22

مؤسسہ امام المنتظر کے تحت کئی “کتابیں شائع ہوچکی ہیں، المنتظر کا مقصد پاکستانی مدارس کی ضرورت کو پورا کرنا ہے،علامہ سید حسن نقوی کی وفاق ٹائمز سے گفتگو

  • News cod : 26944
  • 25 دسامبر 2021 - 14:13
مؤسسہ امام المنتظر کے تحت کئی “کتابیں شائع ہوچکی ہیں، المنتظر کا مقصد پاکستانی مدارس کی ضرورت کو پورا کرنا ہے،علامہ سید حسن نقوی کی وفاق ٹائمز سے گفتگو
سید حسن نقوی:پاکستان سے ہم نے تقریباً 20 طلاب کو داخلہ دیا اور تقریباً 1393 شمسی میں باقاعدہ افتتاح ہوا اور یہاں کلاسس شروع ہوئیں۔ہر سال ہم تقریباً 20 ، 25 طلاب کو پاکستان سے باقاعدہ طور پر امتحان لے کر داخلہ دیتے ہیں اور یہاں سے ابھی تک تقریباً 35، 40 طلاب فارغ التحصیل ہوئے ہیں چونکہ کارشناسی کے بعد یہاں ارشد کا کوئی سسٹم موجود نہ تھا لذا طلاب دوسرے مدارس میں ارشد کیلئے چلے جاتے ہیں اور اس طرح ہر سال تقریباً 10 سے 15 طلاب ایم فل کے انٹری امتحانات میں شرکت کرتے ہیں اور بہترین انداز میں یہاں سے کامیاب ہوکر فارغ ہوجاتے تھے اور ابھی ہمیں ایم فل کی کلاسز شروع کرنے کا موقع ملا ہے۔

علامہ سید محمد حسن نقوی، بزرگ عالم دین علامہ قاضی نیاز حسین نقوی کے فرزند ہیں۔آپ نے ایرانی تاریخ کے مطابق 1367 شمسی میں دینی تعلیم کا آغاز کیا۔حوزہ علمیہ قم کے کئی مایہ ناز اساتذہ سے کسب فیض کیا ہے اور کئی سالوں سے مؤسسہ اور مدرسہ امام المنتظر قم کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
وفاق ٹائمز نے علامہ حسن نقوی سے مدرسہ امام المنتظر کی فعالیتوں کے بارے میں گفتگو کی ہے جو کہ قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔

سب سے پہلے آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے وفاق ٹائمز کو انٹرویو کا وقت دیا۔

موسسہ امام المنتظر کب وجود میں آیا اور اس کا مؤسس کون ہے؟اور اس مؤسسہ کی فعالیتوں کے بارے میں بتائیں؟

علامہ سید محمد حسن نقوی:میں بھی سب سے پہلے آپ برادران کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ٹائم دیا، موسسہ الامام منتظر عج کے بانی حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ قاضی سید نیاز حسین نقوی ہیں جنہوں نے آج سے تقریباً 20 سال پہلے اس موسسہ کی بنیاد رکھی۔
موسس کا اصلی ہدف قم میں ایک ایسے ادارے کا قیام تھا جو مختلف زبانوں میں نشر و اشاعت کے ساتھ تحقیقی کام انجام دے،اس کام کیلئے طلاب کی تربیت کریں اور قوم و ملت کی خدمت کریں۔یہ ادارہ تحقیقاتی ادارہ ہو اور تحقیقاتی کلاسوں کا اجرا ہو اور یہاں پر موجود طلاب تحقیقاتی کام انجام دیں۔تحقیق کے ساتھ ساتھ ترجمے کا کام کریں،اس کے لئے محور یہ ہے کہ وہ شخصیت بھی متعارف ہو اور وہ کتاب جس کا پہلے ترجمہ نہ ہوا ہو اور بہترین ترجمہ کرنے والے افراد سے ترجمہ کراتے ہیں۔ایسی کتابوں کا ترجمہ کریں جو ہماری ضرورت اور وہ کتابیں شخصیات کی ہوں اس سے شخصیات بھی متعارف ہو جاتی ہیں۔

