16

نظام مرجعیت کی شان

  • News cod : 12699
  • 07 مارس 2021 - 10:15
نظام مرجعیت کی شان
شیعیان علی ع کے نظام مرجعیت نے ہمیشہ دہشت گردی کی مذمت کی ہے، خود سوزی کی بجائے خود سازی کا درس دیا ہے۔ خود سوز و خود کش حملوں کو فتوی اور حکم کی حد تک منع کیا ہے

ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
6مارچ 2021 کی صبح کو میڈیا کی آنکھ نے دیکھا کہ دنیا کے سب سے بڑے مذہب عیسائیت کا روحانی پیشوا پوپ فرانسس ویٹیکن سٹی روم اٹلی سے باقاعدہ وقت ملاقات لیکر نجف اشرف کی ایک تنگ گلی میں واقع ایک ستر میٹر کے تین کمروں کے کرائے کے مکان میں پہنچتا ہے۔ تاکہ وہ شیعہ مذہب کی سپریم اتھارٹی سماحت السید علی السیستانی سے شرف ملاقات حاصل کرسکے ۔ نجف جانے والا کوئی غریب انسان نہیں ، بلکہ امیر ترین مذہبی لیڈر ہے ۔ کوئی کچے ذہن کاآدمی نہیں، اسکے عقیدے کو کوئی بدل نہیں سکتا، اسپر کوئی برین واشر اثر انداز نہیں ہو سکتا، اسپر کسی لابی کا اثر نہیں ہو سکتا ہے۔ اسے کوئی لالچ و حرص و طمع نہیں ہے نہ اسے کوئی خوف و خطر لاحق ہے ۔ اسکے سامنے سپر طاقتوں کے صدور ہاتھ جوڑے کھڑے نظر آتے ہیں۔یہ عیسائیوں کا روحانی باپ ہے ۔ پوپ کے سفر نجف سے ایک طرف مباہلہ والے نصاری نجران کی مدینہ میں حضور ص کی خدمت میں آمد کی یاد ماضی تازہ ہوگئی ہے ۔ دوسری طرف حضرت عیسی ع کی امام مہدی ع کے پاس آمد کے مستقبل کی پیشینگوئی کی نوید جدید مل گئی ہے ۔ تشیع کی مرجعیت نے ہمیشہ آسمانی مذاہب کی ہم آہنگی کا پیغام دیا ہے ۔ پوپ نے نجف کا رخ کرکے مولائے کائنات ع کی عظمت کو سلام کیا ہے اور انکی اولاد سے ملکر انسانیت کی امن و آ شتی اور مذاہب کے تقاریب سے نجات کی سبیل کی ہے ۔پوپ ایسے نہیں چلے گئے پوپ جب پال کے نائب تھے تب سے شاہد ہیں کہ شیعیان علی ع کے نظام مرجعیت نے ہمیشہ دہشت گردی کی مذمت کی ہے، خود سوزی کی بجائے خود سازی کا درس دیا ہے۔ خود سوز و خود کش حملوں کو فتوی اور حکم کی حد تک منع کیا ہے۔ دہشت گردوں کی مذمت ہی نہیں کی بلکہ انہیں نکیل بھی ڈالی ہے۔ القاعدہ، طالبان اور داعش جیسی جماعتوں کو ٹھکانے لگانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ داعش کو تو بلا شرکت غیرے مرجعیت کے حکم پر ختم کیا گیا خواہ وہ وہ عجم والے سید علی ہوں یا عرب والے عجمی النسل سید علی۔ شام کی داعش ہو یا عراق کی۔ حزب اللہ کی معاونت سے ہو یا حشد شعبی کی مدد سے ہو !
مرجعیت کی گائیڈ لائن نے وحدت اسلامی اور وحدت مذاہب آسمانی کا وہ آفاقی پیغام دیا ہے جس سے دنیا خطہ امن بن گئی ہے ۔ اور تکفیریوں کو اب جان کے لالے پڑ گئے ہیں ۔ ہمارے ملک امریکہ کے بیہودہ صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے سعودی شہزادے سے رشتہ داروں کیلئے تحفے تحائف بٹور کر جس ہارڈ لائنگ کی حمایت کی تھی اسکی ساری خیالی دیوار پوپ کے ایک دورے سے منہدم ہوگئی ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ صہیونیوں کی نیندیں بھی حرام ہو گئیں۔ 911 کے حملات سے لیکر لندن کے حملوں تک۔ تل ابیب کی جارحانہ پالیسیوں سے لیکر سعودی عرب کی معاندانہ کاروائیوں تک۔ سپر طاقتوں کے نہتھے ممالک و عوام پر حملات سے لیکر فرسودہ شاہی نظاموں تک۔ سعودی مطوعوں کے دہشت گردانہ فتووں سے لیکر یمن پر شب خون مارنے تک۔ نائیجیریا میں تکفیری مداخلت سے لیکر بحرین میں نہتھوں کو کچلنے تک کونسا ایسا ظلم ہے جسکی مذمت نظام مرجعیت نے نہیں کی ؟ اور فلسطین کے مظلوموں سے لیکر کشمیر کے مجبوروں تک۔ افغانستان کے پسے ہوئے بے کسوں سے لیکر لیبیا کے محروم بے بسوں تک۔ امریکہ میں جارج فلائیڈ جیسوں کے بہیمانہ قتل ہونے والے سیاہ فاموں سے لیکر ترکی میں سعودی سفارتخانے میں قتل ہونے والے صحافی
