22

فقه اور قرآن کریم کا باہمی رابطہ

  • News cod : 2495
  • 05 اکتبر 2020 - 14:32
فقه اور قرآن کریم کا باہمی رابطہ
شرعی احکام انسانی زندگی کو کامیاب ہونے کی ضمانت دیتے ہیں۔اس بنا پر قرآن کریم اور فقہ کا آپس میں بہت گہرا تعلق پایا جاتا ہے ؛ کیونکہ دونوں کا ہدف انسان کو آسائش اور مادی زندگی میں امنیت اور معنوی زندگی میں سعادت بخشنا ہے ۔ اسی گہرے تعلق کی وجہ سے ہم مختصر طور پراسی موضوع کو بیان کر رہے ہیں

اشاریہ
قرآن کریم خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی‌الله‌علیه‌وآله وسلم پر نازل ہوا اور روز قیامت تک کیلئے انسان کی تمام ضروریات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے. فقہ کے معنی فہم، علم اور عقلمندی کے ہیں۔ (فراہیدی، کتاب العین، ج۳، ص۳۷۰ ) فقہ اسلامی اصطلاح میں اس علم کو کہا جاتا ہے جس میں شریعت کےعملی احکام کے متعلق بحث کی جاتی ہے (مشکینی، مصطلحات الفقہ، ص۱۸۰ ) اور شرعی احکام انسانی زندگی کو کامیاب ہونے کی ضمانت دیتے ہیں۔اس بنا پر قرآن کریم اور فقہ کا آپس میں بہت گہرا تعلق پایا جاتا ہے ؛ کیونکہ دونوں کا ہدف انسان کو آسائش اور مادی زندگی میں امنیت اور معنوی زندگی میں سعادت بخشنا ہے ۔ اسی گہرے تعلق کی وجہ سے ہم مختصر طور پراسی موضوع کو بیان کر رہے ہیں۔
بنیادی کلمات
قرآن ، فقه ، شرعی احکام ، فقہی احکامات، آیات الاحکام
1-قرآن کریم فقه کی نگاہ میں
ائمه ہدی (علیہم‌السلام) جو مفسران قرآن کریم و شرعی احکام اور حدود الہی کو بیان کرنے والے ہیں، انہوں نے شرعی احکام کو بیان کرنے کے لئے قرآن کریم کےساتھ تمسک کیا ہے اور آئمہ ہدی علیہم السلام نے اس عظیم کتاب کو الہی احکامات کا مجموعہ قرار دیا ہے ۔
امام علی (علیه‌السلام) فرماتے ہیں:
قرآن کریم امر و نہی پر مشتمل ہے اور اس میں الہی احکام اور سنتیں واضح طور پر نقل ہونے کےساتھ ساتھ مثالیں بھی ذکر کی گئی ہیں، قرآن کریم کے اندر احکامات کی تشریع کی گئی ہے تاکہ لوگ حدود الہی سے کوئی عذر، بہانہ پیش نہ کریں اور لوگوں پر حجت تمام ہو جائے۔ (مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج۹۲، ص۲۶. )
ایک اور حدیث میں نقل ہوا ہے :
اللہ تعالی کی کتاب جوآپ کے ہاتھوں میں ہے اس میں حلال اور حرام، واجب و مستحب، ناسخ و منسوخ واضح اور روشن طور پر بیان کیے گئے ہیں۔(صبحی، صالح، نهج البلاغه، خطبہ 210)
حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
میرا حلال قیامت تک کیلئے حلال اور میرا حرام کیا ہوا قیامت تک کیلئے حرام ہے، اللہ تعالی نے ان سب کو قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے اور میں نے اپنی سنت اور سیرت کو تمہارے لیے بیان کر دیا ہے۔ (معزی ملایری، اسماعیل، جامع احادیث شیعه، ج۱، ص۱۷۶.)