وفاق ٹائمز:موسسہ امام المنتظر کی علمی خدمات کے بارے میں بتائیں۔۔؟

موسسہ المنتظر کے اہم کاموں کا ذکر کروں تو سب سے پہلے اس ادارے کے توسط سے ہم نے کتاب ”مصباح الہدایہ“کا ترجمہ کروایا،یہ کتاب آیات اور احادیث کی روشنی میں امیر المومنین ؑ کے فضایل پر منبی ہے جوکہ حضرت آیت اللہ سید علی موسوی بھبھانی کی ہے،یہ کتاب عربی اور فارسی میں تھی اور اردو میں موجود نہیں تھے تو اس کا ترجمہ مولانا مزمل حسین نے اردو میں کیا اب تک یہ کتاب دو مرتبہ زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آ چکی ہے اور اس کی تیسری ایڈیشن زیر طبع ہے۔اس کے علاوہ آیت مودت کے موضوع پر حضرت آیت اللہ سید محمود شاہرودی جو برجستہ اور ممتاز فقیہ تھے ان کی چند ایک کتاب تھی ان میں سے دو کتاب آیت مودت کے موضوع پر اور قیام سید الشہدا کے موضوع پر ، اس کا اردو ترجمہ کیا۔ ان کتابوں کے مترجم بھی مولانا مزمل حسین ہیں اور نظر ثانی محسن ملت کے داماد سید نجم الحسن نقوی نے کی۔تیسری کتاب معاشرتی انصاف، آیت اللہ رفسنجانی کی کتاب ہے اس کا اردو ترجمہ کیا۔ اس کتاب کی بھی پہلی ایڈیشن چھپ کر منظر عام پر آ گئی ہے، اسی طرح مرحوم شیخ صدوق کی کتاب ثواب الاعمال و عقاب الاعمال کا ترجمہ نسیم بہشت کے نام سے کیا اس کے مترجم حجت الاسلام ڈاکٹر سید محمد نجفی ہیں۔اس کے علاوہ آیت اللہ میرزا شہیدی کے موسسہ دارالحدیث کے اردو ترجمے کا کام ہمارے حوالہ کیا ہے ان کتابوں کے علاوہ دینی خدمات انجام دینے کیلئے مجمع موضوعات و مفاہیم قرآن کے نام سے”فرہنگ قرآن” کا ترجمہ کیا جا چکا ہے اور 3 جلدیں چھپ چکی ہیں۔مؤسسہ کی ترجمے کے حوالے سے مختصر سرگرمیاں یہ ہیں اور ان سرگرمیوں کے علاوہ دیگر چند ایک موضوعات پر کام جاری ہے۔

اب تک یہاں تحقیقی حوالے سے کئی باب کھلے ہیں،ان کو تین، چار گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
موسسہ میں ہم نے دو ٹرم علم کلام کا رکھا اور طلباء کی تقریباً 75 تعداد تھی وہ طلباء یہاں سے فارغ ہونے کے بعد جامعۃ المصطفی میں پڑھ رہے ہیں۔اس کے علاوہ یہاں لڑکیوں کے لئے مدرسہ قائم کیا اور کافی تعداد میں طالبات موجود تھیں۔

وفاق ٹائمز:مدرسہ امام المنتظر کب وجود میں آیا اور کس ہدف کے لئے بنایا گیا۔۔؟

سید حسن نقوی:اس بلڈینگ کو محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی نے خریدا تھا اور والد محترم حجۃ الاسلام والمسلمین قاضی سید نیاز حسین نقویؒ نے اس کی دو مرتبہ تعمیر کرائی ایک مرتبہ ہاسٹل کے طور پر تعمیر کرائی اور اس کے بعد ضرورت محسوس کی گئی کہ اس عمارت کے اوپر مزید عمارتیں بنائی جائے چونکہ والد صاحب چاہتے تھے کہ کہ طلاب کو پاکستان سے حصولِ علم کے لئے بلایا جائے تاکہ اقامت کا مسئلہ حل ہو جائے، کوئی طالبعلم بغیر اقامت کے نہ رہے اس لئے اس بلڈینگ کی دوبارہ تعمیر کرائی گئی ۔کیونکہ بلڈینگ بننے کے بعد کافی ٹائم لگنا تھا لہذا مدرسہ امام علی اس وقت کارشناسی کے لئے جامعۃ المصطفی سے اجازت لے چکا تھا اور والد صاحب سے انہوں نے کہا کہ بلڈینگ مدرسہ کیلئے دیا جائے اس وقت والد صاحب نے کہا کہ مال امام سے بنا ہے میری کوئی ملکیت ہے نہیں،جب تک ہمیں اجازت نامہ نہیں ملتا آپ یہاں پڑھائیں اور تقریباً 14 سال مدرسہ امام علی کا سسٹم یہاں رہا۔اس کے بعد تقریباً 1392 شمسی میں آیت اللہ اعرافی سے درخواست کی اس وقت وہ بہت خوش ہوئے اور ہمیں کارشناسی فقہ و معارف کا اجازت نامہ دے دیا۔

