7

انتیسویں رمضان کی دعا اور اس کی مختصر تشریح

  • News cod : 17238
  • 12 می 2021 - 1:37
انتیسویں رمضان کی دعا اور اس کی مختصر تشریح

تحریر: حجت الاسلام سید احمد رضوی أللّهُمَّ غَشِّني فيہ بالرَّحْمَة وَارْزُقني فيہ التَّوفيقَ وَالعِصْمَةَ وَطَہر قَلبي مِن غياہبِ التُّهمَة يارَحيماً بِعبادِہ المُؤمنينَ اے معبود! […]

تحریر: حجت الاسلام سید احمد رضوی

أللّهُمَّ غَشِّني فيہ بالرَّحْمَة وَارْزُقني فيہ التَّوفيقَ وَالعِصْمَةَ وَطَہر قَلبي مِن غياہبِ التُّهمَة يارَحيماً بِعبادِہ المُؤمنينَ
اے معبود! اس مہینے میں مجھے اپنی چادر رحمت میں ڈھانپ دے، مجھے اس میں توفیق اور تحفظ دے، اور میرے قلب کو تہمت کی تیرگیوں سے پاک کردے، اے با ایمان بندوں پر بہت مہربان

گناہ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، خداوند متعال کی نافرمانی ہے اس لئے ہر حال میں اسے بڑا سمجھا جائے گا۔ البتہ آیات و روایات میں کچھ گناہوں کو خاص کر کے “گناہان کبیرہ “کہا گیا ہے، جن میں سے ایک گناہ تہمت اور بہتان لگانا ہے۔ تہمت یا بہتان کا مطلب کسی شخص کے بارے میں ایسی باتیں کہنا ہے جو اس میں موجود نہ ہوں یا کسی کی طرف ایسے کام کی نسبت دینا ہے جو اس نے انجام نہ دیا ہو۔
تہمت قرآن کی نگاہ میں
خداوند عالم نے انسانوں کے کچھ ایسے گناہ بیان فرمائے ہیں جو وہ خدا کی نسبت بھی انجام دیتا ہے اور انہی گناہوں میں سے ایک تہمت لگانا ہے۔ مثلا : انسان ایک دوسرے کے علاوہ بعض اوقات خدا پر بھی بہتان باندھتا ہےاور خدا کی طرف بہت ساری جھوٹی باتیں منسوب کرتا ہے۔
پیغمبر اکرم ﷺ کے بارے میں بھی اس زمانے کے لوگ تہمت و افتراءسے کام لیتے تھے۔
وَ مِنْهُمُ الَّذينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَ يَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ يُؤْمِنُ بِاللهِ ‌ وَ يُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنينَ وَ رَحْمَةٌ لِلَّذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ الَّذينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللهِ ‌ لَهُمْ عَذابٌ أَليمٌ
اسلامی تعلیمات کی رو سے اگر کسی شخص کو گناہ کا مرتکب ہوتے ہوئے دیکھے اور یقین حاصل کرلے تب بھی اس گناہ کو دوسروں تک پہنچانے اور پھیلانے کی اجازت نہیں ہے ۔مثلا مندرجہ ذیل واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ پردہ پوشی کی کتنی اہمیت ہے۔ اسی طرح حقیقت منکشف ہونے سے پہلے سزا یا جزا کا اقدام کرے تو پشیمانی ہوگی۔
علامہ مجلسی نقل کرتے ہیں کہ حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے دور خلافت میں کسی شخص کو خون میں رنگین تلوار کے ساتھ کسی مردے کے سرہانے گرفتار کیا گیا ۔کہا جاتا تھا کہ قاتل یہی شخص ہے ۔پھر استفسار کرنے پر اس شخص نے اقرار بھی کر لیا۔ حکم کے سارے تقاضے پورے ہو گئے تو اسے پھانسی چڑھانے کا حکم دیا گیا۔ جب اسے لے جا یاجا رہا تھا تو کوئی دوسرا شخص دوڑتا ہوا آیا اور اس نے قتل کا اعتراف کیا اور پہلے شخص کی بے گناہی کی گواہی دی ۔ امام علیہ السلام نے پہلے شخص سے سوال کیا: تم نے کیوں اعتراف کیا ؟عرض کیا: میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہ تھا، کیونکہ سارے شواہد میرے خلاف تھے ۔
امیر المؤمنین علیہ السلام نے اس معاملے کو حضرت امام حسن علیہ السلام کے سپر د فرماتے ہوئے کہا: آپ ان کا فیصلہ کریں۔ حضرت امام حسن علیہ السلام نے دونوں کو بخش دیا۔ لوگوں کے اعتراض کرنے پر آپ نے فرمایا: ایک نے قتل کیا ہے، لیکن اس نے دوسرے کو نجات دی ہے اور قرآن کے مطابق اس نے ساری انسانیت کو زندہ کیا ہے ،
وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا
اس لئے یہ دونوں آزاد ہیں ، لیکن مقتول کی دیت بیت المال سے ادا کیا جائے۔
اگر کچھ لوگوں کے تہمت لگانے کی وجہ سے اس بے گناہ شخص کو پھانسی چڑھایا جاتا تو ستم بالائے ستم ہو جاتا اور وہ بیچارہ بے گناہ مارا جاتا۔
بہتان اور تہمت کی ایک دوسری قسم بھی ہے ، وہ یہ کہ انسان اپنا گناہ کسی دوسرے پر ڈال دے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
وَمَنْ يَكْسِبْ خَطِيئَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرْمِ بِهِ بَرِيئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا
غیبت اور بہتان میں فرق
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

غیبت کا مطلب کسی شخص کی پوشیدہ اور ناپسند صفت کو عیاں کرنا اور بیان کرنا ہے، لیکن بہتان کا مطلب کسی خلاف حقیقت بات کو کسی سے منسوب کرنا ہے۔
بہتان اور تہمت خطرناک ہے
تہمت اور بہتان انتہائی مذموم عمل ہے ، جس کے پیش نظر انسان کو ایسی جگہ جانے سے بھی منع کیا گیا ہے جہاں اس پر تہمت لگنے کا اندیشہ ہو۔
حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
من عرض نفسه للتهمة فلا يلومن من أساء الظن به
خبردار! ایسی جگہ نہ جانا، جہاں تہمت کا اندیشہ ہو، کیونکہ بدکار شخص اپنے ساتھی کو دھوکا دیتا ہے۔
حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
کوئی شخص خود کو تہمت کی جگہ پر رکھ دے تو اسے چاہئے کہ بدگمانی کرنے والوں کی ملامت نہ کرے ۔
انسان کی عزت و آبرو اور شخصیت و حیثیت بننے سنورنے میں کافی وقت لگتا ہے، لیکن ان کے مٹنے اور ختم ہونے میں ایک لمحہ بھی کافی ہوتا ہے، لہٰذا اپنی اور دوسروں کی عزت و آبرو اور شخصیت و حیثیت کی قدر کرتے ہوئے انتہائی احتیاط سے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔
خدا ہم سب کو گناہوں سے دور رہنے کی توفیق دے اور اس ماہ مبارک میں مغفرت پانے والوں میں سے قرار دے ۔آمین!

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=17238

ٹیگز