تک میں سے کسکی حمایت نظام مرجعیت نے نہیں کی۔ نظام مرجعیت نے ہمیشہ مظلوم کی حمایت کی اور ظالم کی مخالفت کی ۔ جب داعش نے حضرت یونس ع کا روضہ گرایا تو ویاں شیعہ جوانوں نے اپنی جان کی بازی لگاکر عیسائیوں کی جان مال اور آبرو کی حفاظت کی
جب داعش عراق میں اپنی آخری کاروائیوں سے اہل سنت کا قتل عام کر رہی تھی تو شیعہ جوانوں نے اسی مرجع بزرگوار کے حکم پر اینی جانوں کی بازی لگا کر اہل سنت کی حفاظت کی تھی۔ یہی حال شام کا تھا
جب عراق کے عیسائیوں کو پناہ کی ضرورت پڑی تھی تو اسی مرجعیت کے حکم پر امام حسین ع کے حرم کے جوار میں انہیں پناہ دی گئی تھی۔جہاں جہاں دونوں سید علی صاحبان کا بس چلتا ہے وہاں کے دونوں شیعہ نشین ممالک میں مسیحی و کلیمی برابر کے حقوق کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ شام میں بھی اہل کتاب کی عزت و تکریم میں کوئی کمی نہیں ہے۔ مرجعیت لشکر کشی کی بجائے اخلاق محمدی سے دین کی تبلیغ کی قائل ہے۔ اور اسکی اسکالر اپروچ اب بارڈر کراس کرکے دنیا کے ایوانوں سے گزرتی ہوئی وینٹیگن سٹی پہنچ گئی ہے۔ مینہیٹن نیویارک میں پندرہ سال قبل ایک بین المذاہب کانفرینس میں عیسائی اور یہودی پادریوں کی موجودگی میں راقم نے کہا تھا کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔ دہشت گردی اسلام میں نہیں کچھ دہشت گرد مسلمانوں میں گھس گئے ہیں ۔تو چیف ربائی نے کہا میں اس بات کا شاہد ہوں کہ مسلمان بالخصوص شیعہ دہشت گردوں کی مخالفت میں بھی دہشت گردی نہیں کرتے۔ دنیا نے دیکھا سعودی عرب، ہند، ترکی، افغانستان، لبنان، شام، بنگلہ دیش ،مصر، امریکہ، افریقہ، یورپ، برطانیہ، پاکستان امارات، کوئت، بحرین، لیبیا، آسٹریلیا، روس اور چین میں مقیم مختلف مذاہب کے لوگوں میں تقارب پیدا ہوا ہے تباعد نہیں۔ اسکی اصل وجہ پوپ ، آیت اللہ سیستانی، آیت اللہ خامنہ ای، مفتی اعظم مصر و مفتیان مذاہب جیسوں کے کامن فتوے یا ردعمل ہیں جنمیں لیڈنگ رول نظام مرجعیت کا ہے۔ ہم نے اپنے عہد شباب میں دیکھا تھا کس طرح ایک دو کمرے کے کرائے میں رہنے والے ایک بوریہ نشین نے اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کے تخت و تاج تاراج کردیے اور ایک مرجع کے فرزندان نے کسطرح صدام کو بھگا دیا۔ مرجعیت کی طاقت میرزائے شیرازی کے ایک فتوی میں بھی دیکھی گئی جب شرب تتن کو حرام کہا تو اس وقت کی سب سے بڑی طاقت برطانیہ ہل کر رہ گئی۔
آج نظام مرجعیت کی اہمیت کو سمجھنے کی مزید ضرورت ہے تاکہ وحدت امت اور تقارب ادیان مزید مستحکم ہو۔ اللہ کرے دیگر فرقوں کے مفتیان اور مذاہب کے ترجمان بھی اس ملاقات سے اثر لیں اور اپنے ماننے والوں کی مفید راہنمائی کر یں جلتی پر تیل کی بجائے پانی اور مٹی ڈالیں۔ بالاخص سعود و یہود متوجہ ہوں

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=12699