19

تشیع کا سیاسی نظریہ 3

  • News cod : 3041
  • 28 اکتبر 2020 - 17:02
تشیع کا سیاسی نظریہ 3
حوزه ٹائمز | بعض لوگ سیاست کو دنیا داری سے تعبیر کرتے ھیں اور سیاست دانوں کے غلط کردار و رفتار کی وجہ سے سیاست کو جھوٹ,دوکھہ,مکر و فریب کے سوا کچھ نہیں سمجھتے اسی وجہ سے متدین طبقے کیلے سیاسی امور میں مداخلت کو مناسب نھیں سمجھتے۔

مغربی معاشروں میں دین کی سیاست سے جدائی کے تصور کے اسباب
اگر تحقیقی تناظر میں بات کی جائے تو معلوم ہو گا کہ مغربی ممالک میں دین اور سیاست کی جدائی کا نظریہ اور شعار قانون بن کر کے رائج ہو چکا ہے۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ غربی معاشرے جن چند نظریات کو حتمی اور یقینی سمجھتے ہیں ان میں سے ایک دین اور سیاست میں کسی قسم کا ربط و تعلق نہ ہونا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ اسلامی حکومت اور اسلامی طرزِ تفکر پر تعجب کرتے ہیں اور اس کے بڑھتے ہوئے اثرات سے خوفزدہ و پریشان حال نظر آتے ہیں۔ کیونکہ اسلامی حکومت کا مطلب دین اور سیاست کا مضبوط تعلق اور نہ ٹوٹںے والا ربط ہے۔
ذیل میں اس انحرافی فکر کی ایجاد کے تین اہم عوامل پر سرسری نگاہ کرتے ہیں:
۱۔ پہلا سبب: اہل کلیسا کا ظلم و ستم
دین کی سیاست سے جدائی کا اصل سبب اور بنیادی عامل قرون وسطی میں منظر عام پر آنے والی اہل کلیسا کی ظالمانہ و جاہلانہ طرزِ حکومت ہے۔
قرون وسطی میں اربابِ کلیسا تمام سیاسی و اجتماعی اداروں پر حاکم تھے اور انہوں نے لوگوں کو اپنے تسلط میں لیا ہوا تھا۔
ان کے پاپ اور پادری مذہبی تشخص رکھنے کی وجہ سے غیر معمولی قدر و منزلت کے حامل شمار ہوتے جس کی وجہ سے وہ ان یورپین ممالک پر حکومت کیا کرتے تھے۔
کلیسا کے دوش پر بننے والی یہ حکومتیں ظلم و استبداد سے آلودہ تھییں۔
حتی علمی و سائنسی تحقیقات میں بھی بے جا مداخلت کر کے علمی رشد و ارتقاء کو کچلنے کا باعث بنیں۔
اس کی بنیادی وجہ ان کے تحریفاتی دین کی تعلیمات کا ان علمی تحقیقات کے مخالف ہونا تھا۔
ظلم و ستم کی انتہاء اس قدر تھی کہ اپنی تعلیمات سے ٹکراؤ رکھنے والے بعض محققین کو یا تو زندہ جلا دیتے یازندان میں ڈال دیتے۔
کلیسا اور پادریوں کی اس ظلم و بربریت کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام، پڑھے لکھے طبقے اور سائنسی علوم کے ماہرین و محققین نے کلیسا اور پادریوں کے خلاف تحریک چلانا شروع کردی اور دین و سیاست کی جدائی کا نعرہ لگایا۔
احتجاج کرنے والوں کا ایک مطالبہ ظلم و استبداد کی روک تھام تھی اور دوسرا مطالبہ اہل کلیسا کی جہالت کی وجہ سے علمی تحقیقات کی بے جا مخالفت کی نفی تھی۔
آہستہ آہستہ عوامی احتجاج ایک تحریک میں بدل گئے اور اس طرح عوامی حلقے کلیسا اور چرچ پر غالب آ گئے۔
اس تحریک کی وجہ سے جہاں کلیسا کے ظلم و ستم سے معاشروں کو نجات ملی وہاں نت نئے نظریات ابھرنے لگے جن میں سے ایک دین کو چرچ کی چار دیواری میں بند کر دیا گیا اور کلیسا کے حاکم طبقے کا میدان سیاست اور اجتماعی امور میں حصہ لینا ممنوع قرار دے دیا۔
صرف ایک شہر جہاں آج بھی حاکم کلیسا اور پادری ہے اٹلی کا شہر ویٹیکن ہے جس کا کل رقبہ ایک چھوٹے دیہات کے برابر ہے۔
٢:دین مسیحی میں تحریفات کا ہونا
مغربی معاشرے میں رائج نظریات اور آئین حقیقت میں دین مسیحی سے متاثر ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ دین مسیحی میں کثیر مقدار میں تحریفات کی گئیں۔
گزرتے زمانے کے ساتھ ساتھ اس میں بڑی مقدار میں ردّ و بدل کر دیا گیا۔ انہی تحریفات میں سے ایک تحریف دین اور سیاست میں جدائی کرنا اور اس کے نتیجے میں دین کو ہر شخص کا ذاتی اور انفرادی مسئلہ قرار دینا ہے اور اس کو معاشرے میں لاگو کر دینا ہے۔
ان تحریفات کی وجہ سے یہ فکر ایجاد ہوئی کہ اجتماعی اور سیاسی مسائل کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے اور دین کی زیادہ سے زیادہ حدود انسان اور اس کے خالق کے درمیان ایک نوعِ ربط ہے۔
اس کے علاوہ دینی امور کا کسی معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مسیحی معاشروں میں دیندار اور غیر دیندار شخص کے درمیان بس یہی فرق ہے کہ دیندار شخص محدود اخلاقی اقدار کا پابند ہوتا ہے اور ہفتے میں ایک آدھ دن کلیسا میں عبادت و مناجات کے لیے چلا جاتا ہے۔ جبکہ غیر دیندار کسی حدود و قیود کا اپنے آب کو پابند نہیں سمجھتا اور اخلاقی مسائل اور اقدار اس کی نظر میں فرسودہ چیزیں ہیں جن کی کوئی قیمت نہیں۔
بعض ایسے افراد بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو دین کی بجائے انسانی اقدار کو اہمیت دیتے ہیں اور انسانیت کی بناء پر کچھ اخلاقیات کی پابندی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں دینی عبادات کا رجحان نظر نہیں آتا اور وہ مذہب و دین سے جدا زندگی بسر کرتے ہیں۔
٣:سیاست کو غیر مقدس جاننا
بعض لوگ سیاست کو دنیا داری سے تعبیر کرتے ھیں اور سیاست دانوں کے غلط کردار و رفتار کی وجہ سے سیاست کو جھوٹ,دوکھہ,مکر و فریب کے سوا کچھ نہیں سمجھتے اسی وجہ سے متدین طبقے کیلے سیاسی امور میں مداخلت کو مناسب نھیں سمجھتے۔
در حالیکہ سیاست سے بڑی مقدس عبادت اسلام میں نہیں ھے۔
ان تین وجوھات کی بنا پر سادہ لوح عوام,مکار سیاست دان اور خشک مقدس طبقہ دین کو سیاست سے جدا سمجھتے ھوے دینی سیاست کے علمبرداروں کی توھین اور تنقیص میں مصروف رھتے ھیں۔۔۔
مرتب:فیاضی

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=3041