7

نسیم ِصبح

  • News cod : 34606
  • 28 می 2022 - 13:40
نسیم ِصبح
لفظ ’’عماد‘‘ اُس بنیاد کے معنی میں ہے کہ جس پر عمارت کو کھڑا کیا جاتا ہے اور اس کی جمع عمدہے ۔ ان دو آیات کے ظاہر سے یہی پتہ چلتا ہے کہ ’’ارم ‘‘ قوم عاد کے شہر کانام تھا ۔ ایک بہترین، بے نظیر اور بلند وبالا ستونوں کہ جن پر کشیدہ کاری کا فن نمایاں ہو اور وسیع و عریض قصروں پر مشتمل شہر ،مگر جب ان آیات کا نزول ہوا تو اس شہر کے آثار مکمل طور پر مٹ چکے تھے اور کچھ باقی نہ تھا ۔

نسیم ِصبح
سورہ فجرو تفسیر المیزان
ترجمہ و تدوین ۔ساجد علی گوندل
Sajidaligondal55@gmail.com
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿وَالْفَجْرِ﴾1
ترجمہ :قسم ہے فجر کی
تفسیری نکات :
لفظ’’ فجر ‘‘صبح اور شفق دونوں کے معنی میں ذکر ہوا ہے يسر’’ سری ‘‘کے مصدرسے فعل مضارع ہے اور یہ رات کےچھٹ جانے اورپشت کرنا کے معنی میں ہے۔
لفظ’’ حجر‘‘ عقل و خرد کے معنی میں ہے پس اس آیت میں صبح، دس راتوں، شفع و وتر اور رات کی اس حالت کی جب وہ پشت کرتی ہے قسم کھائی گئی ہے۔اگرچہ یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ لفظ ’’ فجر ‘‘کے ذریعے کھائی گئی تم سے مراد تمام صبحیں ہیں یعنی ہر صبح کہ جو ایک کے بعد ایک نمودار ہورہی ہے اور ممکن ہے اس سے مراد صرف دس ذی الحجہ عید قربان کی صبح ہو۔
﴿وَلَیَالٍ عَشْرٍ ﴾2
ترجمہ: اور دس راتوں کی
تفسیری نکات:
ہو سکتا ہے اس سے مراد ذی الحجہ کی اول دس راتیں ہوں اور یہاں لفظ ’’ لَیَالٍ ‘‘کو نکرہ اس لیے لایا گیا ہے تاکہ وہ ان راتوں کی عظمت کی طرف اشارہ کرے نہ یہ کہ عمومیت کو ظاہر کرے۔
﴿وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ﴾ 3
ترجمہ: اور جفت اور طاق کی
تفسیری نکات:
اس جملے سے روز تردید ( آٹھ ذی الحجہ ) اور روز عرفہ کی طرف اشارہ ہے اور یہ تطبیق اس صورت میں مناسب تر ہے کہ جب ﴿وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ﴾سے روز عید قربان اور ذی الحجہ کی پہلی دس راتوں کو مراد لیا جائے۔
﴿وَاللَّیْلِ إِذَا یَسْرِ﴾4
ترجمہ: اور رات کی جب جانے لگے
تفسیری نکات:
یعنی رات کا وہ حصہ کہ جب رات چھٹ رہی ہو اور اس آیت کو﴿ وَ اللَّيْلِ إِذْ أَدْبَرَ ﴾کے معنی میں لیا گیا ہے اور ظاہری طور پر یہی ہے کہ لفظ ’’اللَّيْلِ ‘‘پر داخل لام، لام جنس ہے جس سے مراد تمام راتوں کا آخری حصہ ہے اور یہ مطلب مطلق و عمومی ہے یعنی تمام راتوں کو شامل ہے۔
﴿هَلْ فِی ذَلِکَ قَسَمٌ لِذِی حِجْرٍ﴾ 5
ترجمہ: یقینا اس میں صاحب عقل کے لیے قسم ہے۔
تفسیری نکات:
کیایہ قسمیں ہر صاحب عقل و خرد کے لیے کافی نہیں ہیں؟ یقیناً کافی ہیں صاحبان عقل جو گفتگو کے لب ولہجے اور معنی کو سمجھتے اور حق و باطل کی تمیز رکھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ قسم اس چیز کی کھائی جاتی ہے کہ جو خود صاحب منزلت و عظمت ہو اور یقین رکھتے ہیں کہ خداوند متعال جس چیز کی قسم کھائے یقیناوہ حق ہے اور یہ قسم کھاناخو داس حقیقت کی تائید اور اس میں شک و تردید کی نفی ہے۔
ذکر شده قسموں کے جواب کو یہاں حذف کیا گیا ہے کیونکہ بعد میں آنے والی آیات طغیان وسرکشی میں مبتلاء ہونے والے افراد کو دنیا وآخرت میں ہونے والے عذاب اور نفس مطمئنہ کےحامل افراد کے ثواب و اجر کی خبر دے رہی ہیں اور معناً جو اب قسم پر دلالت بھی کر رہی ہیں یعنی مذکورہ تمام قسمیں یہی بیان کر رہی ہیں کہ خداوند متعال اپنی بعض مخلوق کو نعمات عطاکر تا ہے اور بعض کو محروم رکھتا ہے مگر اس عطاو محروی کا دارومدار آزمائش و امتحان پر ہے۔
