4

امام زمان عج کے لیے حضرت زھراء سلام اللہ علیہا اسوہ حسنہ قسط 4

  • News cod : 41955
  • 26 دسامبر 2022 - 13:41
امام زمان عج کے لیے حضرت زھراء سلام اللہ علیہا اسوہ حسنہ قسط 4
بی بی ؑ کا ایثار اور انفاق کسی بھی اللّٰہ والے انسان کی زندگی کا ایک خوبصورت لمحہ وہ ہوتا ہے جب وہ کسی دوسرے خدا کے بندے کی مشکل کو دور کرے۔ ان کی حاجتوں کو پورا کرے، اور خدا ان لمحات سے اتنا مسرور ہوتا ہے کہ خدا کہتا ہے وہ میں ہوں کہ جس کی تو حاجتیں دور کررہا یے، ہم یہ چیز احادیثِ قدسیہ میں دیکھتے ہیں۔ بی بی سلام اللہ علیہا کی زندگی بھری ہوئی ہے ان واقعات سے۔

امام زمان عج کے لیے حضرت زھراء سلام اللہ علیہا اسوہ حسنہ
درس 4
موضوع : حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا ایثار و انفاق

استادِ محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب

مولا امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کا یہ فرمان ۔۔
فی ابنۃ رسول اللہ (ص)لی اسوۃ حسنۃ
اس فرمان کی روشنی میں ہمارا موضوع گفتگو کس طرح ایک فاطمی معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔ ہمارے مولا ؑ بھی فاطمی ہیں ہم ان کی امت بھی فاطمی ہیں۔ جب ہمارے امام ؑ کے لیے بی بی زیرا ؑ اسوہ ہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہمارے لیے وہ اسوہ نہ ہوں۔ بی بی زہرا ؑ کی ساری زندگی اسوہ ہے ہمارے لیے ۔۔۔۔لیکن اپنے موضوع کو منظم اور مختصر کرنے کے لیے ہم نے فی الحال پانچ صفات کو موضوعِ سخن قرار دیا ہے۔
سب سے پہلے بی بی کی عبودیت، خدا شناسی اللّٰہ کی معرفت کو ہم نے موضوع قرار دیا پہلے درس کا۔دوسرے درس میں بی بی ؑ کا بعنوانِ زوجہ امیر المومنین ؑ کے گھر میں جو کردار ہے اور جو نقش ہے اور جو ہماری تمام اہل ایمان خواتین کے لیے یہ کردار اسوہ ہونا چاہیئے اور تیسرے درس کے اندر بی بی ؑ کے معاشرے کے اندر دیگر لوگوں کے ساتھ جو روابط ہیں جس میں بی بی کا ایک اجتماعی کردار ہے اس پر ہم نے گفتگو کی۔ آج اہل ایمان دیگر لوگوں کے دکھ دردوں کو دور کرنے والا کردار،یعنی بی بی کا ایثار اور انفاق۔۔۔۔

بی بی ؑ کا ایثار اور انفاق
کسی بھی اللّٰہ والے انسان کی زندگی کا ایک خوبصورت لمحہ وہ ہوتا ہے جب وہ کسی دوسرے خدا کے بندے کی مشکل کو دور کرے۔ ان کی حاجتوں کو پورا کرے، اور خدا ان لمحات سے اتنا مسرور ہوتا ہے کہ خدا کہتا ہے وہ میں ہوں کہ جس کی تو حاجتیں دور کررہا یے، ہم یہ چیز احادیثِ قدسیہ میں دیکھتے ہیں۔ بی بی سلام اللہ علیہا کی زندگی بھری ہوئی ہے ان واقعات سے۔

