مکمل) دست بردار ہوچکے تھے لہٰذا بعض علماء امام کوہی مورد ملامت قرار دینے لگے کہ جس سے حوزہ کے سیاسی و فکری جمود کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور اسی طرح امام نے فلسفہ کو بھی باقاعدہ حوزہ میں پڑھانا شروع کردیا جس کے نتیجے میں امام کو ملحدو پاگل تک کے القابات سے نوازا گیا۔ مگر اسکے باوجود امام طلاب کے بہت بڑے حلقے کو سیاسی فکر دینے میں کامیاب ہوچکے تھے کہ جو معاشرے میں اپنی تقریروں سے لوگوں کو شاہ اور اسکے نظام کے خلاف ابھارنے لگے اور امام کے ان شاگردوں اور ساتھیوں میں نمایاں شہید مطہری ؒ ، دکتر بہشتی، رہبر معظم،آیت اللہ منتظری و دیگر تھے یہاں تک کہ جب ۱۳۴۲ق، ش میں یہ دستور دیاگیا کہ اگر کوئی امریکی کسی ایرانی کو مار بھی ڈالے تو اسکا محاکمہ حکومت ایران نہیں کرسکتی، امام نے ان الفاظ میں ایک پُر جوش انداز میں تقریر کرتے ہوئے کہا
ميرا دل درد سے پھٹاجا رہا ہے میں اس قدر دل گرفتہ ہوں کہ موت كے دن گن رہا ہوں اس شخص نے ہمیں بيچ ڈالا ہمارى عزت اور ايران كى عظمت خاک میں ملا ڈالی اہل ايران كا درجہ امريكى كتے سے بھى كم كر ديا گیا ہے اگر شاه ايران كى گاڑی كسى امريكى كتے سے ٹکرا جائے تو شاه كو تفشيش كا سامنا ہو گا ليكن كوئى امريكى خانساماں شاه ايران يا اعلى ترين عہدے داروں كو اپنى گاڑی تلے روند ڈالے تو ہم بے بس ہوں گے آخر كيوں؟ كيونكہ ان كو امريكى قرضے كى ضرورت ہے- اے نجف ، قم ، مشہد ، تہران اور شيراز كے لوگو! میں تمہیں خبردار كرتا ہوں یہ غلامى مت قبول كرو كيا تم چپ رہو گے اور كچھ نہ کہو گے ؟ کیا ہمارا سودا كر ديا جائے اور ہم زبان نہ كھوليں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امامؒ کے اس تقرير نے تخت شاہی کو ہلا كرركھ ديا پورا ايران ارتعاش محسوس كرنے لگا سات دن بعد امام خمينى كو گرفتار كركے تہران کے مہر آباد ہوائى اڈے سےجلا وطن كر ديا گیا۔
امام کی عظیم قیادت کا یہاں بخوبی اندازہ ہوتاہے کیونکہ نجف جانے سے پہلے امام سرزمین ایران پر انقلاب اسلامی کے بیج بوچکے تھے اور انکے شاگرد اپنے وظیفے کی خاطر ہر خطرہ مول لینے کو آمادہ ہوچکے تھے چونکہ خداوند عالم نے علماء سے عہد لیا ہے کہ وہ ظالم کے ظلم پر خاموش نہ رہیں جیسا کہ نہج البلاغہ میں امیر المومنین ؑ نے فرمایا “وما اخذ اللہ علی العلماء ان لا یقارو علی کظۃ الظالم ولا سغب المظلوم (۷)”اور خدا نے علماء سے یہ عہد نہ لیا ہوتا کہ خبردار ظالم کی شکم پُری اور مظلوم کی گرسنگی پہ چین سے نہ بیٹھنا ۔
اگر یہ ذمہ داری نہ ہوتی تو وہ حکومت قبول نہ کرتے۔
اسی طرح حدیث میں وارد ہوا ہے “افضل الجھاد اعلاء کلمۃ الحق امام الحاکم الجابر(۸) ” افضل ترین جھاد جابر حکمر ان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔ علماء تو علماء اسلام نے اپنے تمام پیرو کاروں کو مخاطب کیا ہے “من اصبح ولایھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم”(۹) کہ جو صبح اس حالت میں کرے کہ امور مسلمین سے غافل ہو وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔
امام خمینی ؒاور ولایت فقیہ:
