12

مبلغ کے لئے اخلاص، صبر اور تواضع انتہائی ضروری ہے، علامہ الشيخ قیس الطایی النجفی

  • News cod : 34791
  • 20 مارس 2022 - 8:58
مبلغ کے لئے اخلاص، صبر اور تواضع انتہائی ضروری ہے، علامہ الشيخ قیس الطایی النجفی
حجۃ الاسلام والمسلمین الشيخ قیس الطایی النجفی نے وفاق ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تبلیغ دین اسلام کا کام اس وقت بڑے اور گہرے چیلنجوں سے دوچار ہے۔ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ تبلیغ کے کام میں ایسے لوگ لگ گئے ہیں جو اسلامی شریعت سے ناواقف ہیں۔ انہیں نہ اسلامی عقائد معلوم ہیں اور نہ ہی وہ اسلام کے اندر کشادگی اور نبی اسلام (ص) کی رحمدلی سے واقفیت رکھتے ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ رسول (ص) اہل شرک، بت پرستوں اور یہود و نصاریٰ کے ساتھ کس طرح پیش آتے تھے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین الشيخ قیس الطایی النجفی قم میں مرجع تقلید حضرت آیت اللہ العظمی الشيخ موسی یعقوبی کے نمائندے ہیں۔آپ نے تعلیم کا آغاز 1418 هجری قمری میں جامعة الصدر عراق سے شروع کیا. شیخ احمد شیبانی، مصطفی یعقوبی، شیخ رحیم مالکی، شیخ الطایی، آیت اللہ سید علی حائری، سید صادق تبریزی، آیت اللہ سید جعفر حکیم، آیت اللہ باقر ایروانی جیسے اساتیذ سے حوزوی متون اور آيت اللہ العظمی الشيخ موسی یعقوبی، آیت اللہ العظمی سید سعید الحکیم، آیت اللہ العظمی شیخ محمد فیاض، آیت اللہ حسن جواہری سے آپ نے درس خارج حاصل کیئے۔آپ سماوۃ، بغداد اور بصرہ میں امام جمعہ اور جامعہ باقر العلوم کے مدیر المصطفی چینل کے ڈائریکٹر بھی رہے ہیں۔ حجۃ الاسلام والمسلمین الشيخ قیس الطایی النجفی عربی زبان کے معروف خطیب اور حوزہ کے مایہ ناز استاد بھی ہیں۔

حجۃ الاسلام والمسلمین الشيخ قیس الطایی النجفی نے وفاق ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تبلیغ دین اسلام کا کام اس وقت بڑے اور گہرے چیلنجوں سے دوچار ہے۔ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ تبلیغ کے کام میں ایسے لوگ لگ گئے ہیں جو اسلامی شریعت سے ناواقف ہیں۔ انہیں نہ اسلامی عقائد معلوم ہیں اور نہ ہی وہ اسلام کے اندر کشادگی اور نبی اسلام (ص) کی رحمدلی سے واقفیت رکھتے ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ رسول (ص) اہل شرک، بت پرستوں اور یہود و نصاریٰ کے ساتھ کس طرح پیش آتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ آج اسلام، دشمنی کی سب سے بڑی آماجگاہ ہے۔ دنیا میں اسلام شیطانوں کی دشمنی کا ہدف ہے؛ حتی کچھ اسلام کے لباس میں اسلام کے خلاف کام کررہے ہیں. لیکن اسی کے ساتھ محروم عوام کی سطح پر سب سے زیادہ محبت اور لگاؤ اسلام سے ہے۔ دنیا کی تسلط پسند طاقتیں اسلام سے زیادہ کسی چیز کے دشمن نہیں ہیں اور علمائے کرام منادی اسلام ہیں. اس لئے آج بھی ہمارے سامنے عظیم ذمہ داری ہے۔ یعنی اسلام کو ایسی شکل میں پیش کرنا کہ لوگوں کے قلوب اور اذہان کو سیراب کر سکے۔ ان کے ذہنوں میں اٹھنے والے سؤالوں کا صحیح جواب دے سکیں۔

