8

ہم مشترکات لیکر آگے بڑھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ تفرقے میں آجائیں، آغا راحت

  • News cod : 22376
  • 13 سپتامبر 2021 - 13:03
ہم مشترکات لیکر آگے بڑھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ تفرقے میں آجائیں، آغا راحت
آغا سید راحت حسین الحسینی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اہلبیت کی محبت و مودت کو مسلمانوں پر فرض کیا ہے اور اس حوالے سے نبی اکرم (ص) نے اپنے ارشادات اور عمل کے ذریعے بتا دیا ہے کہ تمام مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق جو شخص نماز میں درود پاک نہ پڑھے اس کی نماز ہی قبول نہیں،

وفاق ٹائمز، حجت الاسلام علامہ سید راحت حسین الحسینی نے جی بی میں مذہبی ہم آہنگی کا فارمولا پیش کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ عید اور جمعہ کی ایک ایک نماز اہل سنت اور اہل تشیع مساجد میں مشترکہ طور پر ادا کی جائے۔ امامیہ کونسل کے زیر اہتمام گلگت میں یوم حسین کے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے سید راحت حسین نے کہا کہ تمام مسلمانوں کا قبلہ ایک ہے، مسجد نبوی ایک ہے اور حج کے موقع پر امام کعبہ کی امامت میں نماز پڑھنا جائز ہے۔ ایک خدا اور ایک رسول ؐ کے ماننے والے کعبہ میں اکٹھے ہوسکتے ہیں تو گلگت بلتستان میں امن و بھائی چارگی کے لئے اکٹھے کیوں نہیں ہوسکتے۔؟ آغا راحت حسین نے کہا کہ جب ہمارا نبی ایک، قرآن ایک، کعبہ ایک تو پھر اختلاف کیسا۔ آپس میں اتحاد و اتفاق کو فروغ دے کر مسلمانوں کے مابین رنجشوں کو ختم کیا جا سکتا ہے، عالم کفر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ سکتے ہیں۔ آغا راحت حسین الحسینی نے تجویز دی کہ علاقے میں تمام مسالک کے اتحاد کے لئے ایک عید کی نماز مشترکہ طور پر اہلسنت عید گاہ اور دوسری عید پر امامیہ عیدگاہ میں ادا کی جائے۔ ایک جمعہ کی نماز مل کر امامیہ مسجد میں اور دوسری مرتبہ اہلسنت مسجد میں ادا کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم باہمی اختلافات کو ختم کرکے ہی دین و دنیا میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
آغا سید راحت حسین الحسینی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اہلبیت کی محبت و مودت کو مسلمانوں پر فرض کیا ہے اور اس حوالے سے نبی اکرم (ص) نے اپنے ارشادات اور عمل کے ذریعے بتا دیا ہے کہ تمام مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق جو شخص نماز میں درود پاک نہ پڑھے اس کی نماز ہی قبول نہیں، آغا سید راحت حسین الحسینی نے کہا کہ مسلمانوں کے چاروں بڑے فرقوں سنی، شیعہ، اسماعیلی اور نور بخشی کے مابین مشترکات زیادہ ہیں اور اختلافات کم ہیں۔ ہم مشترکات لیکر آگے بڑھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ تفرقے میں آجائیں اور منتشر ہو جائیں اور پھر دشمن ہمیں آپس میں لڑا کر کامیاب ہو جائے۔ آغا سید راحت حسین الحسینی نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ شیعہ ہو اور صحابہ کو نہیں مانتا ہو، ہمارے عقیدے کے مطابق نبی اکرم نے اس دنیا سے پردہ فرمانے سے قبل اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی جگہ پر اپنا جانشین مقرر فرمایا، جس کے مطابق مولائے کائنات حضرت علی علیہ سلام کو اپنا پہلا امام مانتے ہیں۔
آغا راحت حسین الحسینی نے کہا کہ تاریخ میں پہلی بار افغانستان میں بغیر کسی مسئلے کے عاشورہ محرم کا جلوس مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ پرامن انداز میں منعقد ہوا اور جہاں جہاں پر علم نصب تھے، وہ بھی ادب و احترام کے ساتھ آویزاں رپے۔ دنیا کے ہر ملک میں جب مسلمان آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہ سکتے ہیں تو ہم ایک دوسرے کا ادب و احترام کیوں نہیں کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ کے ذریعے سے ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں پیدا کی جا رہی ہیں اور ایف آئی آر بھی کٹوائی گئی، لیکن شکر ہے کہ ہوا میں پیدا ہونے والا فساد زمین پر نہیں پہنچا ہے، ان شاء اللہ مشترکات کو فروغ دے کر آپس کی دوریوں کو کم کیا جائے گا۔
