19

قائد بلتستان علامہ شیخ غلام محمد الغروی کی مختصر سوانح حیات

  • News cod : 18995
  • 25 ژوئن 2021 - 18:33
قائد بلتستان علامہ شیخ غلام محمد الغروی کی مختصر سوانح حیات
عالم مبارز و مجاہد حجت الاسلام علامہ شیخ غلام محمد الغروی کی شخصیت ہمہ جہت تھی اور انہوں نے گلگت بلتستان میں قیادت کا حق ادا کیا۔ انہوں نے قضاوت، عدالت، سیاست اور عوامی خدمت کی وہ تاریخ رقم کی ہے جسکی شاید ہی کوئی مثال ملے۔

نام : غلام محمد
والد کا نام:حاجی محمد هاشم
دادا کا نام :غلام محمد
جائے پیدائش:پاری کھرمنگ
تاریخ پیدائش:۱۳۴۲ھ
تاریخ وفات :۱۴۱۰ھ
عمر : ۷۸ سال
ابتدائی تعلیم:پرائمری پاس (کارگل سے)
ابتدائی دینی تعلیم : آٹھ سال کی عمر میں قرآن مجید ختم کیا

گیاره سال کی عمر میں والد مرحوم نے دینی تعلیم حاصل کرانے کی غرض سے کرگل کی جائیداد فروخت کرا کر عرق لے گئے.
پانج سال تک کربلائے معلی میں تعلیم حاصل کی اور چھ سال نجف اشرف میں .۲۲ سال کی عمر میں واپس کرگل آئے .
شیخ غلام محمد کی خداداد صلاحیت نے بهت جلد شهرت پائی اس بنیاد پر کئی لوگوں کی طرف سے رشتہ کی خواهش کی گئی لیکن آپ نے یکسر نفی میں جواب دیا.آپ کی شخصیت کا پرچار ان ایام میں کرگل میں بھی بهت ہوا چنانچه میر واعظ کرگل حاجی غلام حیدر کی حج و زیارت کی سعادت حاصل کرنے کے دوران آپ سے ملاقات هوئی میر واعظ اپنی بیٹی کا رشته دینے پر راضی هوئے.واپس آکر میر واعظ نے نکاح نامه عراق بھیج دیا اور اس وقت کے مجتهد عالم سید ابو الحسن اصفهانی نے صیغه نکاح جاری کیا.واپسی پر شاد ی هوئی.
عراق سے واپس آکر آپ نے کھرمنگ اور علاقه پرک کی تمام جگهوں کا تفصیلی دوره کیا.
جب شیخ صاحب تبلیغ کے سلسلے میں کھرمنگ پهنچے تو آخوند اصغر (جو اس وقت کے‌ بهت مشهور عالم و ذاکر تھے) سے ملاقات ہوئی تو آپ نے بتایا کہ اخوند صاحب! آپ کے‌علاقہ میں بهت جلد ایک بڑا عالم آنے والا هے کیونکه میں نے خواب میں دیکھا تھا اور اسی کے مطابق میں نے اس عالم کا لکھا هوا ایک سوال نامه پڑھنے کا موقع ملا تو مجھے‌یقین هوگیا که یهی شخص هے لهذا تم لوگوں‌کو مبارک هو که تم لوگ خوش قسمت ہو.جب شیخ غلام محمد صاحب عراق سے واپس آکر کھرمنگ پهنچے تو آخوند اصغر نے کها شیخ ناصر الاسلام کی پیشنگوئی درست نکلی جو صفات انھوں نے بتائی تھیں وه تمام صفات اس عالم میں موجود هیں.
چونکه قبلہ شیخ صاحب کو شروع سے ہی گٹھنے کی تکلیف تھی لهذا آپ کے ہم درس شیخ علی محمد (عرف آخوند غلو) نے چھوترون لے جانے کی غرض سے لایا .کچھ دن گول میں رهنے کا اتفاق ہوا جهاں آپ نے مجالس بھی پڑھيں تو لوگ آپ کے بڑے معتقد ہوئے پھر سکردو آئے اورآخوند غلام مهدی کربلائی کے ہاں قیام کیا.محرم کا مہینہ تھا ان دنوں راجہ محل سکردو (کھر)میں مجالس عزا منعقد ہوا کرتی تھیں.اخوند صاحب شیخ صاحب کو بھی ساتھ لے گئے .آپ کو چھوٹی عمر میں عالمانہ لباس میں دیکھ کرسب کو تعجب ہوا . راجہ محمد علی شاه نے اخوند سے پوچھا که یه شیخ صاحب بھی کچھ‌ پڑھنے والا بھی ہے یا نہیں؟جب آپ سے مجلس پڑھوائی گئی تو آپ نے گزرے ہوئے  ظالم بادشاہوں اور جاگیرداروں کے عیش و نوش اور ان کے مظالم کا تذکره کرنے کے بعد ان کے انجام کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ کهاں‌گئے وه بڑے بڑے دولتمند،بادشاه، مستکبرین !؟ کہاں گئے‌، ان کےمحل !؟ جبکہ ا س مجلس میں بازار سکمیدان کے بڑے بڑے رؤساء موجود تھے.اس تقریر سے لوگوں پر ان کا رعب طاری ہوا اور بهت متاثر ہوئے ، راجہ کی طرف سے بھی آپ کو پذیرائی ملی. اس کے بعد آپ واپس گول تشریف لے گئے جهاں آپ ایک مدت تک درس و تدریس میں مشغول رہے.