در حقیقت یہاں جواب کا حذف کرنا اور اس کی طرف اشارے و کنایہ سے متوجہ کرنا مطلب کو بلیغ تر بناتا ہے اور اس انداز سے ڈرانا اور بشارت دینامطلب کی تائید اور پختگی کا موجب ہے۔
﴿أَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ ﴾6
ترجمہ: کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے قوم عاد کے ساتھ کیا کیا؟
تفسیری نکات:
یہاں عاد سے مراد عادِ او لی یعنی حضرت ھودؑ کی امت ہے اور ان کی داستان قرآن کریم میں تکرار کے ساتھ آئی ہے اور یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ قوم ریگستانوں میں رہتی تھی۔
﴿إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ الَّتِی لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُهَا فِی الْبِلادِ ﴾7,8
ترجمہ : ستونوں والے ارم کے ساتھ جس کی نظیر کسی ملک میں نہیں بنائی گئی
تفسیری نکات:
لفظ ’’عماد‘‘ اُس بنیاد کے معنی میں ہے کہ جس پر عمارت کو کھڑا کیا جاتا ہے اور اس کی جمع عمدہے ۔ ان دو آیات کے ظاہر سے یہی پتہ چلتا ہے کہ ’’ارم ‘‘ قوم عاد کے شہر کانام تھا ۔ ایک بہترین، بے نظیر اور بلند وبالا ستونوں کہ جن پر کشیدہ کاری کا فن نمایاں ہو اور وسیع و عریض قصروں پر مشتمل شہر ،مگر جب ان آیات کا نزول ہوا تو اس شہر کے آثار مکمل طور پر مٹ چکے تھے اور کچھ باقی نہ تھا ۔
﴿وَثَمُودَ الَّذِینَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ﴾9
ترجمہ: اور قوم ثمود کے ساتھ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں
تفسیری نکات:
’’جوب ‘‘کسی چیز کو قطع کرنے اور کاٹنے کے معنی میں ہے؛ فرمایا کہ قوم ثمود پہاڑوں سے بڑے بڑے پتھروں کو تراش کر ان سے گھر بناتی اور یہ آیت، سورہ شعراء کی آیت 149 ﴿وَ تَنْحِتُونَ‌ مِنَ‌ الْجِبَالِ‌ بُيُوتاً﴾کے معنی کو بیان کر رہی ہے۔
﴿وَفِرْعَوْنَ ذِی الأوْتَادِ﴾10
ترجمہ: اور میخوں والے فرعون کے ساتھ
تفسیری نکات:
یہاں فرعون سے مراد، حضرت موسی ؑکے زمانے کا فرعون ہے اور اسے ’’ذِی الأوْتَادِ‘‘ یعنی میخوں والا فرعون اس لیے کہا گیا ہے کہ روایات میں آیا ہے کہ فرعون جب کسی کو پکڑتا اور شکنجہ کر تا تو اسے زمین یا لکڑی پر لٹا کر اس کے ہاتھوں اور پاؤں میں میخیں گاڑ دیتا۔
﴿الَّذِینَ طَغَوْا فِی الْبِلادِ فَأَکْثَرُوا فِیهَا الْفَسَادَ﴾11,12
ترجمہ: ان لوگوں نے ملکوں میں سرکشی کی اور ان میں کثرت سے فساد پھیلایا
تفسیری نکات:
ان آیات میں قوم ثمود، عاد اور فرعون کی خصوصیات بیان ہوئی ہیں ،فرمایا یہ ایسی قومیں یا افراد تھے کہ جنہوں نے سرکشی کی اور زمین میں فساد پھیلایا۔
﴿فَصَبَّ عَلَیْهِمْ رَبُّکَ سَوْطَ عَذَابٍ﴾ 13
ترجمہ: پس آپ کے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا
تفسیری نکات:
لفظ ’’صبَّ‘‘ جب اسے پانی کے تناظر میں دیکھاجائے تو اس کا معنی پانی کا نیچے کی طرف بہنا ہے جبکہ گرفت و عذاب کے پس منظر میں اس کا معنی مسلسل و سخت عذاب اور شدید گرفت ہے اور یہاں لفظ ’’عذاب‘‘ کا نکرہ آنا یہ بیان کرتا ہے کہ یہ ایک بہت بڑا اور عظیم عذاب ہے نیزاس آیت کا بیان یہ ہے کہ خداوند متعال نے انہیں ان کی سرکشی و فساد پھیلانے کے سبب عذاب میں مبتلا کیا اور عذاب بھی انتہائی شدید اور مسلسل کہ جس کا بیان کرنا ممکن نہیں۔