مبلغ کے لئے اخلاص، صبر اور تواضع انتہائی ضروری ہے

حوزہ علمیہ کے برجستہ استاد نے کہا کہ مبلغ کے لئے اخلاص، صبر اور تواضع انتہائی ضروری ہے. مبلغ جن باتوں کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہے، خود کو کامل طور پر اس کا معتقد ہونا چاہئے. عالم وہ ہے جس کا خلوت میں خدا سے خوف، لوگوں کے حضور سے زیادہ ہو۔ ایک مبلغ اور عالم اور خطیب کو چاہیئے کہ جو کچھ وہ بیان کرتا ہے اس پر خود اس کو یقین ہو اور اس پر ایمان رکھتا ہو. اگر لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دیتا ہے تو خود اس کا اس بارے میں یقین محکم ہو. اگر قیامت کے بارے میں لوگوں کو بتاتا ہے، تو وہ خود اس بارے میں یقین محکم رکھتا ہو. اگر وہ لوگوں کو نیکی اور اچھی صفات کی طرف دعوت دیتا ہے تو وہ خود اس پر عمل کرنے والا ہو۔ ہمارے پاس کتنی ایسی احادیث ہیں جن میں بغیر عمل والے علم سے اور بغیر علم والے عمل سے نہی کیا گیا ہے۔

اگر ایک عالم دین منبر پر جاتا ہے تو وہ اپنی ایک تقریر کے ذریعے معاشرے میں بہت بڑی تبدیلی لا سکتا ہے

قم میں آیت اللہ العظمیٰ شیخ یعقوبی کے نمائندے نے کہا کہ تبلیغ کے دوران لوگوں کی جیبوں کی طرف نگاہ نہیں کرنی چاہیئے اور تبلیغ میں ہمیں رسول اللہ اور ائمہ کی روش پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایک عالم دین منبر پر جاتا ہے تو وہ اپنی ایک تقریر کے ذریعے معاشرے میں بہت بڑی تبدیلی لا سکتا ہے، فرق نہیں اچھی تبدیلی یا انحرافائی تبدیلی؛ لہذا اسے چاہیئے کہ بہت زیادہ مطالعہ کرے۔


انہوں نے کہا کہ تبلیغ ایک الہی وظیفہ ہے. یہ کوئی کاروبار نہیں ہے بلکہ دین محمدی کی نشرواشاعت ہے. عالم دین کو چاہیئے کہ وہ دین خدا کا حامی ہو. اپنے قول، فعل، اپنی زندگی اور رفتار و کردار کے ذریعے خدا کے احکام کا حامی ہو۔

لیکن آپؑ نے ان تمام مشکلات کا مقابلہ بڑے صبر اور استقامت کے ساتھ کیا

انہوں نے مزید کہا کہ مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ وہ انبیاءؑ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے صبر و تحمل سے کام لے. سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ کے دین کی دعوت دیتے ہوئے اس راستے میں آنے والی تکالیف کو بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام کو ساڑھے نو سو برس تک زبردست اذیتوں اور تکالیف کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن آپؑ نے ان تمام مشکلات کا مقابلہ بڑے صبر اور استقامت کے ساتھ کیا۔ صاحب بصیرت اور صاحب دانائی ہونے کے باوجود آپؑ کو دیوانہ اور مجنون کہا گیا لیکن حضرت نوح علیہ السلام اس گستاخانہ طرز عمل اور بدسلوکی سے ذرا برابر بھی دل شکستہ نہ ہوئے بلکہ تواتر کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کے دین کی دعوت دیتے رہے۔

اس لیئے مبلغ کو لوگوں کے ہاتھوں اور جیبوں پر نگاہ ہی نہیں رکھنی چاہیئے

عراقی مشہور خطیب نے کہا کہ ہر مبلغ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی تبلیغ مادی اعتبار سے نتیجہ خیز ہو اور لوگ اس کی دعوت کو سن کر متأثر ہوں اور اپنے عقائد اور اعمال کی اصلاح کریں، مگر کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ مبلغ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ جس کے نتیجے میں کئی مرتبہ اس پر مأیوسی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اس لیئے مبلغ کو لوگوں کے ہاتھوں اور جیبوں پر نگاہ ہی نہیں رکھنی چاہیئے. یہ انسان کی لوگوں سے وابستہ توقعات ہی ہیں کہ جو انسان کو مأیوسی کے دلدل میں لے جاتی ہیں. اگر انسان اپنی امیدیں صرف اللہ سے ہی وابستہ کرے تو ان سب کی نوبت ہی نہ آئے ۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=34791