11

جذبہ حسینی کی حفاظت ضروری ہے/امام خمینی رہ نے محرم سے بھرپور فائدہ اٹھایا. آیت اللہ غلام عباس رئیسی

  • News cod : 36891
  • 03 آگوست 2022 - 15:09
جذبہ حسینی کی حفاظت ضروری ہے/امام خمینی رہ نے محرم سے بھرپور فائدہ اٹھایا. آیت اللہ غلام عباس رئیسی
انہوں نے مزید کہا کہ عصر حاضر میں دو گروہ موجود ہیں؛ ایک وہ جو امامؑ کو نہیں مانتے لیکن ایک گروہ وہ ہے جو امامؑ کو تو مانتے ہیں، لیکن امامؑ کے نظریے کو قبول نہیں کرتے. دوسرے گروہ کی تشخیص کے لئے چشم بصیرت کی ضرورت ہے۔

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے ممتاز عالم دین آیت اللہ غلام عباس رئیسی نے محرم الحرام کی مناسبت سے مجمع سیدالشہداء العالمیہ قم میں منعقدہ پانچویں مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ منافق سے مقابلہ کرنے کے لئے بصیرت کی ضرورت ہے. اس وقت منافق حضرت امام علی علیہ السلام کے ساتھ دشمنی نہیں کریں گے بلکہ منافق خط علیؑ، نمائندہ امام علیؑ سے اور علی علیہ السلام کی نظریات کے مقابلے میں آتے ہیں وہ بھی مؤمن کے لباس میں اور ہمارے اماموں نے ہمیشہ منافقین کو رسوا کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ عصر حاضر میں دو گروہ موجود ہیں؛ ایک وہ جو امامؑ کو نہیں مانتے لیکن ایک گروہ وہ ہے جو امامؑ کو تو مانتے ہیں، لیکن امامؑ کے نظریے کو قبول نہیں کرتے. دوسرے گروہ کی تشخیص کے لئے چشم بصیرت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا منافقین کی وجہ سے ہی ہوا کہ علیؑ جیسی شخصیت کو بے نمازی دکھانے میں کامیاب ہوئے اور وہ بھی اس زمانے میں کہ جب امام علی علیہ السلام تمام اصحاب سے نمایاں تھے اور دوسری جانب ایک صرف میثم اور قنبر پورے لشکر کو علی علیہ السلام کے گھر پر لائے۔

انہوں نے کہا کہ باشرف انسان ہمیشہ احساس ذمہ داری کرتے ہیں کہ میں انسان ہوں، میری یہ ذمہ داری ہے اور وه معاشرے کو کامیابی اور ترقی کی راہ پر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ لوگ اس زمانے میں بھی احساس ذمہ داری نہیں کرتے حتی‌ کہ اسلام کو بھی خطرہ ہو تو بھی ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا؛ اس کے لئے واضح مثال دیکھیں آل علیؑ کو بھی جانتے تھے بنی امیہ کو بھی سب کچھ واضح تھا، لیکن لوگوں کو احساس ذمہ داری نہیں ہوا اور بے طرف رہے۔

انہوں نے علم کو نماد کربلا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس علم کو ہم نے صرف علم سمجھ کر نہیں اٹھانا، اس علم کو پیغام کربلا کو دوسروں تک پہنچانے اور عمل کرنے کی احساس کے ساتھ اٹھائیں۔ علم کو علم کے تقاضے کے ساتھ اٹھائیں.
اس عَلم کو اٹھانے کے بعد یہ عہد کریں کہ اگر ہاتھوں کو بھی قربان کرنا پڑا، تب بھی حق پر کھڑے رہنا ہے۔

انہوں نے امام حسن(ع) کی صلح اور امام حسین (ع)کے قیام کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ائمہؑ کا ہدف ایک ہی ہے لیکن مقصد کے حصول کا طریقہ مختلف ہے امام حسن علیہ السلام کے دور میں لوگ حقیقت کو نہیں پہنچانتے تھے، حق اور باطل لوگوں کے لئے واضح نہیں تھا، لوگ شک میں تھے کہ امام حسن علیہ السلام حق پر ہیں یا امیر شام؟ اس لئے امام حسن علیہ السلام نے صلح کیا اور امیر شام نے صلح کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حق و باطل کو لوگوں میں آشکار کیا اور لوگوں کو پتہ چلا کہ امام حسنؑ حق ہیں اور امیرشام باطل ہے۔ امام عالی مقام نے صلح کرکے لوگوں کے شک کو دور کیا اور کربلا میں سب جانتے تھے کہ یزید فاسق و فاجر ہے اور اسلام کو نابود کرنے کی کوشش میں ہے. اس لئے امام حسین علیہ السلام نے جان کی قربانی دے کر اسلام کو بچایا. کیونکہ امام حسین کا ہدف بھی دین مبین اسلام کو بچانا تھا اور امام حسن علیہ السلام کا بھی یہی ہدف تھا۔ امام حسین علیہ السلام اور امام حسنؑ مختلف نہیں ہیں، لیکن دوست، دشمن اور وقت کا تقاضا مختلف تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یزید کی حکومت سے پہلے اگر کبھی حکمران گناہ کرتے تھے تو اسے یا تو دوسروں کی نگاہوں سے چھپ کر انجام دیتے تھے یا اس گناہ کے انجام دینے کے جواز کے طور بعض جعلی احادیث کا سہارا لے کر پہلے اس گناہ کو شرعی طور پر جائز قرار دیتے تھے اور بعد میں اس کا ارتکاب کرتے تھے اور ان میں گناہ کو کھلے عام گناہ کے عنوان سے انجام دینے کی جراٴت نہ تھی۔ اسی لئے تو امیر شام، یزید سے کہتاتھا: ”بیٹا! شراب تو بہت سے لوگ پیتے ہیں لیکن وہ چھپ کر ایسا کرتے ہیں۔ تم بھی ایسا ہی کیا کرو“؛ یعنی شراب چھپ کر پیا کرو۔  لیکن یزید علی الاعلان گناہ کا ارتکاب کرتا تھا اور اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ اس کی پرورش بھی ایک غیر اسلامی ماحول میں ہوئی تھی۔ جیسا کہ دربارِ ولید میں حضرت امام حسینؑ نے اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”یزید رجل فاجر معلن بالفسق و مثلی لا یبایع مثلہ“ (یعنی یزید ایک فاجر انسان ہے جو کھلم کهلا سرعام گناہ کرتا ہے اور مجھ جیسا یزید کی بیعت نہیں کرسکتا). اسی طرح جب معاویہ یزید کی خلافت کی راہ ہموار کرنے کے لئے اور اس کی بیعت لینے کے لئے مدینہ آیا، تو امام عالی مقام اور عبد الرحمن ابن ابی بکر، دونوں کا جواب ایسا ہی تھا کہ یزید اعلانیہ طور گناہ کرتا ہے اور امیر شام نے بھی اس بات سے انکار نہیں کیا اور نہیں کہا کہ نہیں وہ نیک آدمی ہے اور ایسے گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ حقیقت سب پر عیاں تھی۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=36891