3

ایران؛ مدرسہ الامام المنتظر میں شہداء پشاور کی یاد میں تعزیتی ریفرنس/معاشرہ سازی کے ذریعے شہداء کے مشن کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے،علامہ سید محمدحسن نقوی

  • News cod : 31369
  • 14 مارس 2022 - 15:35
ایران؛ مدرسہ الامام المنتظر میں شہداء پشاور کی یاد میں تعزیتی ریفرنس/معاشرہ سازی کے ذریعے شہداء کے مشن کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے،علامہ سید محمدحسن نقوی
تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مدرسہ الامام المنتظر کے پرنسپل اور وفاق ٹائمز کے منیجنگ ڈائریکٹر حجۃ الاسلام والمسلمین محمد حسن نقوی نے شہید دنیا کو دیکھ رہا ہے اور با خبر ہے اور جب دیکھتا ہے کہ میرا مؤمن بھائی نیکی کے راستے پر ہے تو خوش ہوتا ہے۔ جب دنیا میں مؤمنین دین کے علمبردار بنیں اور دشمن کے مقابلہ میں نہ ڈریں تو شہدا خوش ہوتے ہیں۔

وفاق ٹائمز کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق، تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مدرسہ الامام المنتظر کے پرنسپل اور وفاق ٹائمز کے منیجنگ ڈائریکٹر حجۃ الاسلام والمسلمین محمد حسن نقوی نے کہا کہ شہداء کے بارے قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ تو زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس رزق پاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قرآن مجید میں شہید کی موت کو قتل فی سبیل اللہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ شہید یعنی القتیل فی سبیل اللہ۔جو تقوائے قلبی سے مسلح ہو ، جہاد دفاعی میں بے خوف و ہراس محاذ کی طرف چلے اور کامیابی حاصل کرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جہاد اکبر میں کامیاب ہوچکے ہوں اور جہاد کو مقدس امر سمجھیں۔ یہ موت باقی لوگوں کے لئے خوف و ہراس کا موجب بنتی ہے جبکہ شہدا کیلئے فتح و ظفر کی موجب ہے؛ دشمن سے نہ ڈرنا۔
امیرالمومنین ؑ فرماتے ہیں: وَ أَمَّا مَا سَأَلْتَ عَنْهُ مِنْ رَأْيِي فِي الْقِتَالِ فَإِنَّ رَأْيِي قِتَالُ الْمُحِلِّينَ حَتَّى أَلْقَى اللَّهَ لَا يَزِيدُنِي كَثْرَةُ النَّاسِ حَوْلِي عِزَّةً وَ لَا تَفَرُّقُهُمْ عَنِّي وَحْشَةً وَ لَا تَحْسَبَنَّ ابْنَ أَبِيكَ وَ لَوْ أَسْلَمَهُ النَّاسُ مُتَضَرِّعاً مُتَخَشِّعاً وَ لَا مُقِرّاً لِلضَّيْمِ وَاهِناً وَ لَا سَلِسَ الزِّمَامِ لِلْقَائِدِ میرے نزدیک جنگ ان لوگوں سے جائز ہے جو جنگ چاہتے ہیں جو میدان جنگ میں لڑنے کے لئے آئے تاکہ ان کے ساتھ جنگ سے ہم خدا سے ملحق ہوں۔ لوگوں کا ازدحام میرے اردگرد مجھے عزت افزائی نہیں دیتا اور لوگوں کا مجھ سے دور ہوجانا مجھے خوف ہراس میں مبتلا نہیں کرتا۔ان جملات کے ذریعے امیر المومنین ؑ شہادت کو بیان کر رہے ہیں۔ جو شخص تہذہب نفس اختیار کرے وہ خدا کے ساتھ متصل ہوجاتا ہے اور اس کا دل لقائے الٰہی کیلئے تڑپتا ہے اوریہ شخص دشمن سے نہیں ڈرتا ۔