﴿إِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ ﴾14
ترجمہ: یقینا آپ کا رب تاک میں ہے۔
تفسیری نکات:
مرصاد اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں شکاری یا دشمن اپنے ہدف و شکارکے انتظار میں بیٹھا ہو تا ہے (یعنی کمین گاہ) مگر کیونکہ خداوند عزوجل زمان و مکان کی صفات سے پاک و منزہ ہے لہذا خداوند کا مرصاد ہونا یہ ہے کہ خداوند ہر وقت اپنے بندوں کے اعمال کودیکھ رہا ہے اور مخلوقات کے ہر قول و فعل و ارادے پر اس کا احاطہ ہے اور خدا وندان کے مراقبے میں ہے بالکل ویسے ہی کہ جیسے کوئی انسان شکار کے لیے یا اپنے دشمن کو پکڑنے یا اسے قتل کرنےکے لیے کمین گاہ میں بیٹھے اس کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کر رہا ہو تا ہے اور درست وقت کے انتظار میں ہوتا ہے کہ اس کی پکڑ کی جا سکے مگر اس کا دشمن یا شکار اس چیز سے بالکل بے خبر و لاپروا ہو تا ہے کہ کوئی اس کی پکڑیا اسے قتل کرنے کے لیے اس کے اعمال کو مسلسل دیکھ رہا ہے۔ خداوند متعال بھی اپنے بندوں کے اعمال کا مسلسل مراقبہ کئے ہوئے ہے اور مسلسل ان کی حرکات و سکنات کو دیکھ رہا ہے اور جیسے ہی کوئی طغیان و سرکشی میں مبتلاء ہوتا ہے اور فساد پھیلاتا ہے تو انہیں سخت عذاب میں پکڑ لیتا ہے۔یہ آیت گذشتہ امتوں کے مفسد وسرکش افراد پر نازل ہونے والے عذاب کے سبب کو بیان کر رہی ہے نیز بیان کر رہی ہے کہ الله نے ان پر عذاب اس لیے نازل کیا کیونکہ وہ ”رب“ ہےاور اس کی سنت اسی طریقے پر جاری ہے اس میں ہر گز تغیر و تبدل کا امکان نہیں ہےیہاں لفظ ’’ رب‘‘ کے ساتھ کاف خطاب کا اضافہ کیا گیا ہے یعنی تیرے رب نے انہیں عذاب میں پکڑاپس معلوم ہوا کہ عذاب صرف گزشتہ امتوں کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اےمحمد ﷺ تیری امت کےلیےبھی یہی سنت باقی ہے ۔
﴿فَأَمَّا الإنْسَانُ إِذَا مَا ابْتَلاهُ رَبُّهُ فَأَکْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَیَقُولُ رَبِّی أَکْرَمَنِ ﴾15
ترجمہ: مگر جب انسان کو اس کا رب آزما لیتا ہے پھر اسے عزت دیتا ہے اور اسے نعمتیں عطا فرماتا ہے تو کہتا ہے: میرے رب نے مجھے عزت بخشی ہے۔
تفسیری نکات:
اس آیت کےشروع میں «فاء» کا آنا اس بات پر دلیل ہے کہ یہ آیت گزشتہ آیات کے نتیجہ کو بیان کر رہی ہے اور انسان کی اس خاص حالت کو بیان کر رہی ہے کہ جب اس کی نعمات میں اضافہ ہو یا اسے کسی نعمت سے محروم کیا جاۓ جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے انسان ہر وقت خداوند متعال کے زیر نظر ہے اور خداوند ہر وقت اس کی تاک میں ہے تا کہ دیکھے کہ وہ اصلاح کے راستے کو اپناتا ہے یا پھر فساد و سرکشی کو اختیار کرتا ہے اور اسے نعمات دے کر یا کسی نعمت سے محروم کر کے اسے آزماتا ہے اور درحقیقت عطا ہونا یا کسی نعمت سے محرومی دونوں حالتیں انسان کے لیے آزمائش ہیں مگر یہاں اس آیت میں اس کے برعکس خداوند متعال نے انسان کے ایک نامناسب رویے کو بیان کیا ہے یعنی انسان بجائے اس کے کہ عطا یا نعمت کے چھن جانے کو اپنے لیے آزمائش و امتحان سمجھےبلکہ ایک اور راستے کی طرف نکل جاتاہے کہ جیسے اس آیت میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ ’’اگر اسے نعمت عطا ہو تو خیال کرتا ہے کہ وہ خداوند کے نزدیک محترم و مقرب ہے اور مقام رکھتا ہے لہذا یہی وجہ ہے کہ اسے یہ نعمت عطاء ہوئی ہے اور اب کیونکہ وہ خدا کے نزدیک مقرب ہے پس اس کا جو دل چاہے وہ کرتا پھرے ،نتیجۃً وہ طغیان و سرکشی اور فساد میں مبتلاء ہو جاتا ہے۔