امام عراق آکر بھی ایرانی قوم سے غافل نہ ہوئے بلکہ مسلسل رابطے میں رہے اور یہاں بھی علماءکو اپنے وجود مبارک سے مستفید کرنے لگے اور ولایت فقیہ پر دروس دینے لگے۔ولایت فقیہ سے مراد ایسی حکومت ہے کہ جس میں الٰہی ہادی کی غیبت کیوجہ سے انکا کوئی شاگرد انکی تعلیمات کی روشنی میں حکومت کرے کہ یہ ایک عارضی انتظام و الٰہی حکومت کا عکس ہوتاہے جس میں حاکم اگرچہ غیر معصوم ہوتاہے لیکن اسکی روح الٰہی و ربانی ہوتی ہے جس کی وجہ سے لوگوں پر یہ حکومت ویسے ہی حق اطاعت رکھتی ہے جیسا کہ معصوم کی حکومت ہوتی ہے اور انہی کے متعلق یہ روایت وارد ہوئی ہے”قال امیر المومنین ؑ قال رسول اللہ اللھم خلفائی ۔ قیل یا رسول اللہ ؐ ومن خلفائک قال الذین یاتون من بعدی یروون حدیثی و سنتی فیعلمونھاالناس من بعدی”۔ (۱۰)
امیر المومنین ؑ کے پوچھنے پر رسول خدا ؐ نے اپنے خلفاء کے متعلق فرمایا کہ میرے خلفاء وہ ہیں جو میرے بعد آئیں گے میری حدیث اور سنت کو نقل کریں گے اور لوگوں کو سکھائیں گے۔
اس طرح امام زمانہؑ سے ایک توقیع وارد ہوئی ہے جس میں آپ ؑ نے فرمایا “واما الحوادث الواقعۃ فارجعوا فیھا الی رواۃ حدیثنا وھم حجتی علیکم وانا حجۃ اللہ علیھم “(۱۱) حوادث واقعہ میں ہماری حدیثوں کے نقل کرنے والوں کی طرف رجوع کرو وہ میری طرف سے آپ پر حجت ہیں اور میں خدا کی حجت ان پر ہوں۔
یہاں علماء کے مطابق حوادث واقعہ سے مراد پریشانیاں اور مصیبتیں ہیں نہ کہ صرف مسائل شرعیہ، اسی بنا پر امام خمینی ؒ نے دستور دیا کہ ناجائز حکومتوں کی طرف رجوع کرنا خواہ وہ امور اجرائی کے بارے میں ہو یا امور قضائی حرام ہے۔
اگرچہ ولایت فقیہ کو علماء نے عقلی استدلالات و آیات و روایات سے ثابت کیا ہے لیکن کسی نے بھی امام خمینی کی طرح اسکی تطبیق کا نہ سوچا۔ اور امام اسی جلاوطنی کی زندگی میں بھی لوگوں کو صبرو استقامت کے پیغامات پہنچاتے رہے اور ہر قسم کی مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جیسا کہ حدیث میں وارد ہے”المومن کالجبل الراسخ لا یحرکہ عواصف الریاح “(۱۲) کہ مومن مضبوط پہاڑ کیطرح ہے کہ جسے تندو تیز آندھیاں بھی نہیں ہلا سکتیں ۔ اور اقبال نے بھی کہا ہے
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے (۱۳)
امام خمینی کی سیاسی بصیرت:
امام خمینیؒ کی قیادت کی کامیابی کا راز انکی سیاسی بصیرت میں تھا۔ آپ استعمار کی ہر قسم کی سازش کو وقت سے پہلے ہی درک کر لیتے تھے پھراس سازش کو ناکام بنادیتے تھے اس کی بہترین دلیل فتح انقلاب اسلامی اور آٹھ سالہ دفاع مقدس ہے کہ جس میں پوری دنیا انقلاب اسلامی کو ناکام بنانے کی کوشش میں تھی اور صدام کو ہر قسم کی امداد دے رہی تھی لیکن آپکی تدبیروحکمت نے صدام اور تمام دنیا کی استعماری طاقتوں کے غرور کو خاک میں ملادیا کیونکہ آپ کی آنکھیں خدا کے نور سے دیکھتیں تھیں۔جیسا کہ حدیث میں آیا ہے “المومن ینظر بنور اللہ” مومن خدا کے نور سے دیکھتاہے یا دوسری حدیث میں آیا ہے کہ “وما تقرب الی عبد بشیء احب الی مما افترضتہ علیہ، وانہ لیتقرب الی بالنافلۃ حتی احبہ ، فاذا احببتہ کنت سمعہ الذی یسمع بہ و بصرہ الذی یبصربہ ولسانۃ الذی ینطق بہ۔۔۔ “(۱۴) اور کوئی بندہ کسی محبوب چیز سے میرا قرب حاصل نہیں کرسکتا مگر یہ کہ جو اس پر میں نے فرض کیا ہے، اور وہ نوافل سے میرا قرب حاصل کرتاہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرتاہوں اور جب میں اس سے محبت کرتاہوں تو اس کا وہ کان بن جاتاہوں جس سے وہ سنتاہے اور آنکھ بن جاتاہوں جس سے وہ دیکھتاہے اور زبان بن جاتاہوں جس سے وہ بولتاہے۔یہی وجہ ہے کہ امام کا عرفانی پہلو کسی سے مخفی نہیں کہ جسکی بہترین دلیل انکی کتابیں شرح دعاء سحر ، چھل حدیث و آداب نماز ہیں لھٰذا خدا نے انکی ہر موڑ پر مدد کی۔
امام خمینی کو بحیثیت ایک سیاسی و اسلامی رہنما ہونے سے جو چیز انکو دوسرے تمام رہنماؤں سے ممیز و ممتازکرتی ہے وہ انکا یہی عرفانی پہلو کا الیٰ حد کمال تک کا حامل ہونا ہے یہی وجہ ہے کہ جب پندرہ سال کی جلاوطنی کے بعد ایران واپسہی پر جہاز میں ہی کسی صحافی نے آپ سے یہ پوچھا کہ آپ اس وقت کیا محسوس کر رہے ہیں تو آپ نے فرمایا “ہیچ” یعنی کچھ بھی نہیں۔ میں نے تو اپنا وظیفہ انجام دیاہے اور یہی چیز انکی بندگی کے کمال کا پتہ دیتی ہے کہ جھاں بندہ اپنی ذات کو فراموش کردیتا ہے اور اپنے خالق حقیقی کو کمالات و فضائل کا منبع قرار دیا ہے جیسا کہ امام زین العابدین ؑ صحیفہ سجادیہ میں فرماتے ہیں کہ “اللھم حمدی لک فی کل حالاتی حتی لا افرح نما آتیتنی من الدنیا ولا احزن علی مامنعتنی منھا (۱۵)” خدا یا مجھے ایسا بنادے کہ تمام حالات میں صرف تیری ہی حمد کروں یہاں تک کہ جو کچھ دنیا میں سے دے اس پر خوش نہ ہوں اور جو کچھ دنیا سے لے لے اس پر غمگین نہ ہوں ۔اور اسی مرتبہ کا خداوندعالم نے اپنے بندوں سے تقاضا کیا ہے جب قرآن میں یہ فرمایا “لکیلا تأسوا علی ما فاتکم ولا تفرحوا بما آتٰکم ” تاکہ جو تم حاصل نہ کر سکو اس پر غمگین نہ ہو اور جو تمہیں دیاجائے اس پر نہ اتراؤ۔
لہٰذا آپ دنیا میں ایسے افراد کو تو دیکھیں گے جو سیاست کمال کی جانتے ہوں گے لیکن عرفان علمی و عملی میں زیرو ہونگے یا پھر عرفان میں تو حد کمال تک پہنچے ہوں گے لیکن سیاسی امور سے نا بلد ہوں گے۔ امام خمینیؒ کی ذات مبارک نے سیاست و عرفان کو جمع کر کے تمام مکاتب فکر کو یہ بتادیا کہ دین و سیاست میں ہرگز تضاد نہیں بلکہ دین عین سیاست ہے کہ جن کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا اور صرف دینی پیشوا ہی کے لئے سزاوار ہے کہ وہ معاشرے کی رہبری کرے۔
امام خمینیؒ اور وحدت اسلامی:
امام خمینیؒ نے اپنے پیغامات میں وحدت پر بہت زور دیا جیسا کہ قرآن میں بھی آیا ہے”واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا ” (۱۶) کہ سب خدا رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو اور جیسا کہ ایک دوسری جگہ آیا ہے کہ “ولاتنازعوا فتفشلوا تذھب ریحکم”۔ اور آپس میں نہ جھگڑو ورنہ کم ہمت ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جاۓ گی۔
امام شیعہ و سنی میں اتحاد کے قائل تھے کہیں دشمن اس سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ ہم ہاتھ کھولنے اور باندھنے کے چکر میں ہیں اور دشمن ہمارے ہاتھ کاٹنے کے۔
