18

دینی علوم کا ماحصل

  • News cod : 26120
  • 05 دسامبر 2021 - 8:38
دینی علوم کا ماحصل
ہر وہ شخص جومذہبی علوم سے واقف ہے وہ بہتر جانتا ہے کہ تمام علوم دینی کی برگشت اور ان کا جو ہر تین چیزیں ہیں ۔(۱) عقائد (۲) اعمال (۳) اخلاقیات کوئی شخص کما حقہ دیندار نہیں ہوسکتا جب تک وہ ان تین امورکو بقدر ضرورت نہ سمجھےاور ان کا علم حاصل کرنے کے بعد ان پر عمل نہ کرے۔

دینی علوم کا ماحصل

اثر: حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ سید صفدرحسین نجفی (اعلی اللہ مقامہ الشریف)

ہر وہ شخص جومذہبی علوم سے واقف ہے وہ بہتر جانتا ہے کہ تمام علوم دینی کی برگشت اور ان کا جو ہر تین چیزیں ہیں ۔
(۱) عقائد (۲) اعمال (۳) اخلاقیات
کوئی شخص کما حقہ دیندار نہیں ہوسکتا جب تک وہ ان تین امورکو بقدر ضرورت نہ سمجھےاور ان کا علم حاصل کرنے کے بعد ان پر عمل نہ کرے۔
۱۔ عقائد کو سمجھنے کے لئے علم کلام کی ضرورت ہے جس میں اصول دین ۔توحید ۔عدل۔نبوت ۔ امامت۔ قیامت اور ان کے فرعیات و جزئیات سے دلائل عقلیہ و شرعیہ کی روشنی میں بحث ہوتی ہے۔
۲۔ اعمال کے سلسلہ میں علم فقہ کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ظاہر ہے کہ چونکہ ہر شخص کے پاس اتناوقت اور استعداد نہیں ہے کہ وہ تمام احکام کوادلہ تفصیلی سے استنباط اور اخذ کر سکے لہٰذا نوع انسانی کی سہولت کے پیش نظر یہ حکم دیا گیا ہے کہ زمانہ غیبت امام علیہ السلام میں مجتھدین عظام میں سے زیادہ علم فقہ رکھنے والے جامع الشرائط شخص کی طرف رجوع کیا جائے اور اس کی تقلید کی جائے ۔چونکہ ہمارے ملک میں وہ علمی ماحول ابھی تک پیدا نہیں ہو سکا جو ایران اور عراق میں ہے ۔کہ جن میں کچھ ایسی صاحب علم وکمال ہستیاں موجود ہیں کہ جن کا اوڑھنا بچھونا علم و مسائل علمیہ ہیں جن کی بنا پر ان میں ملکہ اجتہاد بآسانی پیدا ہوجاتا ہے۔اور پھر ممارست اور زیادہ انہماک کی وجہ سے وہ ان علوم میں منجھ جاتے ہیں ۔اور پھر ان میں سے بعض حضرات پیہم ریاضت اور توفیق خدا وندی سے ان علوم کے زیادہ ماہر ہوجاتے ہیں ۔لہٰذا احکام فقہیہ میں بلکہ اصول عقائد میں بھی اختلاف کی صورت میں ان اعلام کی طرف رجوع کرنا چاہیے تاکہ یہاں دنیا میں اختلاف اور آخرت میں عذاب سے بچاجا سکے۔ہمارے ملک میں جو علماء کرام موجود ہیں وہ قابل صد احترام ہیں اور ان کی مساعی جمیلہ ممدوح اور قابل قدر ہیں لیکن نظر قاصر میں کوئی ایسی شخصیت سردست پرانے اور نئے حضرات میں نظر نہیں آتی کہ جس کا قول و نظریہ سند کی حیثیت رکھتا ہو لہٰذا ان بزرگان دین سے مراجع اور مجتھدین کرام کےفتوے مواعظ فضائل و مصائب اہل بیت اور دیگر مذہبی امور میں استفادہ تو کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے ان کے ذاتی ارشادات و نظریات اختلاف کی صورت میں قابل اعتماد نہیں ہیں ۔لہٰذا مومنین کو چاہیے کہ وہ فقہی مسائل میں مکمل طور پر اور عقائد کے مسائل میں اختلاف کی صورت میں صرف اور صرف مراجع تقلید اور مجتھدین عظام عراق و ایران کی طرف رجوع کریں اور بس!