﴿وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلاهُ فَقَدَرَ عَلَیْهِ رِزْقَهُ فَیَقُولُ رَبِّی أَهَانَنِ﴾16
ترجمہ: اور جب اسے آزما لیتا ہے اور اس پر روزی تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے: میرے رب نے میری توہین کی ہے۔
تفسیری نکات:
اور اگر خدااسے کسی نعمت سے محروم سےکر دے اور اس کی زندگی کو سختیوں میں ڈال دے توخیال کرتا ہے کہ خداوند متعال نے اس کےساتھ دشمنی کی ہے اور اس کی توہین کی ہے لہذا نتیجۃً وہ بے صبری و کفر کو اختیار کرلیتا ہے ۔
’’فَأَمَّا الإنْسَانُ ‘‘والے جملے سے مراد یہ ہے کہ انسان طبعاً ایسا ہے ہرگز اس سے مراد ایسا نہیں ہے کہ یہ آیت فرداً فرداً ہر انسان کو اس کا مصداق ٹھہرا رہی ہے لہذا انسان پر داخل الف لام جنسی ہے، الف لامِ استغراق نہیں ، یہاں مراد ’’موضوعِ انسان‘‘ ہےنہ کہ ’’مصادیق ِانسان ‘‘۔
﴿إِذَا مَا ابْتَلاهُ رَبُّهُ﴾ سے مراد وہ وقت کہ جب اسے امتحان میں ڈالا جاتا ہے۔ ﴿فَأَکْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ ﴾کا جملہ لفظ ’’ابتلاء‘‘ کی تفسیر ہے۔
یہاں اکرام و نعمات کا عطا ہونا بقائی نہیں بلکہ صوری وحدوثی ہے یعنی مقصود یہ ہے کہ خداوند متعال نے اسے نعمت اس لیے عطا کی تاکہ وہ خداوند متعال کا شکر ادا کرے اور اس کی بندگی کرے، لیکن انسان نے اس طرز تفکر کو چھوڑ کر اس انعام و اکرام کو اپنے لیے سر درد بنایا اور اس راہ کی طرف نکلا کہ جس میں بالآخر وہ عذاب الہی کا مستحق قرار پایا۔
﴿فَیَقُولُ رَبِّی أَکْرَمَنِ ﴾ یعنی کہتا ہے کہ خداوند متعال نے مجھے موردنعمت و کرامت قرار دیا ہے اور دلیل یہ دیتا ہے کہ خدانے جو نعمات مجھے عطا کی ہیں وہ کسی دوسرے کو نہیں دیں یادوسرے الفاظ میں وہ یہ خیال کرتا ہے یہ نعمت و قدرت کہ جو اسے عطا ہوئی ہے وہ حدوثی کے ساتھ ساتھ بقائی یعنی ہمیشہ کےلیے بھی ہے تو اس وقت وہ ہر اس کام کو انجام دیتا ہے جسے وہ چاہتا ہے۔
﴿وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلاهُ فَقَدَرَ عَلَیْهِ رِزْقَهُ فَیَقُولُ رَبِّی أَهَانَنِ﴾
یعنی جب خداوند متعال نےاسے مورد امتحان و آزمایش قرار دیا اور اسے آزمانے کے لیے اس کے رزق کوتنگ کیا تو کہنے لگا کہ میرے پروردگار نے مجھے ذلیل و خوار کر دیا اور مجھے پست کیا۔ان گذشتہ دوآیات سے مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں:
• لفظ’’ ابتلاء‘‘ کا نعمت کے عطا ہونے میں استعمال ہونا اور پھر نعمت سے محرومی میں
بھی استعمال ہونا یعنی لفظ ’’ابتلاء‘‘ کا تکرار یہ بتاتا ہے کہ خداوند متعال کانعمت عطا کرنا اور نعمت سے محروم کرنا دونوں امتحان ہیں نیز سورہ انبیاء کی یہ آیت ﴿ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً﴾ بھی اسی معنی کو بیان کر رہی ہے۔
• پس پتہ چلا کہ سورہ فجر کی مندرجہ بالا دو آیات انسان کے اس طبعی طرز تفکر کو خطا شمار کرتی ہیں کہ’’ جب اسے کوئی نعمت عطا ہو تو وہ سمجھنے لگتا ہے کہ ایک تو یہ نعمت ہمیشہ باقی ہے اور دوسرا یہ کہ یہ نعمت اسے اس لیے عطا ہوئی کیونکہ وہ خدا کا مقرب ہے لہذا اب وہ جو چاہے کرتا پھرے اور نتیجۃ ً طغیان و سرکشی کا شکار ہو جائے جبکہ دوسری طرف جب اسے کسی نعمت سے محروم کیا جائے تو یہ خیال کرتا ہے کہ خدا نے اسے ذلیل و خوار کر دیا اور اس کی توہین کی اور نتیجۃً مایوسی و کفر کا شکار ہوجاتا ہے ۔