انہوں نے کہاکہ میدان کربلا میں اس منظر کی عکاسی ہم دیکھ چکے ہیں۔ یہ چند افراد پر مشتمل قافلہ یزید کی فوج کے ساتھ لڑنے کیلئے تیار ہوا اور اصحاب امام حسین ؑ نے بنی ہاشم کو آگے جانے نہیں دیابلکہ اس میدان میں شوق لقائے الہی کی راہ میں سب سے پہلے اپنی جان کو امام حسین ؑ پر نثار کرنے کیلئے تیار ہوئے۔اللہ کے علاوہ کسی سے نہ ڈرنا اندر کے وجود میں جوہر حماسہ پیدا کرتا ہے۔ جس شخص کے وجود میں یہ نہ پایا جائے وہ دشمن کے مقابلہ میں اور غیر اللہ کے سامنے ذلیل ہوتا ہے۔ یہ جوہر جہاد اکبر میں ہوتا ہے یعنی انسان اپنے نفس کے مہار کو اپنے ہاتھ میں لے اور خدا تک پہنچنے کیلئے بدن کو ہی مانع سمجھے۔اسی لئے مولائے کائنات جب صفین سے واپسی پر کربلا پہنچے تو ایک جملہ کہا کہ یہ سرزمین عشاق ہے۔ یہ عاشقین کا مکان ہے۔ایک اور مقام پر فرمایا جہاد یعنی انسان نفس کے مقابلے میں مجاہدت اور تلاش شروع کرے ۔ یہی موقع ہے کہ ہم ماہ رمضان کی دعاؤں کے ذریعے نفس کے ساتھ جہاد کریں اور ماہ رمضان کی فرصت سے استفادہ کریں اور دعا کریں کہ ہمیں راہ خدا میں شہادت نصیب ہو۔

علامہ سید حسن نقوی نے مزید کہاکہ شعبان میں رسول خدا نے امیر المومنین ؑ کو شہادت کی بشارت دی کہ آپ شہید ماہ رمضان ہو یا علی؛ اور جب 19 رمضان کو شہادت نصیب ہوئی، تو اپنی شہادت کو کامیابی قرار دیتے ہوئے فرمایا: فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَه اور اسی وجہ سے امیرالمومنینؑ کا پیروکار ایسے اجتماعات کو تلاش کرتا ہے۔ وہ اجتماعات کیا ہیں؟ نماز جماعت، عزاداری ، نماز جمعہ ان اجتماعات کے ذریعے لقاء اللہ نصیب ہو۔
انہوں نے شہداء کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اوپر اکثر حملہ نماز اور عزاداری میں ہوا ہےا ور یہ دلیل ہے خود سازی کی ، کہ جو جہاد اکبر، جہاد نفس میں کامیاب ہو چکے ہوں، ان کو نصیب ہوتا ہے۔ انہی کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ وہ لوگ جو راہ خدا میں قتل کردیئے گئے ہوں، انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں تم ان کی زندگی کو درک نہیں کر سکتے۔ پس شہادت کی وجہ سے انسان حیات ابدی کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ حیات ابدی سے یہاں مراد حیات معنوی ہے۔ یعنی وہ شخص جس نے اپنی زندگی کو خدا کی خوشنودی کیلئے وقف کردیا ہو، شہادت کے ذریعے اس کو کائنات کے رموز کا کشف ہوتا ہے۔ شہادت کے ذریعے مادی پردے ہٹ جاتے ہیں۔ شہدا کے مختلف مرتبہ ہیں، جتنا شہید نے لقاء اللہ کی راہ میں جدوجہد کیا ہو ، جہاد اکبر میں جدوجہد کی ہو، اسکے اپنے مراتب ہیں۔

