26

انھی کے دم سے ہے – میخانہ فرنگ آباد

  • News cod : 3467
  • 01 نوامبر 2020 - 11:44
انھی کے دم سے ہے – میخانہ فرنگ آباد

یہ مدرسہ، یہ جواں، یہ سرور و رعنائی انھی کے دم سے ہے – میخانہ فرنگ آباد آج کل جو ہمارے ہاں نظامِ تعلیم […]

یہ مدرسہ، یہ جواں، یہ سرور و رعنائی
انھی کے دم سے ہے – میخانہ فرنگ آباد

آج کل جو ہمارے ہاں نظامِ تعلیم رائج ہے، اس کی بنیاد ڈالنے والا، اور اس کے نصاب کو وضع کرکے، اسے ترتیب دے کر برصغیر پاک و ہند کے تعلیمی اداروں میں نافذ کرنے والے کا نام *لارڈ میکالے* ہے، یہ شخص 25 اکتوبر 1800 عیسوی میں پیدا ہوا، اس نے سیاسی اور سماجی حوالے سے تہلکہ خیز مقالات لکھے، اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے برطانیہ میں اس کے نام کا طوطی بولنے لگا، اور فرنگی معاشرے میں، سماجی اور سیاسی اعتبار سے اس کی شہرت آسمانوں کو چھونے لگی، برصغیر پاک و ہند میں مغربی خیالات کو فروغ دینے، اور یہاں انگریزی ادب، اور مغربی نظامِ تعلیم کو رواج دینے کے حوالے سے یہ ایک جانا پہچانا نام ہے۔ اگرچہ 1947 کو ہم برطانوی استعمار سے تو آزاد ہوئے، لیکن ہم آج تک لارڈ میکالے کے وضع کردہ مغربی نظامِ تعلیم سے آزاد نہ ہو سکے، ایک اسلامی ریاست ہونے کے باجود ہم قرآن و سنت کی روشنی میں اپنا نظامِ تعلیم وضع نہ کرسکے۔

بہرحال جو نظامِ تعلیم ہمیں لارڈ میکالے کی طرف سے ملا، اس نے برِ صغیر میں ہماری دینی، اخلاقی، انسانی، اور معاشرتی اقدار کی کمر توڑ دی، جو بات لارڈ میکالے نے 2 فروری 1835 کو برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب میں کی، وہ ہم سب کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے، اس نے اس خطاب میں برطانوی پارلیمانی ممبران سے کہا: *میں نے ہندوستان کے ہر خطے کا سفر کیا ہے، مجھے وہاں کوئی بھکاری اور چور نظر نہیں آیا، میں نے اس ملک میں بہت خوشحالی دیکھی ہے۔ لوگ اخلاقیات و اقدار سے مالا مال ہیں، عمدہ سوچ کے مالک لوگ ہیں، اور میرے خیال میں ہم اس وقت تک اس ملک کو زیر نہیں کر سکتے، جب تک ہم انہیں مذہبی اور ثقافتی طور پر توڑ نہ دیں، جو کہ ان کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے میں تجویز کرتا ہوں کہ ہم ان کا قدیم نظامِ تعلیم اور تہذیب بدل دیں۔ اگر ہندوستانیوں نے یہ سمجھ لیا، کہ ہر انگریزی اور غیر ملکی شے ان کی اشیا سے بہتر ہے، تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھودیں گے، اور حقیقت میں ہماری مغلوب قوم بن جائیں گے، جیسا کہ ہم انہیں بنانا چاہتے ہیں*۔

اور پھر وہی ہوا، جس کا عندیہ اس مکار مغربی سماجی اور سیاسی ماہر نے دیا تھا، جوں جوں ہم مغربی تہذیب اور اس کے وضع کردہ نظام تعلیم کے زیر اثر آتے رہے، ہم اپنے دینی اور اخلاقی اقدار کھوتے گئے، اور ایک وقت وہ آیا، کہ ہم میں سے بعض اپنے آپ کو مسلمان یا مشرق کا رہنے والا کہنے پر شرمندگی محسوس کرنے لگے، اور بدترین احساس کمتری کا شکار ہو گئے، جو آج تک ہمارے معاشرے میں کہیں نہ کہیں ہماری گردنوں پر ننگی تلوار کی طرح لٹک رہی ہے۔ بہرحال علامہ محمد اقبال جیسے بیدار، دردمند، دور اندیش اور حکیم و دانا انسان اس چیز سے بے خبر نہ تھے لہذا آپ نے اپنے الہامی اور بے نظیر کلام کے ذریعے امتِ مسلمہ کو مغربی نظامِ تعلیم کی تباہ کاریوں سے آگاہ کرنا شروع کردیا، اور مسلمانوں کو یہ بات سمجھانے کی بھر پور کوشش کی، کہ ہماری ترقی، پیش رفت، عزت نفس، اور من حیث القوم عزت و وقار صرف اور صرف اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل پیرا ہونے میں مضمر ہے۔

یہ شعر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس میں طنزیہ لیکن جاذب اور دلنشین پیرائے میں اس مادہ پرست، اور الحاد کے زہر سے بھرے نظامِ تعلیم کی تباہیوں کی طرف اشارہ کیا ہے، اور یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے، کہ اس نظامِ تعلیم کا فائدہ صرف اور صرف فرنگیوں کو ہے، چونکہ اس نظام کے تحت پڑھنے والا ذہنی طور پر انہی کا غلام بنتا ہے، دینِ حنیف سے بدظن ہو جاتا ہے، اسلامی اصولوں کو پسماندگی کا سبب قرار دینے لگتا ہے، اور خدا پرست بننے کے بجائے مادہ پرست بن جاتا ہے۔
اور کیا واقعاً مقام عبرت نہیں!!؟ کہ قرآن کے ہوتے ہوئے ہم ظاہر بین اور مادہ پرستوں کے وضع کردہ نظامِ تعلیم کی پیروی کریں، رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی سنت کے باجود ہم لارڈ میکالے کے اصول تعلیم کو اپنائے؟ تو پھر ایسی صورت میں انبیاءِ عظام (علیہم السلام)، اولیاء کرام، خدا کے صالح بندوں سے متاثر ہونے کے بجائے، ہیگل، کانٹ، کارل مارکس اور ان جیسے دوسرے ملحد اور مادہ پرستوں کو اپنے لئے نمونہءِ عمل قرار دیں گے، اور ان کے گن گائیں گے، اگر میری بات کا یقین نہ ہو، تو ذرا نئی نسل کی حالت ملاحظہ کریں، آپ کا دل خون کے آنسو روئے گا۔

تحریر: محمد اشفاق

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=3467