• خد اکانعمت عطا کرنا اس لیے ہے تاکہ اس سے استفادہ کرتے ہوئے انسان قرب الہی تک پہنچے اور ان کا عطاہونا اس لیے ہے کہ دنیا کی بہترین نعمات کے ذریعے ہی انسان بہترین اخروی سعادت تک بھی پہنچ سکتا ہے اور یہ خداوندمتعال کا انسانوں پر فضل ہے مگر یاد رہے کہ یہ نعمات دائمی نہیں ہیں حدوثی و زائل ہوجانے والی ہیں ۔
• یہ آیات ہمیں متوجہ کرتی ہیں کہ انسان نعمات کے ہونے کو اپنی زندگی کی سعادت سمجھتا ہے اور فراوان نعمات کے ہونے کو ہی خداکے تقرب و اکرام کا ملاک قرار دیتا ہے نیز دولت و ثروت و نعمات دنیا کے نہ ہونے کو خدا سے دوری ذلت سمجھتا ہے خداوند متعال کے نزدیک قدرت و منزلت اور اس کے قرب کا ملاک ، ایمان اور عمل صالحہ ہیں۔ پس درست بات یہ ہے کہ انسان ثروتمند ہویا فقیر کچھ فرق نہیں پڑتا دراصل دنیا کی نعمات اور مال و ثروت کا ہونا یا نہ ہونا، دونوں حالتیں انسان کےلیے آزمائش کا مقام ہیں ۔
﴿ کَلا بَل لا تُکْرِمُونَ الْیَتِیمَ وَلا تَحَاضُّونَ عَلَى طَعَامِ الْمِسْکِینِ﴾17,18
ترجمہ: ہرگز نہیں ! بلکہ تم خود یتیم کی عزت نہیں کرتےاور نہ ہی مسکین کو کھلانے کی ترغیب دیتے ہو
تفسیری نکات:
’’ تحاضون ‘‘ کی اصل ’’تتحاضون ‘‘ہے اور یہ ایک دوسرے کو ابھارنے اور تشویق دلانے کے معنی میں ہے۔ فرمایا کہ نہ توتم یتیم کا احترام کرتے ہو اور نہ ہی کسی دوسرے کو مساکین و تنگ دست افراد کو صدقہ دینے کی تشویق دلاتے ہو اور تمہارے اس طرز عمل کی بنیاد مال دوستی ہے یعنی تم مال و دولت سے محبت کرتے ہو۔
﴿وَتَأْکُلُونَ التُّرَاثَ أَکْلا لَمًّا ﴾19
ترجمہ: اور میراث کا مال سمیٹ کر کھاتے ہو
تفسیری نکات:
یہاں لفظ «لم» کا معنی یہ ہے کہ انسان اپنے حصے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے مال و حصے کو بھی اپنے ساتھ مختص کرلیتا ہے۔مختصر یہ کہ جو اس کے ہاتھ لگتا ہے کھاپی جاتا ہے، چاہے وہ مال پاک و حلال ہو یا حرام وناپاک اور یہ آیت ﴿وَتَأْکُلُونَ التُّرَاثَ أَکْلا لَمًّا ﴾آیت ﴿ کَلا بَل لا تُکْرِمُونَ الْیَتِیمَ ﴾ کی تفسیر کر رہی ہے یعنی اگر تمہارے ہاتھ کسی یتیم کامال لگ جائے تو اسے بھی کھا جاتے ہو۔
﴿وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا﴾20
ترجمہ: اور مال کے ساتھ جی بھر کر محبت کرتے ہو۔
تفسیری نکات:
لفظ’’ جمّ‘‘ بہت زیادہ ،وسیع اور ہر چیز سے بزرگ اور بڑاہونےکے معنی میں ہے اوریہ آیت گذشتہ آیت﴿ وَلا تَحَاضُّونَ عَلَى طَعَامِ الْمِسْکِینِ﴾ کی تفسیر کر رہی ہے؛ فرمایا کہ تم ایک دوسرے کو مساکین و تنگ دست افراد کی مدد کرنے کی تشویق اس لیے نہیں دلاتے کیونکہ تم مال سے بہت زیادہ اور ہر چیز سے بڑھ کر محبت کرتے ہو۔
﴿کَلا إِذَا دُکَّتِ الأرْضُ دَکًّا دَکًّا ﴾21
ترجمہ: ہرگز نہیں! جب زمین کوٹ کوٹ کر ہموار کی جائے گی
تفسیری نکات:
لفظ دکَّ تھاپ لگانے اور زور زور سے کسی چیز پر مارنےکے معنی میں ہے اور اس سے مراد روز قیامت ہے کہ جب زمین کوٹ کوٹ کر برابر کر دی جائےگی اور یہاں «ذا» ظرف زمان ہے۔