ان جیسی روایات کم نہیں ہیں پس ان سے ثابت ہوتا ہے کہ ان تمام فقہی احکامات کی بنیادیں قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں۔
قرآن کریم کے ذریعہ شیعہ فقہاء کا استناد:
شیعه فقہاء نے اہلبیت علیہم السلام کی پیروی کرتے ہوئے قرآن کریم کو فقہی احکام کیلئے دلیل قرار دیا ہے اور مختلف مقامات پر استناد کے طور پر بیان کیا ہے ۔
1-شیخ صدوق(رح)
شیخ صدوق (رح) اپنی کتاب المقنع میں ۵۷ آیات قرآنی سےاستناد کیا ہے۔ (قمی، ابی‌جعفر، محمد بن علی بن حسین بن بابویه (شیخ صدوق)، المقنع، ص۵۵۱۔ ۵۵۵. )
2- شیخ مفید(رح)
شیخ مفید(رح) اپنی کتاب [[المقنعہ]] میں کچھ آیات سے استناد کیا ہے ۔ (عكبري بغدادي، ابي‌عبد‌الله، محمد بن محمد بن نعمان (شیخ مفید)، المقنعه، ص۷.)
3- شیخ طوسی(رح)
شیخ طوسی(رح) نے اپنی کتاب [[المبسوط فی فقه الامامیہ]] کتاب طہارت میں دو اور دوسرے ابواب میں بھی قرآنی آیات سے استناد کیا ہے۔ (طوسی، ابي‌جعفر، محمد بن حسن (شیخ طوسی)، المبسوط، ج ۵ ـ ، ص ۶۹.)
کتاب تبیان میں نیز مختلف مناسبتوں پر قرآن کریم کی آیات سے استناد کیا گیا ہے۔  (طوسی، ابی‌جعفر، محمد بن حسن (شیخ طوسی)، التبیان، ج۳، ص۱۵۶. )
4- محمد ابن ادریس(رح)
محمد بن ادریس(رح) اپنی کتاب سرائر میں بہت سے مقامات پر حتی کہ شیخ طوسی (رح) کی کتاب مبسوط سے بھی زیادہ قرآنی آیات سے استفادہ کیا ہے ۔ جیسا کہ قلیل پانی کے حکم کے بارے نقل کرتے ہیں کہ جب آب قلیل نجاست کے ساتھ ملتا ہے تو نجس ہو جاتا ہے ۔ (حلی، ابی‌جعفر محمد بن منصور بن احمد بن إدریس، السرائر، ج۱، ص۶۳. )
اسی طرح دیگر کئی فقہاء نے قرآن کریم کی آیات سے استفادہ فرمایا ہے اور زیادہ تر مشہور فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ ۵۰۰ آیات، آیات الاحکام کے عنوان سے قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں اور بعض فقہاء نے ۹۰۰ آیات الاحکام کو ذکر کیا ہے ۔ (الاجتھاد فی الشریعۃ الاسلامیہ، ص17)
5-محمدتقی حکیم(رح)
علامه محمدتقی حکیم فرماتے ہیں:
قرآن کریم کے مسألہ حجیت پر دو مقدموں پر استوار ہیں؛ اوّل کتاب الہی کا اثبات تواتر جو اس کے قطع ہونے کے صادر ہونے کا موجب ہے ۔ اس وجہ سے کوئی بھی مسلمان جس کے دل کا ایمان کے ساتھ امتحان ہوا ہو اس میں شک نہیں رکھتا اور دوسرا اثبات یہ ہے کہ یہ عظیم کتاب اللہ تعالی کے ساتھ منسوب ہے (نسبت دی گئی ہے ) اس مورد میں مسلمانوں کا عقیدہ یہی ہے کہ قرآن کریم کا اپنے اسلوب اور مضامین میں اعجاز اور اپنے دَور کے بزرگوں کو چیلنج کرنا کہ اگر قرآن کی مانند لا سکتے ہو، تو لاؤ جبکہ وہ سب قرآن جیسی آیات لانے سے عاجز رہے؛ نیز ایسی غیب کی خبریں جن کی سچائی ثابت ہوچکی ہے، یہ سب اس بات کی دلیل ہیں کہ قرآن کریم اللہ رب العزت کی طرف سے نازل شدہ کتاب ہے۔ (حکیم، محمدتقی، الاصول العامه للفقه المقارن، ص۱۰۰. )
2-فقه قرآن کریم کی نگاہ میں
اگرچه «فقه» کا مادہ قرآن کریم میں مختلف صورتوں میں بیان ہوا ہے ،لیکن مذکورہ موارد میں فقہ اصطلاحی میں اس علم کو کہا جاتا ہے جس میں شریعت کےعملی احکام سے بحث کی جاتی ہے ،بیان نہیں ہوا ہے اور یہ نکتہ قرآن کریم میں فقہ کے مادہ کا استعمال اور اسی طرح احادیث کے ذریعے قرآن کریم سے روشن ہوتا ہے ۔
صدرالمتألهین شیرازی (قدس سره) فرماتے ہیں:
فقه میں زیادہ تر احادیث دین میں بصیرت کے معانی میں استعمال ہوئی ہیں اور فقیہ وہ ہےجو اس طرح کی بصیرت رکھتا ہو. آپ (رح) نے شرح حدیث امام رضا (علیه‌السلام) «… ا‌ن من علامات الفقیه الحکم … » میں تحریر کیا ہے کہ حضرت رضا (علیه‌السلام) نے فقیہ کی علامات کو بیان فرمایا ہے اور یہ نکتہ بیان کرتا ہے کہ فقہ کے مشکل معانی ہیں اور ہر کوئی ان مشکل معانی کو متحمل نہیں ہو سکتا؛ اسی وجہ سے امام (علیه‌السلام) نے فقیہ کے اہم نکات اور اس کے آثار کو بیان فرما کر فقہ کی تعریف کی ہے. اگر فقه کے معانی فقط فتاوی کی معلومات اور مختلف آراء ہوتیں تو اس تفسیر اور تشریح کی ضرورت نہیں تھی۔ (شھابی، محمود، ادوار فقہ، ج1، ص34)
غزالی لکھتے ہیں:
اس میں شک نہیں کہ پہلے زمانہ میں آخرت کو سمجھنے اور نفسِ انسانی کا برائیوں کی طرف رجحان اور غلط اعمال کے نقصانات اور دنیا کی طرف حقارت کی نگاہ سے دیکھنے میں معاون طاقت اور آخرت کی نعمات سے متعلق مکمل علم اور دل پر خوف اور ڈر طاری کرنے میں فقہ کا کردار انتہائی اہم ہے۔
«… لِیَتَفَقَّهُوا فِی الدِّینِ وَلِیُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُونَ»(توبه/سوره۹، آیه۱۲۲. )
…تاکہ وہ دین کی سمجھ پیدا کریں اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آئیں تو انہیں تنبیہ کریں تاکہ وہ (ہلاکت خیز باتوں سے) بچے رہیں۔
جو چیز ڈرانے اور خوف دلانے سے حاصل ہوتی ہے،وہ فقہ ہے ، نہ کہ فروعات جیسا کہ؛ طلاق، عتق، لعان، اجاره و… کیونکہ اس طرح کا ڈرانا اور خوف دلانا تخلیق نہیں کہلاتا۔ (غزالی، ابوحامد محمد، احیاء العلوم، ج۱، ص۳۲.)
