17

اہلسنت انقلابی مولوی عبدالواحد ریگی کو کیوں شہید کیا گیا؟

  • News cod : 41278
  • 12 دسامبر 2022 - 11:11
اہلسنت انقلابی مولوی عبدالواحد ریگی کو کیوں شہید کیا گیا؟
مولوی عبدالواحد ریگی کی شہادت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ایران میں جاری حالیہ بدامنی اور ہنگاموں کے پیچھے طے شدہ منصوبے کے تحت دہشتگرد گروہ سرگرم عمل ہیں۔ یہ دہشتگرد گروہ قتل و غارت کے ذریعے ایران کے صوبہ بلوچستان میں ہر ایسی آواز کو خاموش کرنے کے درپے ہیں

تحریر: علی احمدی

جمعہ 9 دسمبر 2022ء کے دن مغرب کے وقت شہر سے کچھ دور خاش زاہدان ہائی وے کے کنارے ایک لاش پائی گئی۔ اطلاع ملتے ہی پولیس وہاں پہنچی اور جانچ پڑتال پر معلوم ہوا کہ یہ لاش خاش شہر میں مسجد امام حسین علیہ السلام کے امام جماعت اور خاش کے امام جمعہ اہلسنت عالم دین مولوی عبدالواحد ریگی کی ہے۔ یاد رہے انہیں ایک دن پہلے جمعرات کے روز نامعلوم افراد نے مسجد میں نماز ظہر ادا کرنے کے بعد اغوا کر لیا تھا۔ زاہدان کے اٹارنی جنرل مہدی شمس آبادی نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ بعض نامعلوم افراد جمعرات 8 دسمبر کے دن مولوی عبدالواحد ریگی کو ان کی مسجد سے اغوا کرکے لے گئے۔ اغوا کی اطلاع ملنے پر تھانے میں کیس درج کیا گیا اور تحقیق کا آغاز کر دیا گیا۔

بدقسمتی سے اگلے ہی دن ان کی لاش برآمد ہوئی۔ انہیں قریب سے تین گولیاں ماری گئی تھیں۔ خاش شہر کے اہلسنت امام جمعہ مولوی عبدالواحد ریگی ایک انقلابی شخصیت جانے جاتے تھے۔ انہوں نے ایران عراق جنگ کے دوران بھی محاذ جنگ پر کافی وقت گزارا تھا۔ کچھ ہفتے پہلے جب زاہدان میں دہشت گرد عناصر کی جانب سے ہنگامے برپا کئے گئے تو مولوی عبدالواحد ریگی نے اس کی مذمت کی اور اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے شیعہ سنی اتحاد، ملک کی قومی سلامتی اور اسلامی انقلاب کی حمایت پر زور دیا۔ گویا ان کا یہ موقف ایران کے صوبہ بلوچستان میں سرگرم علیحدگی پسند دہشت گرد عناصر کی ریڈ لائن عبور کرنے کے مترادف تھا۔ زاہدان میں ہنگاموں کے بعد رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ایک خصوصی وفد زاہدان بھیجا، تاکہ صورتحال کا قریب سے جائزہ لے کر مناسب راہ حل تلاش کیا جا سکے۔

14 نومبر 2022ء کے دن مولوی عبدالواحد ریگی نے رہبر کے نمائندے سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد دہشت گرد علیحدگی پسند گروہوں نے انہیں قتل کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں اور ملک سے باہر مقیم علیحدگی پسند دہشت گرد رہنماوں نے انہیں قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ انہوں نے ایران میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر کو یہ ذمہ داری سونپی۔ البتہ خود مولوی عبدالواحد ریگی بھی علیحدگی پسند دہشت گرد عناصر کے عزائم سے بخوبی آگاہ تھے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ حق پر مبنی موقف اختیار کرنے پر ان کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے شجاعت کا مظاہرہ کیا اور ملک و قوم کے مفادات کا تحفظ نہیں چھوڑا۔ دوسری طرف ایران میں تقریباً 80 دن ہنگاموں کے بعد مولوی عبدالواحد ریگی جیسی شخصیت کا قتل ثابت کرتا ہے کہ اس بدامنی کے پس پردہ شیطانی اہداف کارفرما ہیں۔

مولوی عبدالواحد ریگی کی شہادت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ایران میں جاری حالیہ بدامنی اور ہنگاموں کے پیچھے طے شدہ منصوبے کے تحت دہشت گرد گروہ سرگرم عمل ہیں۔ یہ دہشت گرد گروہ قتل و غارت کے ذریعے ایران کے صوبہ بلوچستان میں ہر ایسی آواز کو خاموش کرنے کے درپے ہیں، جو ان کی سوچ سے ہم آہنگی نہ رکھتی ہو۔ مولوی عبدالواحد ریگی کی شہادت کی اصل وجہ بھی یہی ہے، چونکہ وہ بھی علیحدگی پسند دہشت گرد گروہوں سے مخالف نظریئے کے حامل تھے۔ مخالف نظریات کو دہشت گردی سے ختم کرنے کا براہ راست تعلق دہشت گردانہ گروہوں سے ہے۔ مولوی عبدالواحد ریگی کا شمار صوبہ بلوچستان کے ایسے بزرگ اہلسنت علماء میں ہوتا تھا، جو شیعہ سنی اتحاد کیلئے فعالیت انجام دینے میں مشہور تھے۔

مولوی عبدالواحد ریگی جیسے بزرگ اہلسنت عالم دین کی شہادت ایران کے جنوب مشرقی حصے میں جاری سرگرمیوں کی دہشت گردانہ نوعیت کو ثابت کرتی ہے۔ ان کی شہادت ایسے وقت واقع ہوئی، جب رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای زاہدان میں رونما ہونے والے ہنگاموں اور بدامنی کی تحقیق کیلئے خصوصی وفد اس شہر میں بھیج چکے تھے اور پس پردہ حقائق واضح کرکے ان کے مطابق عمل کرنے کا حکم دے چکے تھے۔ جب رہبر معظم انقلاب کو رپورٹس بھیجی گئیں تو انہوں نے تمام پہلو واضح کرنے، حاصل ہونے والے شواہد کا بغور جائزہ لینے اور حقائق کے تناظر میں عمل کرنے پر زور دیا تھا۔ رہبر معظم انقلاب کی جانب سے زاہدان روانہ ہونے والے خصوصی وفد کی سربراہی حجت الاسلام حاج علی اکبری کر رہے ہیں۔

زاہدان میں بدامنی اور ہنگاموں کے آغاز سے ہی اہلسنت کے انقلابی اور معتدل سوچ کے حامل علماء کو دہشت گرد گروہوں کی جانب سے دھمکیاں ملنے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ اس قسم کے اقدامات کا ایک مقصد اہلسنت کی ایسی تمام مذہبی شخصیات کو خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کرنا تھا، جو مولوی عبدالحمید اور اس کے حامیوں سے ہٹ کر موجودہ بحران ختم کرنے کیلئے موثر کردار ادا کرنے کے درپے ہیں۔ بعض ایسے شواہد بھی ملے ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ زاہدان میں کچھ عناصر سوچی سمجھی سازش کے تحت قومی سلامتی کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک سے باہر بیٹھے علیحدگی پسند دہشت گرد رہنماء انقلابی بلوچ اہلسنت علماء کو اپنے شیطانی اہداف کے حصول میں بڑی رکاوٹ تصور کرتے ہیں، کیونکہ یہ علماء اہلسنت بلوچ قوم کو اسلامی جمہوریہ ایران سے توڑنے کی اجازت نہیں دیتے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=41278