اس جملے میں پھر لفظ «كلا» کا استعمال ہوا ہے جو ایک بار پھر انسانی طبعی سوچ اور طرز تفکر کی نفی کرتا ہے کہ نہ تو دنیاوی نعمات و مال کا ہونا باعث قرب و احترام ہےاور نہ ہی ہواس سے محرومی خواری و ذلت کا باعث ہے اور ﴿إِذَا دُکَّتِ الأرْضُ ﴾کا جملہ اس سوچ کے رد ہونے کی علت بیان کر رہا ہے اور یہاں سے معلوم ہوتاہے کہ انسان نعمات کے عطا ہونے اور مال وثروت کے بارے میں طبعاًجو جیسے سوچ رکھتا ہے وہ درست نہیں ہے کیونکہ بہت جلد یعنی روز قیامت انسان متوجہ ہو گا کہ دنیاکی زندگی اور اس کے وسائل یعنی فقر و بے نیازی اور اس میں دوسری دنیاوی چیزیں مقصود بالذات نہیں تھی جبکہ انسان نے ان کو موجب کمال اور مقصود بالذات سمجھا اور خیال کیا اورکیونکہ دنیاکو ہی اپنا ہدف قرار دیا لہذا آخرت کے لیے کچھ نہ بھیجا، پس روز قیامت آرزو کرے گا ﴿قَدَّمْتُ لِحَیَاتِی﴾ کہ اے کاش اپنی حقیقی زندگی اور آخرت کے لیے کچھ بھیجاہوتامگر اس دن اس کی یہ خواہش اور آرزو نہ تو اسے کوئی فائدہ پہنچائے گی اور نہ ہی اس پر واقع ہوئےعذاب کو اس سے دور کر سکے گی۔
﴿وَجَاءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا﴾22
ترجمہ: اور آپ کے رب (کا حکم) اور فرشتے صف در صف حاضر ہوں گے۔
تفسیری نکات:
اس جملے میں روز قیامت خداوند متعال کے آنے کو بیان کیا گیا ہے، یہ آیت متشابہات میں سے ہےلہذا آیت﴿ لَیْسَ کَمِثْلِهِ شَیْءٌ﴾ اس آیت کی تفسیر کر رہی ہے اور اس میں موجود شبہ کو دور کر رہی ہے اور اسی طرح اور بہت ساری آیات کہ جن میں قیامت کے خواص بیان کیے گئے ہیں جیسا کہ اس دن تمام اسباب و وسائل بے کار ہو جائیں گے اور تمام حجاب اٹھا لیے جائیں گے اور سب پر واضح ہو جائے گا کہ اللہ تعالی کی ذات واضح حقیقت ہے جیسے باقی تمام شبہات کو بھی دور کرتی ہے نیزروایات میں بھی اس شبہ کو رفع کیا گیا ہے کہ خدا کے آنے سے مراد ”امر خدا ‘‘کاآنا ہے اور خود قرآن میں بھی کہا گیا ہے کہ﴿ وَ الْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ ﴾یہ تمام چیزیں اس شبہ کو دور کرتی ہیں۔
تاکیداً بیان کرتے چلیں کہ اس روز تمام اسباب کا ناکارہ ہونا اور تمام کاموں کا صرف خدا کے ذریعے انجام پانے اور خدا کے حاضر ہونے سے مراد کو مندرجہ ذیل دو آیات سے بھی سمجھا جاسکتا ہے فرمایا:﴿ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلاَّ أَنْ يَأْتِيَهُمُ أللهُ في ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَ الْمَلائِكَةُ وَ قُضِيَ الْأَمْرُ ﴾ ’’کیالوگ اس انتظار میں ہیں کہ اللہ تعالی خود ابر کے سائبانوں میں ان کے پاس آجائے اور فرشتے بھی ‘‘ اور اگر اس آیت کو سوره نمل کی33 نمبر آیت کے ساتھ ضم کر کے دیکھا جائے کہ جہاں ارشاد فرمایا: ﴿هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ أَمْرُ رَبِّكَ﴾’’اور کیا یہ اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آجائیں یا تمہارے رب کا امر آجائے‘‘ تو یہی بات سمجھ آتی ہے کہ رب کے آنےسے مراد خدا کے امر کا آنا ہے پس یا آیت میں سے لفظ امر کو حذف کیا گیا ہے اور آیت کی تقدیریوں ہے « جاء أمر ربک» یا پھر خداوند متعال کی طرف آنے کی نسبت دینا ’’ازباب مجاز عقلی‘‘ ہے۔
﴿وَجِیءَ یَوْمَئِذٍ بِجَهَنَّمَ یَوْمَئِذٍ یَتَذَکَّرُ الإنْسَانُ وَأَنَّى لَهُ الذِّکْرَى ﴾23
ترجمہ: اور جس دن جہنم حاضر کی جائے گی، اس دن انسان متوجہ ہو گا، لیکن اب متوجہ ہونے کا کیا فائدہ ہو گا؟
تفسیری نکات:
بعید نہیں ہے کہ « جيء بجهنم » سے مراد جہنم سے پردہ اٹھانے کے معنی میں ہو اور اس معنی کو سوره نازعات کی 36نمبرآیت میں بیان کیا گیا ہے فرمایا : ﴿وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِمَنْ يَرَى﴾’’ اور دیکھنے والوں کے لیے جہنم کوظاہر کیا جائے گا ‘‘نیز اس مطلب کو سورہ شعراء کی آیت نمبر91 میں بھی بیان کیا گیا ہے ﴿وَبُرِّزَتِ ٱلْجَحِيمُ لِلْغَاوِينَ ﴾’’اور سرکشوں کے لیے جہنم ظاہر کیا جائے گا‘‘ مزیداسی مطلب کو سورہ ق کی آیت نمبر 22 میں بھی بیان کیا کہ﴿لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هَٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ﴾