عراق سے اخراج:
انقلاب سے کچھ عرصہ پہلے دشمن نے آپ کے عزیز بیٹے مصطفی کو عراق میں شہید کرڈالا کہ جو ایرانی قوم کے غیض و غضب کا موجب بنا اور لوگ سراپا احتجاج سڑکوں پر نکلے اور اس طرح عراقی حکومت نے بھی امام ؒ کی فعالیت کے نتیجے میں امام کو یہاں سے کویت بھیج دیا لکن کویت نے آپ کو قبول نہ کیا اور آپ وہاں سے فرانس چلے گئے کہ جہاں پوری دنیا کی میڈیا آپ کے ارد گرد جمع ہونے لگی اور ایران میں بھی شاہ کی حکومت دن بدن ضعیف ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ وہ لوگوں سے ڈر کر مصر بھاگ گیا اور حکومت بختاور کو سونپ گیا۔ ۱۲ بھمن کو امام نے ایران آنے کا فیصلہ کیا اور جب تہران پہنچے تو لاکھوں لوگوں نے آپ کا استقبال کیا اور دس ہی دن میں انقلاب کامیاب ہوگیا اور امام نے ولایت فقیہ کی حکومت کا آغاز کیا اور ان لوگوں میں سے قرار پائے کی جنکی مدح و ستایش قرآن نے ان الفاظ میں کی ہے”ان مکنھم فی الارض اقاموا الصلوۃ واٰتواالزکوۃ وامرو بالمعروف و نہووا عن المنکر (۱۷) “۔اگر ہم انہیں زمین میں متمکن کریں تو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃٰ دیتے ہیں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ خدا نے امام ؒ کو ایسی عزت و تکریم سے نوازا کہ جب اس بندہ صالح نے اپنی آنکھ کو اس دنیا سے بند کیا اور خالق حقیقی سے جا ملے تو ایک کڑور سے زائد لوگ اسے الوداع کرنے آئے کہ تاریخ بشریت میں اس طرح کی خدا حافظی کی مثال نہیں ملتی ۔
اور اس کے توسط سے قائم ہونے والی حکومت آج مکتب تشیع کے لئے باعث افتخار اور انکی پناہ گاہ ہے جس سے پوری دنیا میں ہزاروں تشنگان علوم آل محمد اپنی پیاس بجھا رہے ہیں اور یہ سب کچھ اس عظیم امام کے پر برکت وجود کی بدولت ہے کہ جسکی کاوش کا نتیجہ امام زمانہ ؑ کے ظہور کی زمینہ سازی ہے کہ تاریخ میں انبیاء و آئمہ ؑ کے بعد اسکا کوئی ثانی نہیں ملتا کہ جس کا وجود متضاد صفات کا مجموعہ ہے کہ جسکی عظمت کو درک کرنے سے ہم شہوات میں پھنسے ہوئے مادی انسان قاصر ہیں۔ خدایا ہم سب کو اپنے اس بندہ صالح کی راہ و روش کو اختیار کرنے کی توفیق عنایت فرما اور اسکے درجات بلند فرما۔

حوالہ جات:
1- احزاب ۲۱
2-کلیات اقبال
3-کلیات اقبال
4-سورۃ البقرہ ۲۰۸
5-حکومت اسلامی (امام خمینیؒ)
6-سورۃ الجمعہ ۲
7-نہج البلاغہ ، خطبہ شقشقیہ
8-حکومت اسلامی (امام خمینیؒ)
9-گفتار دلنشین احادیث رسول ؐ
10-حکومت اسلامی (امام خمینیؒ)
11-حکومت اسلامی (امام خمینیؒ)
12-نہج الفصاحہ
13-کلیات اقبال
14-چہل حدیث امام خمینیؒ
15-صحیفہ سجادیہ دعا ۲۱
16- سورہ آل عمران ۱۵۳
17-سورہ آل عمران ۱۰۳
18-سورہ حج ۴۱

 

منابع

1- کلیات اقبالؒ
2-حکومت اسلامی (امام خمینیؒ)
3- نہج البلاغہ، (علامہ ذیشان)
4- گفتار دلنشین احادیث رسول ؐ
5- حکومت اسلامی (امام خمینیؒ)
6- نہج الفصاحہ
7- چہل حدیث امام خمینیؒ
8- صحیفہ سجادیہ
9- ۷۲۷ پرسش و پاسخ در محضر علامہ طباطبائی

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=11045