جہان اسلام میں فقہی مذاہب کی بنیاد اور پھیلاؤ کے ساتھ اور ان کے پیروکاروں میں بڑھتے ہوئے اختلافات کی وجہ سے “فقہ” ایک مفہومی تبدیلی کے ساتھ اپنے عام مفہوم میں بصورت “فرعی احکام کا علم” کی صورت میں ظاہر ہوا؛ جبکہ قرآن اور حدیث میں بالکل بھی اس معنی میں نہیں؛ لیکن لفظ “فقہ” اور فرعی احکام کا علم” کے موازنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علم نے ایک اہم مقام پا لیا ہے اور اس مقدس لفظ کے تمام امتیازات اور فوائد سے فائدہ اٹھالیا، اور آج کے بعد فقہاء لوگ قرآن کے قاریوں اور مفسروں کی نسبت برتر ہوگئے اور انھوں نے اپنی الگ پہچان بنا لی؛ جبکہ دوسری صدی تک قاریوں، مفسروں اور فقہاء کی پہچان ایک جیسی تھی اور ھر فقیہ بذات خود ایک قاری اور مفسر نیز شمار کیا جاتا رہا۔ اس کے بعد مسلمانوں کے روزمرہ مسائل اور ضروریات کے پیش نظر، فقہ میں مختلف فرعی شاخوں نے جنم لیا اور فقاہت ایک خاص علم کی صورت اختیار کر گئی جس کی ذمہ داری پرانے اور جدید مسائل کے جوابات کو تلاش کرنا ہے اور اس طرح علم فقہ نے علم تفسیر سے اپنا راستہ جدا کیا اور ایک مستقل علم میں تبدیل ہوگیا۔
لیکن واضح ہے کہ لفظ فقہ اپنے اصطلاحی معنی میں قرآن مجید میں ذکر نہیں ہوا، لیکن قرآن میں احکام شریعت کے بارے میں بہت زیادہ آیات موجود ہیں جو کہ “آیات الاحکام” کے نام سے جمع کی گئی ہیں اور قطب راوندی(م 573ق) جیسے افراد نے فقہ القرآن اور فاضل مقداد(م826ق) نے کنزالعرفان فی فقہ القرآن اور مقدس اردبیلی (م933ق) نے زبدۃ البیان جیسی کتب میں اس کے بارے میں کام کیا ہے۔
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ فقہ کے علم کا مقصد قرآن میں ہے اور ان آیات الاحکام اور ایسی آیات جو ظاہری طور پر آیات الاحکام تو نہیں ہیں لیکن اُن سے شرعی احکامات نکالے جا سکتے ہیں، کا قرآن میں ہونا اس بات پر دلیل ہے کہ قرآن اور فقہ کا آپس میں گہرا رشتہ ہے بلکہ در حقیقت فقہ قرآن کریم کے مستحکم درخت پر شاخ اور پتوں کے مانند ہے۔
قرآن کریم میں فقہی ابحاث کو بیان کرنے کا طریقہ
قرآن کریم میں فقہی ابحاث کو بیان کرنے کا طریقہ کچھ اس طرح ہے:
الف : واضح احکام کو بیان کرنا
بہت سارے شرعی احکام ایسے ہیں جو قرآن کریم میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں، جیسا کہ روزہ کا واجب ہونا، نماز، زکات، وعدہ کو پورا کرنا، امانت کو ادا کرنا،جہاد فی سبیل اللہ ، امر بالمعروف و نہی از منکر، حرمت شراب، حرمت قمار، بغی و تعدی دوسروں کے حقوق ، قتل نفس … ۔
ب: قرآن کریم اور سنت کی طرف رجوع
بعض احکام شرعی جو تفصیلی احکام اور ان کے مصادیق ، شرائط قرآنی قوانین ہیں ، اگرچه واضح طور پر قرآن میں ذکر نہیں ہوئے ہیں تو ضروری ہے کہ سنت سے مآخوذ ہوں گے ،لیکن یہی قرآن کریم ہے کہ ہمیں سنت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتا ہے ۔
«وَ ما آتاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَ ما نَهاکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا »  (حشر/سوره۵۹، آیه۷. )
…اور رسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ…۔
ج: کلی صورت میں
قرآن کریم معمولاً احکام کو کلی طور پر بیان کرتا ہے جیسا کہ :«أَوْفُوا بِالْعُقُودِ»،( مائده/سوره۵، آیه۱. )«وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ»،( حج/سوره۲۲، آیه۳۰. ) و «َأَحَلَّ اللَّهُ الْبَیْعَ»( بقره/سوره۲، آیه۲۵۷. ) کہ ان موارد میں فروعات کے حکم ضروری ہے کہ سنت سے لیے جائیں اور اسی طرح جزئی موارد بھی بیان ہوئے ہیں جو تمام فروعات کو بیان کرتے ہیں؛ مثال کے طور پر: ابواب جہاد، عقودات، ازدواج و طلاق و میراث.