باقی رہےاخلاقیات تو ان میں اچھی اور بری صفات کو سمجھنے اور صفات کو اپنانے اور بری صفات سے بچنے کے لئے علم اخلاق کی طرف رجوع کیاجائے اور چونکہ ان میں کوئی معتد بہ اختلاف نہیں لہٰذا اخلاق کی مشھور کتب پڑھنے سے یہ مشکل حل ہو سکتی ہے اور اس سلسلہ میں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔چونکہ انسان کی اعمال و کردار پر ان صفات کا زیادہ پر تو ہوتا ہے جو اس کے نفس میں ملکہ کی حیثیت پیدا کر لیتی ہیں ۔اگر اچھی صفات اس میں راسخ ہوگئیں تو اچھے اعمال کی توقع ہوسکتی ہے اور اگر بری صفات اس نفس پر گھر کر گئیں تو پھر اعمال صالحہ کی توقع بڑی مشکل ہے۔
اب ہم اصل موضوع کی جانب آتے ہیں ۔اگرچہ میں اس موضوع پر لکھنے کے لئے تیار نہیں تھا چونکہ اس وقت کے حالات کچھ اس قسم کے ہوگئے ہیں کہ اگر کوئی بات کی جائے اور اس سے کسی شخص کا تعلق ہو تو وہ سمجھتا ہے کہ مجھ پر تنقید کی گئی بلکہ اس صنف کے اکثر حضرات ہی یہی فرض کرنے لگ جاتے ہیں اور اس کہی اور لکھی ہوئی بات کا اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے ۔خدا شاہد ہے کہ نوجوان طبقہ کی فرمائش اصلاح حال اور دینی ذمہ داری کی بنا پر سب کچھ لکھ رہا ہوں ورنہ نہ مجھے کسی ذاکر سےکوئی مخالفت ہے نہ اہل منبر سے نہ کسی مدرس سے اور نہ قوم کے کسی فرد سے اگر میری تحریر کسی کو پسند آئے تو اس پر عمل کرے اور اگر کسی بات میں شک پیدا ہوجائے تو اپنے مراجع تقلید کی طرف رجوع کرئے۔اور اگر اس کا مجتھد میری تحریر کے خلاف فتویٰ دے تو وہ فتویٰ اس کے لئے قابل عمل ہے اور مجتھد جامع الشرائط کے مقابلے میں میرے نظریہ کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ میرا قول و عمل سند کی حیثیت نہیں رکھتا ۔اور جو کچھ میں لکھ رہا ہوں وہ میری سمجھ کے مطابق قرآن وحدیث اور فتاویٰ علماءکا نچوڑ ہے۔ہوسکتا ہے کہ میں نے نتیجہ نکالنے میں کہیں غلطی کی ہو ۔اگر کسی کی سمجھ میں آئے کہ فلاں چیز میں نے درست نہیں لکھی تو وہ براہ کرم مجھے مطلع کرے میں اس کا شکر گزار ہوں گا ۔اس لئے کہ میں اپنے نظرئیے کو حرف آخر نہیں سمجھتا کیونکہ نہ مجھے اپنے علم پر ناز ہے اور نہ ہی عمل پر بلکہ صرف اور صرف خداوند عالم کے لطف وکرم کا بتصدق محمد و آل محمد علیھم السلام متمنی ہوں ۔