آپ کی خداداد صلاحیت اور تقوی کی پورے بلتستان میں شهرت عام ہوئی چنانچه یولتر کے کچھ رؤسا نےآپ کو سکردو آنے کی دعوت دی اس سلسلہ میں سکمیدان کے رؤسا نے بھي تعاون کیا.سکردو آکر کچھ عرصہ نیانیور میں رہے پھر عوام نے کشمراه میں مکان بنوا کر دیالیکن آپ نے وه ہبہ شده زمین اور جائیداد لوگوں کو واپس کر دی اور اپنا الگ مکان بنوا کر منتقل ہوئے.جهاں تمام امیر و غریب،یتیم و مسکین اور بیوه کے لئے بغیر تفریق کے عدالت کا دروازه کھلا رہتا تھا ،جهاں سے انصاف ملا کرتا تھا.چاہے کتنا امیر،بڑا آفیسر اور وزیر ہی کیوں نہ ہو آپ کے ساتھ فرش پر بیٹھنے پر مجبور تھے.

آپ ذاتی طور پر کسی کے محتاج نہیں تھے.اپنی آسائش و آرام کے لئے نہ سوچا، جب بھی سوچا تو اپنی قوم اور ملت کے لئے سوچا.بار بار فرمایا کرتے تھے که اس قوم کو تقدیر کیسے بدلا جائے.جهاں بھی اظهار خیال کا موقع ملتا تو ان کے الفاظ میں قومی ترقی فلاح و بهبود ہی ہوتی تھی.اپنی ذات کے لئے بھی کبھی کسی کے سامنے نهیں جھکے‌.اگر چہ بہت سارے مخیر حضرات نے آپ کی فقیرانہ زندگی بدلنے کی کوشش کی اور آپ چاهتے تو شاید دوسرے عیاش لوگوں کی طرح آپ بھی کروڑوں کے مالک ہوتے لیکن آپ نے‌ ان تمام سهولیات کو ٹھوکر مار دی اور عیش و آرام کی بجائے اپنی درویشانہ زندگی کو ترجیح دی.1971 ميں اس وقت کے پولیٹکل ایجنٹ محبت خان کی شیطانی حرکتوں کی آپ نے کھل کر مخالفت کی جس پر آپ کو خاموش کرنے کے‌لئے رات کی تاریکی میں گندم اور چینی سے لدھي ایک گاڑی اور ساتھ میں پچاس هزار روپیه کے چیک کے ساتھ اس وقت کے ایگزیکٹیو انجینئر کو آپ کے گھر پهنچایا تو آپ نے چیک وهیں پر پھاڑ‌دیااور گندم اور چینی کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
آپ همیشه محتاجوں اور بے خانماؤں کی داد رسی اور مقصد بر آوری کے لئے کمر باندھ کر پھرتے رهے لیکن کبھی بھي اپنے بیٹوں اور پوتوں یا گھر والوں کے لئے ایک لفظ تک کسی کو نهیں کها تھا.

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=18995

آپکی رائے

  1. بہت عمدہ کوشش ہے جزاک اللّٰہ