23

شیخ الجامعہ علامہ اختر عباس نجفی ؒ کے مختصر حالات زندگی

  • News cod : 17499
  • 18 می 2021 - 15:14
شیخ الجامعہ علامہ اختر عباس نجفی ؒ کے مختصر حالات زندگی
شیخ الجامعہ علامہ اختر عباس نجفی رہ کا شمار پاکستان کے ان ممتاز علماء دین میں ہوتا ہے جو ملت جعفریہ پاکستان کی تاریخ میں ترویج و تحفظ علوم دین کے لیے رہنما کی حیثیت سے آج بھی یاد کیے جاتے ہیں اور جن کی زندگی کو علم و عمل کے میدان میں آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ کے طور پر متعارف کروانے کی ضرورت ہے

شیخ الجامعہ علامہ اختر عباس نجفی ؒ کے مختصر حالات زندگی
تحریر: سید حسن رضا نقوی قم المقدسہ
ابتدائی حالات زندگی
علامہ اختر عباس نجفی پاکستان کے صوبہ پنجاب کے مضافات علاقہ کوٹ ادو کے ایک نواحی گاؤں چاہ کورائی والا ( منہاں شریف) میں بلوچ خاندان میں پیدا ہوئے مشہور قول کے مطابق آپ کی ولادت 1925 میں ہوئی جبکہ آپ کے خاندان کے بعض افراد کے مطابق سن ولادت 1923 ہے۔ آپ کے دادا ، جد امجد خان کورائی سردار امیر جلال خان کورائی کے بیٹے تھے ،کورائی والا کی تاریخ میں وہاں کے اولین افراد میں سے تھے اور اپنے قبیلہ کے سردار اور سرپرست تھے آپ کے والد سردار صدیق محمد خان بلوچ نےاپنی ذاتی تحقیق سے مذہب شیعہ اثنا عشریہ کو اختیار کیا اور مکتب امام جعفر صادق علیہ السلام کی پیروی کرتے ہوئے اس طرح اپنی اولاد کی تربیت کی کہ در اہلبیت ع سے منسلک رہا جائے ان کے تینوں بیٹے علم دین حاصل کرنے کے لیے گھر سے نکلے۔
محمد بخش جو مولانا محمد بخش باقری کے نام سے معروف تھے اور آخری عمر تک قم المقدس میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے اور محرم الحرام 1409 ھ میں رحلت فرما گئے ۔
عابد حسین تھا جو کہ اپنی جوانی کے عالم میں دوران تعلیم نجف اشرف عراق میں رحلت فرما گئے اور وادی السلام قبرستان میں مدفون ہیں۔
احمد بخش 1939 میں اختر عباس کے نام سے موسوم ہوئے ۔
علمی سفر
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں چاہ کورائی والا منہا شریف میں ہی حاصل کی اور ساتھ اپنے آبائی پیشہ کاشتکاری میں اپنے والد کے معاون رہے ۔
ایک دلچسپ واقعہ
آپ تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب وطن واپس آئے تو دیکھا آپ کے والد محترم ہل چلا رہے ہیں۔ آپ نے والد صاحب کی مدد کا سوچ کر کہا بابا مجھے دیں میں ہل چلاتا ہوں آپ آرام فرما لیں کیونکہ آپ اس پیشہ سے زیادہ منسلک نہیں رہے تھے اور کافی عرصہ بعد ایسا کرنا تھا تو آپ نے جو آلات تھے ان میں سے ایک کو توڑ دیا ۔ آپ کے والد محترم نے پوچھا یہ کیا کیا تو عرض کرنے لگے بابا جان وہاں علم سکھاتے ہیں ہل چلانا نہیں ۔ (از: مولانا ذوالفقار علی نجفی دام عزہ )
1938 ء میں مڈل پاس کرنے کے بعد علم دین حاصل کرنے کے لیے رخت سفر باندھا اور ملتان میں مدرسہ علمیہ باب العلوم میں داخلہ لے کر باقاعدہ تعلیمی سفر کا آغاز کیا اور وہاں برجستہ اساتذہ سے کسب فیض کیا باب العلوم میں آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا شیخ محمد یار رہ اور جناب مولانا سید زین العابدین نور اللہ مرقدہ سرفہرست شمارہ ہوتے ہیں مدرسہ باب العلوم میں میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ اس زمانے کی عظیم شخصیت، علم و ادب کی بادشاہ، مربی العلماء علامہ سید محمد باقر ھندی چکڑالوی رہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے شاگردوں میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کیا اوراس سلسلہ میں علامہ اختر عباس نجفی رہ نے علم دین کو ہر پہلو سے مکمل طور پر سمجھنے اور پرکھنے میں خوب تگ و دو کی ۔ آپ 1940 میں اہلسنت کے بریلوی مکتب فکر کی درسگاہ جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور میں مولانا حافظ مہر محمد میکھیالوی کے پاس گئے اور ان سے علم معقولات حاصل کیا۔ اس کے بعد دیوبندی مکتب فکر کی درسگاہ میں مولانا عبد الخالق کی خدمت میں نڑہال ( نزد کبیر والا ) حاضر ہوئے اور ان کے ساتھ دیوبند تشریف لے گئے جہاں مولانا اعزاز علی امروہوی اور شیخ الحدیث حضرت مولانا شیخ محمد ادریس کاندھلوی سے کسب فیض کیا۔ وہاں سے شدید بیماری کے باعث وطن واپس آنا پڑا۔ دوران بیماری آپ نے منت مانی کہ اگر میں ٹھیک ہو گیا تو میں استاذالعلماء حضرت آیت اللہ سید محمد یار شاہ نجفی نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں جا کر ان سے فقہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا علم حاصل کرونگا۔ اس طرح پروردگار عالم نے آپ کو صحت و تندرستی عطا فرمائی اور آپ استاذالعلماء رہ کی خدمت میں جلال پور ننگیانہ سرگودھا میں گئے اور ان سے کسب فیض کے سلسلہ میں آگئے۔ آپ کا شمار استاذالعلماء حضرت آیت اللہ سید محمد یار شاہ نجفی نور اللہ مرقدہ کے انتہائی محترم اور لائق شاگردان میں ہوتا ہے۔ استاذالعلماء ہمیشہ آپ جیسے شاگردوں پر فخر محسوس کرتے تھے ۔
نجف اشرف میں قیام
آپ نے 1945 ئ بروز عید سعید غدیر میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے نجف اشرف عراق جوار امیر المومنین علی ؑ میں علم دین حاصل کرنے کی عرض سے سفر کیا یہ آپ کی علمی زندگی کا ایک یادگار سفر تھا ۔نجف اشرف عراق میں پہنچ کر علم دین کی تحصیل میں مشغول ہو گئے۔ علامہ اختر عباس نجفی ؒ نے نجف اشرف میں جہاں خود بہت سی علمی شخصیات سے کسب فیض کیا وہاں پر بہت سارے تشنگان علوم آل محمد کی علمی پیاس بھی بجھائی
نجف اشرف میں آپ کے اساتذہ میں
حضرت حضرت آیت اللہ العظمی شیخ مجتبی لنکرانی ، حضرت آیت اللہ العظمی آقای ابو القاسم رشتی ، حضرت آیت اللہ العظمی مرزا محمد باقر زنجانی اور حضرت آیت اللہ العظمی السید ابو القاسم الموسوی الخوئی جیسے بلند پایہ فقہاء اور مجتہدین شامل ہیں ۔جن سے آپ نے فقہ و اصول الفقہ کی تعلیم حاصل کی۔ آپ حضرت آیت اللہ العظمی السید خوئی کے خاص شاگردان میں شامل تھے اور آپ کا تذکرہ آیت اللہ العظمی السید خوئی وقتا فوقتا اچھے الفاظ میں فرمایا کرتے تھے حضرت آیت اللہ شھید باقر الصدر، آیت اللہ مرزا علی غروی اور آیت اللہ موسوی اردبیلی ( جو بعد میں اسلامی جمہوریہ ایران کی عدالت عظمی کے چیف جسٹس رہے ) آپ کے ہمدرس اور ہم عصر تھے نجف اشرف میں آپ مرجع تقلید حضرت آیت اللہ العظمی سید محسن الحکیم طباطبائی کے ساتھ بحیثیت اردو ترجمان رہے اور دنیا بھر سے رجوع کرنے والے اردو زبان حضرات کی دینی مشکلات حل فرماتے رہے آپ کے بعد یہ ذمہ داری آپ کے عزیز مولانا صادق علی نجفی صاحب انجام دیتے رہے
شادی
علامہ اختر عباس نجفی رہ 4 رمضان المبارک 1368 ہجری نجف اشرف میں قیام کے دوران رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے آپ کی اہلیہ محترمہ معروف نجفی عالم دین شیخ کاظم علی نجفی کشمیری کی صاحبزادی تھیں۔