موضوع یہ ہے کہ ہم جو مجالس و محافل منعقد کرتے ہیں یہ کن عوامل سے زیادہ سے زیادہ مفید اور نتیجہ خیز ہو سکتی ہیں جو چیز یں سردست میرے ذہن میں آسکتی ہیں وہ پیش کردیتا ہوں باقی اگر انہیں زیادہ بامقصد بنانے پر قوم و ملت کے ہمدرد حضرات بلکہ قوم مل جائے تو پھر ان کے طریقے اور عوامل بھی مزید غوروفکر سے زیادہ سامنے آسکتے ہیں۔
جن حضرات کا ان اجتماعات سے تعلق ہے اور جو اس کےارکان ہیں کہ جن میں ہرایک کی اہمیت و ضرورت مسلم ہے وہ چار اقسام پر منقسم ہیں۔
(۱) علماء کرام
(۲) ذاکرین عظام
(۳) بانیاں ذوی الاحتشام اور
(۴) سامعین ذوی الاحترام
ظاہر ہے کہ کچھ چیزیں ان سب میں قدر مشترک ہیں۔ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں ۔
(۱) مقصد کی ہم آہنگی یعنی سب کا مقصد ان اجتماعات سے ایک ہونا چاہیے اور وہ ہے دین و مذہب کی تبلیغ و ترویج عقائد و اعمال و اخلاق کو قرآن مجید ،احادیث نبویہ اور ارشادات آئمہ علیھم السلام کی روشنی میں سمجھنا ان پر عمل کرنا اور اقوام عالم کو ان سے روشناس کرانا۔
(۲) یہ اجتماعات خدا و رسول ﷺ و آئمہ معصومین علیھم السلام کی خوشنودی ۔ان کا قرب حاصل کرنے اور اپنی آخرت کو سنوارنے کے لئے ہونے چاہیے۔ان میں کسی قسم کے اغراض دنیاوی اور خواہشات نفسانی قطعی طور پر دخیل نہ ہوں کیونکہ یہ اجتماعات عبادت میں داخل ہیں اور عبادت میں خلوص و تقرب الٰہی کے ضروری ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں۔اگر کسی طبقہ میں اور اغراض پائے گئے تو یہ اجتماعات کم از کم اس کی نسبت سے عبادت نہیں ہوں گے اب اگرچہ ان پر بعض آثار بھی مترتب ہوں گے لیکن انہیں عبادت نہیں کہاجاسکے گا۔
(۳) سب ارکان کا فرض ہے کہ شعائر دینیہ و مذہبیہ کو قائم رکھیں ان میں سے اہم ترین چیز نماز ہے۔ تمام اجتماعات میں وہ مجالس کی صورت میں ہوں یا جلوس کی شکل میں ،جب نماز کا وقت آجائے تو اگر جلوس جارہا ہو تو اسے وہیں روک دیا جائے اور پہلے سے صفوں اور پانی وغیرہ کا انتظام ہوجاناچاہیے ۔اور وہیں اذان دی جائے اور پھر سب حضرات بلا استثناء وہیں نماز ادا کریں ۔اسی طرح نماز کے وقت مجلس موقوف کر کے وہیں نماز ہو تو زیادہ مفید ہوگی ۔یہ امر شرعاً اخلاقاً ہر لحاظ سے ضروری اور اہم ہے اور پھرسنت سید الشھداءکا اس میں احیاء بھی ہے اور امام مظلوم ؑ کی نماز ظہر کی یاد بھی تازہ ہوجاتی ہے کہ آپ نے تیروں اور تلواروں کی چھاؤں میں یہ نماز ادا کی تھی۔جہاں آپ کی اور یادیں منائی جاتی ہیں اگر یہ اہم ترین یاد منائی جائے تو ہر لحاظ سے یہ اقدام مستحسن ہوگا ۔ میں پوری قوم سے اپیل کروں گاکہ وہ یہ سنت حسینی ؑ جاری کریں یہ امر مذہب و ملت اپنی ذات اور آنے والی نسلوں پر ان کا احسان عظیم ہوگا ۔
اب ہم ہر طبقے کے الگ الگ فرائض ،ذمہ داریوں اور آداب کو بیان کرتے ہیں۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=26120