﴿یَوْمَئِذٍ یَتَذَکَّرُ الإنْسَانُ﴾یعنی اس دن انسان واضح نصیحت حاصل کرے گا اور اسے احساس ہو گا کہ دنیا میں خیر و شر جو بھی عطا ہو وہ اس کا امتحان تھا اور اس نے اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہی برتی ۔
﴿وَأَنَّى لَهُ الذِّکْرَى﴾ مگر اب سوچنے اور نصیحت کا وقت کہاں ؟ یہ کنایہ( اشارہ) ہے اس بات کی طرف کہ آج کے دن اس کانصیحت حاصل کرنا اسے کچھ فائدہ نہیں دے گا کیونکہ تذکر و نصیحت کا حاصل کرنا اس وقت مفید ہے کہ جب دنیا میں توجہ اور عمل صالح کے ذریعے اس کاجبران کیا جا سکے جبکہ قیامت کا دن عمل کا دن نہیں ہے۔
﴿یَقُولُ یَا لَیْتَنِی قَدَّمْتُ لِحَیَاتِی﴾24
ترجمہ: کہے گا: کاش! میں نے اپنی اس زندگی کے لیے آگے کچھ بھیجا ہوتا۔
تفسیری نکات:
اور پکارے اٹھےگا کہ اے کاش میں نے اپنی آخرت اور اس زندگی کے لیے کچھ بھیجا ہوتا۔ ممکن ہے اس کا معنی یہ ہو کہ پکارے اے کاش میں دنیا میں رہتےہوئے اس زندگی کے لیے جو کہ حقیقی زندگی ہے کچھ توشہ بھیجا ہو تا کیونکہ قرآن کریم نے دنیاوی زندگی کو کھیل اور تماشا قرار دیا ہے یعنی لغو اور بیہودہ سرگرمی کہا ہےفرمایا ﴿وَمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴾یہاں تقدیم «قدمت» سے مراد قیامت سے پہلے آخرت کی زندگی کے لیے نیک اعمال کا بھیجناہے اور اس آیت کا مضمون ایسے انسان کی آرزو ہے کہ جو روز قیامت جب حقائق کو اپنی نظروں سے دیکھنے کے بعد نصیحت حاصل کرے گا تو خود کو کوسے گا اور اپنی آنکھوں سےدیکھے گا کہ دنیامیں کی گئی اس کی تلاش و کوشش نے اسے کوئی فائدہ نہ دیا۔
﴿فَیَوْمَئِذٍ لا یُعَذِّبُ عَذَابَهُ أَحَدٌ وَلا یُوثِقُ وَثَاقَهُ أَحَدٌ﴾25,26
ترجمہ: پس اس دن اللہ کے عذاب کی طرح عذاب دینے والا کوئی نہ ہو گا اور اللہ کی طرح جکڑنے والا کوئی نہ ہو گا۔
تفسیری نکات:
یہاں عذابه اور وثاقه کی ضمیریں خداوند متعال کی طرف پلٹ رہی ہیں اور اس آیت کا معنی یوں ہے کہ اس دن اللہ کے عذاب کی طرح عذاب دینے والا کوئی نہ ہو گا اور اللہ کی طرح جکڑنے والا کوئی نہ ہو گا اوریہ کنایہ (اشاره) شدت عذاب کی طرف اشارہ ہے۔
﴿یَا أَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ﴾27
ترجمہ:اے نفس مطمئنہ
تفسیری نکات:
سیاق آیت اور گذشتہ ذکر شده تمام مطالب اور اوصاف نفس مطمئنہ کے مد مقابل ہیں نیز انسان کی بری عاقبت و انجام کو گذشتہ آیات میں بھی بیان کیا گیا ہے یعنی یہ وہ انسان ہے کہ جو دنیا سے محبت کرنے والا، طغیان، سرکشی و فساد و کفر میں مبتلاء انسان ہے اور اس کے برعکس نفس مطمئنہ وہ نفس ہے کہ جس نے خدا کی محبت اور یاد سے سکون و اطمینان کو حاصل کیا ہو اور وہ ہر اس چیز پر راضی ہو کہ جس سے اس کا پروردگاراضی ہے اور خود کو ایسا عبد وغلام سمجھتا ہو کہ جو خود اپنے کسی بھی نفع و نقصان کامالک نہیں ہے۔ اور دنیاوی زندگی کو مجازی و عارضی زندگی شمار کرتا ہو اور مال، اسباب وثروت کے ہونے اور نہ ہونے اور اپنے ہر نفع و نقصان کو امتحان الہی گردانتا ہو اور اگر دنیاوی نعمات میں غرق بھی ہو جائے تب بھی طغیان و سرکشی ، فساد اور تکبر کی وادی میں غوطہ زن نہیں ہو اور اگر فقر وتنگ دستی سے دوچار ہو تو اس کی فقر تنگ دستی اسے اپنے پروردگار کے شکر سے نہ روکے اور وہ اس حالت میں بھی عبدیت و بندگی پروردگار پر قائم رہے اور ہر گز صراط مستقیم سے منحرف نہ ہو اور نہ ہی افراط و تفریط کا شکار ہوتا ہے۔