انہوں نے آیت وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ کی تفسیر کرتے ہوئے بیان کیا کہ شہادت کی اہمیت اور دوسرا رزق الٰہی سے متنعم رہنا۔ کبھی شہادت کو خسارت نہ سمجھیں بلکہ ظاہری اور باطنی طور پر باعث فخر ہے۔یہ غلط سوچ ہے کہ آپ شہدا کے بارے میں اس فکر کے ساتھ سوچیں کہ وہ چلے گئے۔ انسان کی کامیابی یہ ہے کہ وہ جہاد نفس میں کامیاب ہوکر لقاء اللہ کی منزل تک پہنچے اور شہید اس مرتبہ پر پہنچ چکا ہوتا ہے۔ جو لوگ دنیا سے چلے جاتے ہیں ان کی نسبت شہید خدا کے نزدیک بہت بڑا مقام رکھتا ہے ، عظیم مقام پر فائز ہوتا ہے۔فَرِحينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِن فَضلِهِ وَيَستَبشِرونَ بِالَّذينَ لَم يَلحَقوا بِهِم مِن خَلفِهِم أَلّا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ اس آیت میں شہداء کو دو خوشیوں سے ہمکنار کیاگیا ہے۔ کہ شہدا کو ہم نے دو چیزیں عطا کی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ شہید دنیا کو دیکھ رہا ہے اور با خبر ہے اور جب دیکھتا ہے کہ میرا مؤمن بھائی نیکی کے راستے پر ہے تو خوش ہوتا ہے۔ جب دنیا میں مؤمنین دین کے علمبردار بنیں اور دشمن کے مقابلہ میں نہ ڈریں تو شہدا خوش ہوتے ہیں۔ محسن ملت ؒ فرماتے ہیں کہ ہماری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو نہیں دیکھتے یعنی ہم ساری دنیا کو دیکھتے کہ ساری دنیا مسلمان بن جائے اور میں وہیں کا وہیں کھڑا ہوں ، بلکہ ہمیں چاہیئے خود سازی کریں ، جب ہم خود سازی کرلیں، تو گھر سازی اور پھر معاشرہ سازی کی طرف توجہ دی جائے۔اسی کے ذریعے معاشرہ زندہ رہے گا اور امام زمانہ ؑ کے ظہور سے فاصلہ کم ہوجائے گا اور یہ سب سے بڑی اور عظیم کامیابی ہے انسانی زندگی کی۔

پس شہداء کے مشن کو آگےبڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ خود سازی اور معاشرہ سازی کی طرف توجہ دی جائے اور امام زمانہ ؑ کے ظہور کیلئے زمینہ فراہم کیا جائے اور شہداء کے قافلے میں شریک ہونے کے لئے یہی راستہ ہے۔
انہوں نے شہید کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہا کہ امام علی ؑ نے اپنے آخری خطبہ میں اپنے اصحاب کے اوصاف بیان کرتے ہوئے، وہ اصحاب جو جنگ صفین میں شہید ہوئے تھے کے متعلق فرمایا ہے کہ میرے وہ اصحاب جن کا خون جنگ صفین میں بہایا گیا میرے ان اصحاب کو خون بہانے میں کوئی نقصان نہیں ہوا، بلکہ انہوں نے خدا سے ملاقات کا راستہ فراہم کیا اور اللہ تعالی نے انہیں اس پر اجر عطا کیا ، خدا نے انہیں امن و امان کی جگہ عطا کی۔
ایک اور مقام پر امیرالمؤمنین صفین کے شہدا کا نام لیتے ہیں اور گریہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: أَيْنَ إِخْوَانِيَ الَّذِينَ رَكِبُوا الطَّرِيقَ وَ مَضَوْا عَلَى الْحَقِّ؟ أَيْنَ عَمَّارٌ وَ أَيْنَ ابْنُ التَّيِّهَانِ وَ أَيْنَ ذُو الشَّهَادَتَيْنِ وَ أَيْنَ نُظَرَاؤُهُمْ مِنْ إِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ تَعَاقَدُوا عَلَى الْمَنِيَّةِ وَ أُبْرِدَ بِرُءُوسِهِمْ إِلَى الْفَجَرَةِ؟ کہاں ہیں میرے بھائی جنہوں نے حق کا راستہ اختیار کیا اور حق کا ساتھ دیتے ہوئے دنیا سے گئے، این عمار، عمار کہاں ہے؟ مالک ابن تیہان انصاری کہاں ہے؟ خزیمہ کہاں ہے؟ جسے رسول خدا نے ایک شخص ہونے کے باوجود دو گواہ کے طور پر قبول کیا۔ اور کہاں ہیں ان کے لواحقین ؟ جنہوں نے حق کے راستے پر قربانی دی ، جن کے سروں کو ظالم اور ستمگر لوگوں کے پاس بھیجا گیا۔ پھر اپنی ریش مبارک کو ہاتھ میں لیکر طولانی گریہ کیا اور اپنے ان باوفا اصحاب کے اوصاف بیان فرمائے جنہوں نے قرآن کی تلاوت اور قرآن کے فیصلے کو قبول کیا اور عمل کیا۔جنہوں نے واجبات الٰہی میں غور وفکر کیا اور انہیں قائم کیا۔جنہوں نے سنت الٰہی کو قائم رکھا اور بدعتوں کو ختم کیا۔جنہوں نے اپنے پیشوا اور امام کی دعوت جہاد کو اجابت کیا اور اپنے رہبر کی بات پراطمینان کیا اور ہر حال میں اپنے امام کی اتباع اور پیروی کی۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=31369