وفاق ٹائمز:مدرسہ امام المنتظر میں داخلے کا طریقہ کار کیا ہے ؟

سید حسن نقوی:پاکستان سے ہم نے تقریباً 20 طلاب کو داخلہ دیا اور تقریباً 1393 شمسی میں باقاعدہ افتتاح ہوا اور یہاں کلاسس شروع ہوئیں۔ہر سال ہم تقریباً 20 ، 25 طلاب کو پاکستان سے باقاعدہ طور پر امتحان لے کر داخلہ دیتے ہیں اور یہاں سے ابھی تک تقریباً 35، 40 طلاب فارغ التحصیل ہوئے ہیں چونکہ کارشناسی کے بعد یہاں ارشد کا کوئی سسٹم موجود نہ تھا لذا طلاب دوسرے مدارس میں ارشد کیلئے چلے جاتے ہیں اور اس طرح ہر سال تقریباً 10 سے 15 طلاب ایم فل کے انٹری امتحانات میں شرکت کرتے ہیں اور بہترین انداز میں یہاں سے کامیاب ہوکر فارغ ہوجاتے تھے اور ابھی ہمیں ایم فل کی کلاسز شروع کرنے کا موقع ملا ہے۔

وفاق ٹائمز:قم میں مدرسہ امام المنتظرپہلا مدرسہ ہے جن کو جامعۃ المصطفی کی طرف سے ایم فل کی اجازت مل گئی ہے اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

سید حسن نقوی: ایم فل کا اجازت نامہ ملنا ہمارے ماسٹرز لیول کی کامیابی کا نتیجہ ہے جامعۃ المصطفی نے ہمیں اس کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایم فل کورس شروع کرنے کی اجازت دی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ کارشناسی کو پاکستان میں منتقل کیا جائے یعنی طلاب کو پاکستان سے کارشناسی کے بعد یہاں ارشد کیلئے داخلہ دیں گے اور یہ پاکستان میں مدارس کی تقویت کا باعث بنے گا۔ہمارا بنیادی مقصد چاہئے کارشناسی ہو یا ارشد پاکستان کے مدارس کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔وہاں اساتذہ کی ضرورت ہے جو تحقیقی کام بھی انجام دے سکے۔ ہم چاہتے کہ یہاں ایسے طلاب و علمائے کرام کی تربیت کریں جو تدریس کے ساتھ ساتھ تحقیقی کام بھی انجام دے سکے۔

وفاق ٹائمز: امام االمنتظر کے ایم فل پروگرامز میں داخلہ لینے کی کیا شرائط ہے۔۔؟

مدرسہ الامام المتنظر کے ماسٹرز لیول میں بھی دوسرے ملکوں کے طلاب موجود تھے،اگر بعض طلاب ایم فل کیلئے آنا چاہئے تو بلا مانع ہے۔لیکن فعلا پاکستانی طلاب کیلئے عمومی ہے جامعۃ المصطفی کے کسی بھی کیمپس سے کارشناسی(ماسٹر) کے امتحان پاس کرکے ارشد(ایم فل)کیلئے یہاں آسکتا ہے۔اسکے لئے یہاں شرائط یہ ہیں کہ ایم فل انٹری ٹیسٹ دیکر ایم فل میں جائیں گے۔ اس میں کسی کیلئے یہ شرائط نہیں کہ مدارس محسن ملت کے طلاب ہوں بلکہ عمومی ہےکوئی بھی پاکستانی طالبعلم جو کسی بھی تحت اشراف مدرسے سے انٹری ٹیسٹ پاس کرکے آسکتا ہے۔
اس کے لئے جامعۃ المصطفی کی شرائط کے علاوہ مدرسہ الامام المنتظر کے قانون کو فالو کرنا ضروری ہے۔ان شاء اللہ ارشد(ایم فل) کی کلاسیں اگلے ٹرم سے شروع ہوں گی اور خواہش مند طلاب آسکتے ہیں۔

 

انٹرویو: احمد علی جواہری

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=26944