اہم ترین واقعہ
ایک اہم ترین واقعہ جو قرآن مجید کی سورہ انسان(دھر) کے نازل ہونے کا جو باعث بنا وہ یہی تھا کہ بی بی ع نے امام حسن اور امام حسین ؑ کی بیماری سے شفاء کے لیے یہ جو تین دن روزے کی نذر کی اور اس میں بی بی ؑ نے روزے رکھے مولا علی نے روزے رکھے امام حسن ؑ اور حسین ؑ نے رکھے اور بی بی فضہ نے رکھے۔ ان تین دنوں میں جو کھانا تھا وہ ایک دفعہ یتیم کو دیا گیا ایک دفعہ اسیر کو دیا گیا اور ایک دفعہ مسکین کو دیا گیا اور تین دن ان ہستیوں نے صرف پانی سے افطار کیا اور اللہ نے ان کی عظمت پر ان پاکیزہ ہستیوں علیہ السلام کی عظمت پر خدا نے سورہ انسان کی آیات نازل کیں ۔امام حسن ؑ فرمایا کرتے تھے کہ میری والدہ شب جمعہ پوری رات محراب عبادت میں ہوتی تھیں صبح کی سفیدی تک حالتِ عبادت، حالتِ رکوع،حالتِ سجود میں ہوتی تھیں اور میں خود سنتا تھا وہ مومنین اور مومنات کے لیے دعا کرتی تھیں اور ان کے نام لے لے کر دعا کرتی تھیں اور اپنے لیے کوئی دعا نہیں کرتی تھیں، اور میں نے کہا مادر میری ماں آپ دوسروں کے لیے دعا کرتی ہیں لیکن اپنے لیے کوئی دعا نہیں کرتیں تو فرمایا میرے بیٹے سب سے پہلے ہمسایہ پھر خود۔ سب سے پہلے اپنے ہمسائیوں کے لیے اپنے عزیزوں کے لیے دیگر اہل ایمان کے لیے دعا کرو پھر اپنے لیے۔ کوئی فقیر جو درِ زہرا ؑ پہ آتا تھا وہ خالی ہاتھ نہیں آتا تھا اس کی اہم ترین مثال بی بی ؑ کا شادی والے دن اپنا وہ لباس جو شادی کے لیے پہنا ہوا تھا وہ لباس بی بی ؑ نے فقیر عورت کو بخش دیا کہ جب بی بی ؑ کی رخصتی ہورہی تھی اور بی بی سواری پر سوار ہوکے امیر المومنین ؑ کے گھر کی طرف جارہی تھی تو ایک حاجت مند خاتون نے جب بی بی ؑ سے کچھ مانگا تو اس وقت بی بی ؑ کے پاس دو لباس تھے ایک پرانا اور ایک نیا لباس۔ تو بی بی ؑ نے اپنا نیا لباس اس فقیر کو بخش دیا۔ اور اس آیہ مجیدہ پر عمل کیا جس میں پرودگار فرما رہا ہے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 92 ہے۔
لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰى تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ
اے اہل ایمان تم کبھی بھی نیکی اور خاصانِ خدا کے مقام تک نہیں پہنچ سکو گے مگر کب۔۔۔۔؟ جب اس چیز کو جس سے تمہیں محبت ہے جو سب سے زیادہ تمہیں محبوب ہے اسے اللہ کی راہ میں انفاق نہیں کروگے۔
یہ فاطمی صفت ہے جو ہم سب کے اندر ہونی چاہئیے۔اور یہ فاطمیوں میں تھی اس کی ایک مثال آپ کی خدمت میں دیتا ہوں۔۔۔۔۔
فاطمی صفت
ایک دفعہ جنابِ ابوذر ؓ ان کے گھر کچھ لوگ بعنوانِ مہمان آئے تو ظاہراً جناب ابوذر ؓ بیمار تھے یا کسی مسئلے میں تھے تو انہوں نے مہمانوں کو کہا کہ میرے یہ جو اونٹ ہیں ان میں سے ایک اونٹ کو آپ ذبح کریں اور بعنوانِ غذا اس سے استفادہ کریں۔ تو انہوں نے ایک کمزور سے اونٹ کو انتخاب کیا تو جناب ابوذر ؓ ناراض ہوئے کہنے لگے ایک صحت مند اونٹ کا انتخاب کریں۔انہوں نے کہا نہیں وہ جو صحت مند اونٹ ہے وہ ہم نے آپ کے لیے رکھا ہے یہ کمزور ہم ذبح کرکے کھا لیتے ہیں ،تو ابوذر نے کہا میرے لیے میری ضرورتوں کو پورا کرنے والا جو دن ہے وہ قبر کا دن ہے۔ آپ صحت مند اونٹ کو اپنے لیے ذبح کریں اور اسے استفادہ کریں ۔اور یہ فاطمی صفتیں ہیں۔اور اس طرح کے بے پناہ واقعات ہیں اور پیغمبر اکرم ﷺ کے اصحاب ایسے ہی تھے۔