آپ کا نکاح مسنون حضرت آیت اللہ العظمی السید محسن الحکیم طباطبائی اور حضرت آیت اللہ العظمی محمد تقی آل راضی نے پڑھا اور آپ کا نکاح نامہ حضرت آیت اللہ جواد تبریزی نے اپنے دست مبارک سے تحریر کیا۔ معروف انڈین عالم دین آیت اللہ سید طیب جزائری مرحوم آپ کے ہم زلف تھے۔ شادی خانہ آبادی کے بعد علامہ اختر عباس نجفی رہ نے فکری معاش سے آسودگی کے لیے نجف اشرف میں باب قبلہ کے ساتھ کتابوں کی دکان کھولی آپ کے فرزند ناصر محمد خان کے مطابق آپ کے استاد حضرت آیت اللہ العظمی لنکرانی جب بھی کبھی اس راہ سے گزرتے تو کافی دیر وہاں تشریف رکھتے ۔ان کا نجف اشرف میں بہت احترام تھا ایک مرتبہ جب علامہ اختر عباس نجفی رہ کی طرف سے تشکر و استفسار کیا گیا تو آقائے لنکرانی نے فرمایا :
میں یہاں اس لیے ٹھہرتا ہوں تاکہ عوام جان لیں کہ اس دکان کا مالک کوئی عام شخص نہیں بلکہ ایک صاحب علم شخص ہے علامہ اختر عباس نجفی نے درجہ اجتہاد پر فائز ہونے کے بعد نجف اشرف میں ہی درس و تدریس کے فرائض انجام دینے شروع کر دیے تھے۔
تاسیس جامعہ المنتظر لاہور
1950 ء کے عشرہ کے اوائل میں لاہور سے جناب خواجہ محمد طفیل اپنے خمس کی ادائیگی کے لیے نجف اشرف تشریف لے گئے اور محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی رہ سے ملاقات کی اور خواہش ظاہر کی کہ میں حضرت آیت اللہ العظمی آقائے بروجردی کی خدمت میں خمس پیش کرنا چاہتا ہوں لیکن محسن ملت رہ کی خواہش تھی کہ شیخ الجامعہ علامہ اختر عباس نجفی رہ لاہور میں تشریف لے جائے اور وہاں جا کر ایک دینی درگاہ قائم کریں تو اس سلسلہ میں علامہ اختر عباس نجفی رہ سے بات کی گئی تو آپ نے اس عظیم ذمہ داری کو اس شرط کے ساتھ قبول کیا کہ آیت اللہ بروجردی رہ آپ کو اپنا وکیل مطلق بنائیں اس طرح علامہ سید صفدر حسین نجفی رہ، خواجہ محمد طفیل کو اپنے ساتھ لے کر آیت اللہ العظمی بروجردی کی خدمت میں گئے اور ان سے گزارش کی کہ یہ مومن پاکستان سے تشریف لائے ہیں اور آپ کو خمس پیش کرنا چاہتے ہیں ساتھ ہی اپنی خواہش اور علامہ اختر عباس نجفی رہ کی شرط کا بھی ذکر کیا اس بات کو آیت اللہ العظمی بروجردی نے نا صرف قبول کیا بلکہ اپنی طرف سے مزید رقم شامل کر کے علامہ اختر عباس نجفی رہ کو اپنا وکیل مطلق مقرر فرما کر پاکستان بھیجا اور آپ نے لاہور میں آ کر 1954ء میں جامعہ المنتظر کی تاسیس فرمائی اور لاہور کے اہم علاقہ موچی دروازے میں حسینیہ ہال ایک سو روپے ماہوار کرائے پر حاصل کیا اور درس و تدریس کا آغاز ہوا اور نماز با جماعت کا اہتمام کیا گیا اور مومنین کی ضروریات کو محسوس کرتے ہوئے ایک مختصر مجلہ کا بھی اہتمام کیا جو جامعہ کے نام سے چھپتا تھا اسی دوران مشہور ہے کہ آپ نے دس افراد پر مشتمل جس میں آپ خود بھی شامل تھے صیغہ اخوت کا عظیم کام انجام دیا 1954 سے 1964 تک دس سال کے عرصے میں آپ نے جامعہ المنتظر لاہور میں خدمات سرانجام دیں اور پھر تین سال کے لیے نجف اشرف تشریف لے گئے۔
قم المقدسہ میں آمد
نجف اشرف میں تین سال قیام کے بعد آپ قم المقدسہ میں تشریف لائے اور یہاں سکونت اختیار کی اسی دوران آیت اللہ العظمی السید محمد کاظم شریعتمداری نے ایک بین الاقوامی ادارہ دارالتبلیغ اسلامی کے نام سے قائم کیا خود علامہ اختر عباس نجفی رہ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایران سے ایک علماء کا وفد جن میں آیت اللہ العظمی آقائے ناصر مکارم شیرازی، آیت اللہ استاد شھید مرتضی مطهری اور آیت اللہ العظمی آقائے جعفر سبحانی شامل تھے نجف اشرف تشریف لے گئے اور وہاں آپ سے ملاقات کی اور آقائے شریعتمداری رہ کی طرف سے قم المقدسہ میں آنے کی دعوت دی تاکہ آپ سے دارالتبلیغ اسلامی کے شعبہ اردو میں مدد لی جا سکے۔ اس طرح آپ نے اس وفد کی دعوت قبول کی اور قم المقدسہ میں تشریف لائے اور دینی خدمات سرانجام دینے کے ساتھ آیت اللہ العظمی شریعتمداری رہ کے درس خارج میں شرکت کرنا شروع کر دی اور انکے دروس کو باقاعدہ طور پر ریکارڈ بھی کیا ۔