﴿ارْجِعِی إِلَى رَبِّکِ رَاضِیَةً مَرْضِیَّةً﴾28
ترجمہ: اپنے رب کی طرف پلٹ آ اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہو۔
تفسیری نکات:
بعض کا خیال ہے کہ نفوس مطمئنہ کو یہ خطاب ان کےحساب و کتاب کے بعد ہو گا جبکہ ہماری نظر میں اس خطاب کا دورانیہ ، اول روز قیامت سے لے کر آخر قیامت تک ہے یعنی جیسے ہی نفوس مطمئنہ کو دوبارہ قبور سے اٹھایا جائے گا ان کو یہ خطاب ہو گا یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جائیں گے بلکہ اس سے بھی پہلے جیسے ہی نفوس مطمئنہ کو موت آتی ہے اور وہ انتقال کر تے ہیں اسی وقت سے وہ مخاطب ہیں یہاں تک کہ جنت الخلد میں داخل ہو جائیں۔
نفوس مطمئنہ کے لیے راضیه و مرضيه کی صفات کو اس لیے بیان کیا گیا ہے کیونکہ خدا کی محبت اور اس کی یاد سے دلوں کا سکون واطمینان حاصل کرنا اس بات کا لازمہ ہے کہ نفوس اس ذات سے راضی بھی ہوں اور کسی بھی قضاو قدر کے آنے پر کسی قسم کی چون و چرا ،نہ کریں اب چاہے وہ قضاو قدر تکوینی ہو یا حکمی، پس کوئی بھی غم ناک حادثہ و سانحہ اسے اس کی نسبت بد ظن نہ کرے اور کوئی بھی مصیبت اس کے دل کو پروردگار سے منحرف نہ کرے، جب عبد خدا، خدا سے راضی ہو تو حتماً خدا بھی اس سے راضی ہو گا لہذا اگر انسان بندگی خدا کے تقاضوں کی رعایت کرے تو حتماًخدا بھی اس سے راضی ہو گا۔
﴿فَادْخُلِی فِی عِبَادِی وَادْخُلِی جَنَّتِی﴾29, 30
ترجمہ: پھر میرے بندوں میں شامل ہو جااور میری جنت میں داخل ہو جا ۔
تفسیری نکات:
اس آیت میں «فاء» کا آنا اس بات پر دلیل ہےکہ یہ آیت جملہ ﴿ارْجِعِی إِلَى رَبِّکِ ﴾کا نتیجہ ہے، فرمایا: جب تو اپنی رضایت اور خدا کی رضایت کے ساتھ پروردگار کی طرف پلٹ آیا ہے تو اب میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا اور یہ فرمان اس بات کی دلیل ہے کہ نفوس مطمئنه بندگان خد کےزمرے میں آتے ہیں اور مقام بندگیِ خداپر فائز ہیں۔اور اس کا حق ہے کہ ان مراتب و مراحل کا حامل ہو کیونکہ اگر کوئی اپنے پروردگار سے مطمئن ہوجائے اور اپنی کسر نفسی کا قائل ہو جائے اور جان لے کہ جو بھی اس کے پروردگار کی طرف سے اس تک پہنچا ہے وہ حق ہے اور اس پر راضی ہو جائے اور اپنی ذات، صفت اور افعال اپنے پروردگار کے سپرد کر دے اور اس کی تقدیر، قضا کے سامنے تسلیم ہو جائے اور اس کے ہر امر و نہی کو بجالائے اور اپنی کسی بھی خواہش و چاہت کو تر جیح نہ دے بلکہ اپنے پروردگار کی مرضی و چاہت کو اپنائے، تو یہی بندگی و عبودیت کا کامل و تام مرتبہ ہے پس اس تام مرتبے کے حصول پر ارشاد ہوتا ہے
کہ ﴿فَادْخُلِی فِی عِبَادِی ﴾در حقیقت یہ جملہ اس کی بندگی و عبودیت پر مہر و امضاء ہے اور پھر ﴿وَادْخُلِی جَنَّتِی﴾کے ذریعے اس عبد کی منزل کو متعین کیا ہے اور یہاں لفظ «جنت» پر ضمیر متکلم کا اضافہ کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لیے خداکے نزدیک ایک خاص مقام ہے یعنی میری جنت میں داخل ہو جا اور اس مقام کے علاوہ کلام خداوند متعال میں کسی بھی جگہ جنت کو اپنی طرف نسبت نہیں دی گئی۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=34606