جناب ابو طلحہ انصاری کا جو واقعہ ہے کہ مدینہ میں ان کا ایک باغ تھا خوبصورت جس میں بے پناہ درخت تھے کجھور کے اور اس کے اندر چشمہ تھا۔ بالآخر چشمہ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ ایک چھوٹا سا صاف پانی کا نالہ تھا، کہ پیغمبر ؐ بھی کبھی کبھی جب اس باغ میں آتے تھے تو اس چشمے سے اس پانی کے چھوٹے سے نالے سے پانی بھی پیتے تھے۔

خلاصہ یہ کہ جب یہ آیت نازل ہوئی آل عمران کی لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰى تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ
تو یہ ہستی یہ ابو طلحہ انصاری پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے کہنے لگے مجھے سب سے زیادہ اپنے اسی باغ سے محبت ہے، یہ کجھوروں سے بھرا ہوا باغ جس میں یہ چشمہ ہے اور اس آیت کے بعد میں اسے اللہ کی راہ میں انفاق کرتا ہوں۔ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا یہ اللہ کے ساتھ بہت بہترین تجارت کی ہے تو نے تجھ پر آفرین ہو۔ لیکن میرا مشورہ یہ ہے کہ تو اس باغ کو اپنے عزیزوں رشتے داروں کے اندر جو فقراء ہیں مسکین ہیں ان کے لیے وقف کردے تو اس نے اسکو قبول کیا اور اپنے خاندان کے مسکینوں فقیروں کے اندر وہ باغ تقسیم کردیا۔ یہ ہے صفتِ فاطمی جو فاطمی مزاج رکھتا ہے جو کہ مہدوی مزاج ہے وہ فقرا کی خدمت کرتا ہے وہ مساکین کے درد دور کرتا ہے وہ سب سے پہلے اپنے خاندان اپنے عزیزوں کے اندر دیکھتا ہے کینہ بغض بھول جاتا ہے۔ جہاں تک ہوسکتا ہے دردوں کو مشکلوں کو دور کرتا ہے اور لازمی نہیں ہر مشکل پیسے سے دور ہو آپ کے چند کلمے آپ کی کچھ اور طرح کی افعالیت بھی ان کی اس مشکل کو دور کرسکتی ہے۔ پھر وہ اپنے ہمسائیوں کے اپنے محلے میں جہاں رہتا ہے وہاں دیکھتا ہے پھر وہ اپنے اردگرد ایمانی معاشرے کو دیکھتا ہے۔
تو فاطمی معاشرہ جو کہ حقیقی معنوں میں منتظر معاشرہ ہے وہ اپنے امام ع کے ہمراہ مسکینوں اور محتاجوں کی مدد کرنے والا معاشرہ ہے اور ہمارے امام ع جب ظہور فرمائیں گے جب بے پناہ سخاوت کریں گے اور محتاجوں اور مسکینوں سے بے پناہ محبت کریں گے۔ ان کے دکھوں اور دردوں کو دور کریں گے اور ان کے ناصر جو زمانہ غیبت میں تیاری کررہے ہیں ان کا بھی یہی مزاج ہونا چاہئیے۔

اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو یہ ساری فاطمی صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی اور اپنے امام کی رقاب میں سچا خدمت گزار بننے کی توفیق عطا فرمائے الہی آمین ۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=41955

ٹیگز