د: داستان کی صورت میں
قرآن کریم کا بیان احکام بارے امر و نہی کی صورت میں بیان نہیں ہوا ہے بلکہ کبھی کبھار ایک داستان کی صورت میں بھی حکم کو بیان کیا ہے ؛ جیسا کہ: «قَالَ إِنِّی أُرِیدُ أَنْ أُنْکِحَکَ إِحْدَی ابْنَتَیَّ هَاتَیْنِ عَلَی أَنْ تَأْجُرَنِی ثَمَانِیَ حِجَجٍ».( قصص/سوره۲۸، آیه۲۷. ) یہ ایک تاریخی واقعہ کو بیان کر رہی ہے ؛ لیکن حضرت شعیب اور موسی علیہم السلام اجرت کی قرار داد کو نقل کر رہی ہے کہ اور اس اجرت کی قرار داد کو رد نہیں کر رہی ہے ،اور فقہاء عقد کے شرائط اجارہ کو استنباط کرتے ہیں .
نتیجہ
البته قرآن کریم کے طور طریقہ پر زیادہ تحقیق کرنے کی ضرورت ہے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام ضروریات کے دلائل قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں ، قرآنی آیات اور اشارات کیساتھ زیادہ آشنائی اور متشابہات کے ذریعے محکمات کی طرف رجوع کرنا احادیث ناظر کے ذریعے آیات قرآنی کی تحقیق کرنے سے قرآن کریم سے زیادہ احکام حاصل کرسکتے ہیں جو کہ بہت عظیم منبع ہے اور اس اہم نکتہ کو حاصل کرنے کے لئے قرآن کریم کے ساتھ کم انس کی وجہ سے ہے ، جبکہ قرآن کریم کے ساتھ زیادہ انس الفت رکھنےسے ہم اصلی استنباط جو قرآن کریم سے استفادہ کریں اور احادیث سے مفسر آیات و مبین فروعات اور احکام کو جزئیات و مصادیق کے طور پر استفادہ کریں اس فقہی فرض میں ہم زمانہ کی تمام ضروریات کو منطبق کر سکیں گے .
تحریر: غلام رسول فیضی

 

حوالہ جات
1۔فراہیدی، العین، ج۳، ص۳۷۰.
2۔مشکینی، مصطلحات الفقہ، ص۱۸۰.
3۔ مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج۹۲، ص۲۶.
4 ۔ صبحی، صالح، نهج البلاغه، خطبہ 210.
5۔ معزی ملایری، اسماعیل، جامع احادیث شیعه، ج۱، ص۱۷۶.
6۔ قمی، ابی‌جعفر، محمد بن علی بن حسین بن بابویه (شیخ صدوق)، المقنع، ص۵۵۱۔۵۵۵.
7 ۔ عكبري بغدادي، ابي‌عبد‌الله، محمد بن محمد بن نعمان (شیخ مفید)، المقنعه، ص۷.
8۔ طوسی، ابي‌جعفر، محمد بن حسن (شیخ طوسی)، المبسوط، ج۵ ، ص ۶۹.
9۔طوسی، ابی‌جعفر، محمد بن حسن (شیخ طوسی)، التبیان، ج۳، ص۱۵۶.
10۔حلی، ابی‌جعفر محمد بن منصور بن احمد بن إدریس، السرائر، ج۱، ص۶۳.
11حکیم، محمدتقی، الاصول العامه للفقه المقارن، ص۱۰۰.
12۔توبه/سوره۹، آیه۱۲۲.
13۔غزالی، ابوحامد محمد، احیاء العلوم، ج۱، ص۳۲، بیروت.
14۔حشر/سوره۵۹، آیه۷.
15۔مائده/سوره۵، آیه۱.
16۔حج/سوره۲۲، آیه۳۰.
17۔بقره/سوره۲، آیه۲۵۷.
18۔قصص/سوره۲۸، آیه۲۷.

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=2495