دوبارہ وطن واپسی
1974 ءمیں اپنے آبائی گاؤں کے مومنین کی دینی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے پاکستان میں کوٹ ادو تشریف لائے اور وہاں پر دارالتبلیغ اسلامی جامعہ الشیعہ کی بنیاد رکھی اور اس طرح اپنے آبائی گاؤں کا علمی و دینی خدمات کے ذریعے حق ادا کیا علامہ اختر عباس نجفی رہ نقل کرتے تھے کہ اس مدرسہ کے لیے دارالتبلیغ اسلامی قم المقدسہ سے کبھی کوئی معاونت شامل نہیں رہی بلکہ یہ مومنین کی مدد اور قبلہ کی ذاتی کاوشوں کے نیتجے میں معرض وجود میں آیا نہ 1987 میں آپ نے اسی دار التبلیغ میں ایک شاندار اور وسیع مسجد کی بنیاد رکھی جس میں ہزاروں کی تعداد میں نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ شروع میں لوگوں نے تعجب کیا علامہ صاحب نے اتنی بڑی مسجد تو بنا ڈالی لیکن اس میں نمازی کہاں سے آئیں گے۔ قبلہ کی تبلیغ کا اثر تھا کہ آہستہ آہستہ یہ مسجد نمازیوں سے پر ہونے لگی اور الحمداللہ اب نماز جمعہ اور عیدین کے مواقع پر نمازیوں سے کھچاکھچ بھری ہوتی ہے البتہ سننے میں آیا ہے کہ جس حد تک علامہ مرحوم چاہتے تھے اس طرح تعمیرات نہیں ہو سکی اور ابھی تک تشنہ تکمیل ہے۔
ملی اور سیاسی خدمات
ایک ذمہ دار عالم دین ہونے کی حیثیت سے علامہ اختر عباس نجفی رہ نے کبھی بھی اپنے فریضہ شرعی میں سستی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ تمام قومی معاملات میں پیش پیش رہے تمام معاملات چاہیے تحفظ عقائد مذہب حقہ کا معاملہ ہو یا ملت جعفریہ پاکستان کے تشخص کا یا ملک میں نفاذ شریعت کا، علامہ مرحوم نے اپنی نظر کے مطابق کردار ادا کیا۔
1960 ءمیں جب شیخی نظریات کو شیعیت میں داخل کرنے کی کوشش ہوئی تو محراب و منبر کی سچی پاسداری کے لیے علماء نے اپنی آواز بلند کی جن میں استاذالعلماء حضرت آیت اللہ سید محمد یار شاہ نجفی نور اللہ مرقدہ، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم، علامہ سید گلاب علی نقوى رہ، علامہ حسین بخش جاڑا مرحوم علامہ محمد حسین نجفی حفظہ اللہ، علامہ حافظ سیف اللہ جعفری مرحوم اور شیخ الجامعہ علامہ اختر عباس نجفی رہ شامل تھے ان سب علماء کے ساتھ ساتھ آپ کی خدمات آج بھی اظہر من الشمس ہیں 1977 میں جب پاکستان میں عام انتخابات کا شور شرابہ ہوا تو اسلامی نظر رکھنے والی طاقتیں نظام مصطفی کے عنوان سے تحریک کی صورت اختیار کر گئیں۔ علامہ اختر عباس نجفی رہ نے اس کی تائید کرتے ہوئے مفتی محمود کے ساتھ کوٹ ادو میں جلسہ عام سے خطاب کیا اس سے پہلے تحریک ختم نبوت میں بھی انہوں نے نہایت سرگرمی سے حصہ لیا تھا جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا لگا کر اسلامی نظام حکومت کے لیے ظاہری کاروائی شروع کی تو شیعہ قوم نظر انداز کی جانے لگی۔ قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم جوکہ ہمیشہ دینی ملی و ملکی خدمات میں نمایاں رہے تھے اور 1951 ءکے مشہور بائیس نکاتی اعلامیہ پر دستخط بھی کر چکے تھے 1979 میں جنرل ضیاء الحق کی مشاورتی کونسل سے استعفی دے دیا۔ جس کے بعد ملت تشیع میں ایک تشویشناک صورتحال وجود میں آئی۔ شیعہ قوم کے نمائندہ علماء کرام، زعماء ملت ہر خاص و عام نے مل کر بھکر قصر زینب میں ایک کنونشن رکھا جہاں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ وجود میں آئی اور مفتی جعفر حسین مرحوم کو قائد ملت جعفریہ کا منصب دیا گیا ۔ اس فیصلہ میں علامہ اختر عباس نجفی رہ پیش پیش تھےاور بعد میں بھی جب ملت جعفریہ پر مشکل وقت آیا علامہ مرحوم کی خدمات نمایاں رہی ہیں۔ سانحہ کوئٹہ کے موقع پر جنرل ضیاء الحق نے علامہ مرحوم سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو اس ملاقات میں بھی علامہ اختر عباس نجفی رہ نے شیعہ قوم کا موقف بھر پور طریقے سے پیش کیا۔
علامہ مرحوم کی زندگی کے آخری ایام میں علماء کمیٹی کی طرف سے ایک اعلامیہ سامنے آیا اور آپ کی نظر میں یہ اعلامیہ قومی مفاد میں نہیں تھا اس لئے آپ نے رد کردیا جس کے نتیجہ میں کمیٹی میں تبدیلی لائی گئی ۔
انقلاب اسلامی ایران
اس صدی کا سب سے بڑا اسلامی انقلاب جو 1979 ءمیں ایران میں وقوع پذیر ہوا۔ جس کے نتیجہ میں قدیمی بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔ یہ انقلاب دنیا بھر میں جہاں غلامی اور آمریت کے خلاف تحریکوں میں رہنما ثابت ہوا وہی دعائے اسلام کے تشخص کے لیے اس کا کردار قابل قدر رہا علامہ اختر عباس نجفی رہ ان دنوں پاکستان تشریف لائے ہوئے تھے لہذا عوام کے سامنے اس انقلاب کا بھرپور اور مثبت طریقے سے تعارف کروایا اور ہر جگہ انقلاب اسلامی کے موقف کو اپنے خطابات میں اجاگر کیا ۔نجف اشرف میں جب رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی السید روح اللہ موسوی الخمینی جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے اسی دوران علامہ اختر عباس نجفی رہ کے امام راحل سے بہت اچھے روابط تھے۔ آپ امام راحل کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان روابط کی وجہ سے جب آپ ایران تشریف لائے تو اس وقت شاہ کی بدنام زمانہ پولیس ( ساواک ) نے آپ کی قم المقدسہ آمد پر آپ کے لیے مشکلات پیدا کیں اور آپ سے پوچھ گوچھ کی لیکن آپ نے ہمیشہ زندگی کے آخری ایام تک انقلاب اسلامی ایران کی مخالفت کو حرام قرار دیا اور ہمیشہ انقلاب اسلامی کی حمایت کی۔
وفات
آپ 26 اپریل 9 محرم الحرام 1999 کو صبح کی نماز کے لیے وضو کرنے کے بعد مسح کرنے کے دوران حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے وزیر آباد میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
9 محرم کی شب کی مجلس آپ کی زندگی کی آخری مجلس ثابت ہوئی۔ وزیر آباد سیالکوٹ میں مومنین نے آپ کو لاہور لے جانے سے پہلے نماز جنازہ کا اہتمام کیا اور اسی شہر میں حجت الاسلام علامہ موسی بیگ نجفی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور سیالکوٹ وہی جگہ ہےجہاں سالہا خطاب فرماتے رہے اور اس دن بھی فرمانا تھا وہاں نماز جنازہ علامہ فیض کرپالوی نے پڑھائی اور اس کے بعد ہزاروں چاہنے والوں کی سسکیوں میں آپ کو وداع کیا گیا اور 10 محرم الحرام آپ کے گھر پاکستان کی مرکزی دینی درس گاہ حوزہ علمیہ جامعہ المنتظر لاہور تک فضا غم آلود تھی حضرت آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی حفظہ اللہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس کے بعد وہی پر آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔
عاش سعیدا و مات سعیدا

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=17499