شیعہ امامیہ اسماعیلی کے عالم دین و مذہبی اسکالر الواعظ فدا علی ایثار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حسین ؑتمام مسلمانوں کے عقیدوں کا مرکز ہیں، جس طرح نبی اکرمؐ تمام مسلمان کے دل و جان ہیں، اسی طرح امام حسین علیہ سلام بھی ہر کلمہ پڑھنے والوں کی جان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امام عالی مقام نے یزید لعین کی بیعت نہ کرکے قیام قیامت تک بنی نوع انسان پر احسان کیا، آج دنیا میں اسوہ حسینی اپنانے اور ظلم کے خلاف شہدائے کربلا کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے۔ یوم حسین ؑ کے پروگرام سے دیامر تانگیر سے تعلق رکھنے والے ڈی سی (ر) آدم شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نبی اکرمؐ اور اولاد نبیؐ کی قربانیوں کی وجہ سے ہی آج دنیا میں اسلام پھیلا ہے، دین کی باتیں تو کی جاتی ہیں مگر فرمان نبی ؐاور قرآن پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے کہا جو اہلبیتؑ کو نہیں مانتے وہ مسلمان کیسے، جس نماز میں اولاد نبی پر درود نہ بھیجیں، ان کی نماز نہیں ہوتی ہے تو ان ہستیوں کو مانے بغیر مسلمان مسلمان کیسے ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو امام حسین علیہ سلام کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے شیخ جعفر سبحانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امام حسین ؑکون ہیں؟ انہوں نے قربانی کیوں دی؟ اسے سمجھے بغیر اسلام کو سمجھنا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ امام حسین ؑکسی کا جاگیر نہیں، حسینؑ سے دوری درحقیقت دین نبی سے اور اللہ سے دوری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یزید سے امام علی ؑمقام کی جنگ نظام کی تھی، یہ کیسے مسلمان ہیں کہ نائٹ شو تو تعلیمی اداروں میں ہو، حسین ؑکا پروگرام ہو تو لڑ جھگڑنے پر اترتے ہیں، سنی ہو یا شیعہ نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ معروف عالم دین سید اختر حسین رضوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان اس وقت ظلم و جبر کا شکار ہیں، کاش اگر مسلمان نبی اکرم کی حقیقی معنوں میں پیروی کرتے تو آج پوری دینا میں مسلمانوں کی حکومت ہوتی اور وہ ظلم و جبر کے شکار نہ ہوتے۔ امام حسین مسلمانوں کے درمیان نقظہ اتحاد ہے۔
عالم دین آغا سید ذیشان حیدر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام نے معیار زندگی کا پیغام دیا۔ انہوں نے کہا کہ امام حسین علیہ السلام نے ظلم کے خلاف اسلام کی بقا کے لئے اپنے اعوان و انصار کی قربانی دی۔ انہوں نے کہا کہ تمام مسلمانوں کو حسینی کردار اپنا کر دشمن کے عزائم کو خاک میں ملانے کی ضرورت ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ مسلمان فرقوں اور تفرقے میں تقسیم ہو کر منتشر ہو جائیں۔ حلقہ ارباب ذوق کے عہدیدار و معروف شاعر جمشید خان دکھی نے کہا کہ امام حسین علیہ نے دین کی حفاظت کی مگر مسلمانوں کے آپس کے تفرقے کی وجہ بیت المقدس کو بھی آزاد نہ کرا سکے۔ انہوں نے کہا کہ آج مسلمان ایک دوسرے کو مار کر شہید کہتے ہیں۔
یوم حسین ؑ کے پروگرام میں دیگر علمائے کرام نے بھی خطاب کیا جبکہ اہلسنت سے تعلق رکھنے والے معرف شعراء کرام عزیز الرحمان ملنگی، جبران حسین سمیت دیگر شعراء نے امام عالی مقام کی شان میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے۔ یوم حسین کی تقریب میں صوبائی وزراء، کمشنر گلگت ریجن، ڈی سی، ایس ایس پی سمیت مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد نے شرکت کی جبکہ یوم حسینؑ کی تقریب میں مقامی انتظامیہ، پولیس، ضلع کونسل گلگت، میونسپل کمیٹی و دیگر اداروں کے اہلکاروں نے فرائض سرانجام دیئے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=22376