11

ساتویں رمضان کی دعا اور اس کی مختصر تشریح

  • News cod : 15810
  • 20 آوریل 2021 - 5:03
ساتویں رمضان کی دعا اور اس کی مختصر تشریح

تحریر: حجت الاسلام سید احمد رضوی اَللّهُمَّ اَعِنّي فيہ عَلى صِيامِہ وَقِيامِہ وَجَنِّبني فيہ مِن هَفَواتِہ وَاثامِہ وَارْزُقني فيہ ذِكْرَكَ بِدَوامِہ بِتَوْفيقِكَ يا هادِيَ […]

تحریر: حجت الاسلام سید احمد رضوی
اَللّهُمَّ اَعِنّي فيہ عَلى صِيامِہ وَقِيامِہ وَجَنِّبني فيہ مِن هَفَواتِہ وَاثامِہ وَارْزُقني فيہ ذِكْرَكَ بِدَوامِہ بِتَوْفيقِكَ يا هادِيَ المُضِّلينَ
ترجمہ :اے معبود! اس مہینے میں اس کے روزے اور شب زندہ داری میں میری مدد فرما، اور اس مہینے ہونے والے گناہوں اور لغزشوں سے مجھے دور رکھ، اور ہمیشہ تیرے ذکر کرنے کی مجھے توفیق عطا کر، تمہاری توفیق کا واسطہ اے گمراہوں کو ہدایت کرنے والے۔
انسان کی شخصیت میں دو پہلو ہوتے ہیں اسی لئے وہ ہرکام کو منفی یا مثبت پہلو سے انجام دے سکتا ہے ۔  انہی کاموں میں سے ایک اپنے اعضائے بدن پر کو قابو میں رکھنا ہے۔  اگر اعضائے بدن بے قابو ہوجائیں تو ان کا رخ منفی کی جانب ہوگا، لیکن ان کو کنٹرول کیا جائے اور اعتدال و میانہ روی سے استعمال کیا جائے تو ان کے  مثبت پہلوؤں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ جن اعضاء کے استعمال میں بڑی احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے ان میں سے ایک عضو انسان کی زبان ہے، جس کی لغزشوں اور خطاؤں کے بارے میں کچھ عرائض مختصرا بیان ہو چکے ہیں۔
آج کی دعا میں بھی  اس پر خاص تاکید ہو رہی ہے تاکہ زبان  کی اہمیت اور اس کا کردارواضح ہو سکے۔
سخن بہترین عبادت ہے یا بہت بڑا گناہ:
حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام  فرماتے ہیں:
لَيسَ عَلَى الجَوارِحِ عِبادَةٌ أخَفُّ مَؤونَةً وأَفضَلُ مَنزِلَةً وأَعظَمُ قَدرا عِندَ اللّهِ مِنَ الكَلامِ في رِضَا اللّهِ
اعضاء و جوارح کی عبادتوں میں سے “کلام”کے سوا کوئی ایسی  عبادت نہیں ہے جو انجام دینے کے لحاظ سے آسان اور اللہ تعالیٰ کے ہاں قدر و منزلت کے لحاظ سے عظیم ہو، بشرطیکہ وہ کلام اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے ہو۔
لیکن اگر  اسی زبان کو خدا کی معصیت اور نافرمانی کی راہ میں استعمال   کیا جائے تو اس سے برا  کوئی عضو نہیں ہے۔
عاقل انسان کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ فضول اور بے محل کلام نہیں کرتا اور زبان انسان کی شخصیت کی عکاسی بھی کرتی ہے۔
حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
تَكَلَّمُوا تُعْرَفُوا فَإِنَّ الْمَرْءَ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِسَانِهِ
بات کرو ، پہچانے جاؤ ، کیونکہ انسان  اپنی زبان کے نیچے پوشیدہ ہوتا ہے۔
خاموشی کے بارے میں کچھ نکات:
1۔خاموشی نجات کا باعث ہے
پیغمبر اکرم ﷺ فرماتے ہیں:
نجاة المؤمن في حفظ لسانه
مؤمن کی نجات اپنی زبان کی حفاظت میں ہے۔
2۔ خاموشی فلاح و رستگاری کا موجب ہے
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
لقمانُ عليه السلام ـ لابنِهِ ـ : يا بُنَيَّ، إن كُنتَ زَعَمتَ أنَّ الكلامَ مِن فِضَّةٍ فإنَّ السُّكوتَ مِن ذَهَبٍ
حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اگر تیرے خیال میں بات کرنا چاندی کی طرح ہے  تو(جان لو کہ ) خاموشی سونے کی طرح ہے۔
3۔ خاموشی سلامتی کا باعث ہے
پیغمبراکرم ﷺ فرماتے ہیں:
مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَسْلَمَ فَلْيَلْزَمِ الصَّمْتَ ”
اگر کوئی سلامتی چاہتا ہے تو اسے  سکوت اختیار کرلینا چاہئے۔
انسان اپنی زبان کے ذریعے مختلف کمالات کو پہنچ سکتا ہے،بشرطیکہ  اس کا صحیح استعمال کرے ۔قرآن مجید کی ہدایت و رہنمائی کے مطابق انسان اپنی  نرم زبان(قولالینا) اور نیک گفتار (قولا حسنا) کے ذریعے دوسروں کے دلوں پر حکومت کر سکتا ہے۔
اچھی بات  کی کچھ خصوصیات:
1۔ فکر و تامل کے ساتھ ہو
حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
فَکِّـــر ثُمَّ تَکَلَّــمْ تَسْلَــمْ مِنَ الزَّلَلِ
سوچو پھر بات کرو تو خطا اور لغزش سے بچ جاؤ گے۔
2۔ اسلامی آداب کی رعایت کرے
3۔ سچی بات ہو اور بات کرنے والا  خود اس پر عمل پیرا ہو
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لا تَفْعَلُونَ
اے ایمان والو! ایسی بات کیوں کرتے ہو جو تم نہیں کرتے۔
خوش گفتاری کے آثار:
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں :
القول الحسن یثری المال، و ینمی الرزق، و ینسأ فی الأجل، و یحبب الی الأهل، و یدخل الجنة
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے فرمان کی روشنی میں  خوش گفتاری کے مندرجہ ذیل آثار و فوائد ہیں:
1۔ اچھی گفتگو سے  مال میں وسعت آئے گی؛
2۔ رزق و روزی میں اضافہ ہوگا؛
3۔ عمر طولانی ہوگی؛
4۔ لوگوں کے ہاں محبوب ہوگا؛
5۔ جنت ملے گی۔
بد زبانی کے نقصانات
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
إيّاكَ و ما يُستَهجَنُ مِن الكلامِ ؛ فإنّهُ يَحبِسُ علَيكَ اللِّئامَ و يُنَفِّرُ عنكَ الكِرامَ
بدزبانی کے بہت سارے نقصانات ہیں ،جن میں دو نقصانات کا ذکر حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام سے منقول اس روایت میں یوں ایا ہے۔
1۔ پست لوگوں سے پالا پڑنا ؛
2۔ اچھے لوگوں کی نفرت کا سامنا ہونا۔
بہرحال انسان کی زبان  دو پہلوؤں کی حامل ہے، جس کا استعمال میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔عین ممکن ہے اس کے ذریعے کسی پر ایسی ضرب لگے جو تلوار کی ضرب سے بھی زیادہ کاری ہو۔
اللہ تعالیٰ  ہم سب کو بہترین کلام کرنے اور بد زبانی سے بچنے کی توفیق عنایت فرمائے، آمین!

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=15810