12

آج حق و باطل کے واضح ہوجانے کے باوجود حق کی پیروی نہیں ہورہی،مولانا سید فرخ عباس رضوی

  • News cod : 43376
  • 28 ژانویه 2023 - 15:50
آج حق و باطل کے واضح ہوجانے کے باوجود حق کی پیروی نہیں ہورہی،مولانا سید فرخ عباس رضوی
مدرسہ امام المنتظر قم میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ عاشورا میں جب امام حسین علیہ السلام نے استغاثہ بلند کیا تو اب دو صورتیں تھیں کہ اگر کوئی اس ندا کا جواب نہیں دے گا تو جہنم کی گہرائی میں چلا جائے گا اور اگر کوئی اس ندا کا جواب دے گا اور لبیک کہے گا تو جنت کے عروج پر پہنچ جائےگا۔

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، مدرسہ امام المنتظر قم میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا سید فرخ عباس رضوی نے کہاکہ خداوند متعال نے مکان و زمان کو بہانہ قرار دیا ہے تاکہ میرا بندہ مجھ سے قرب پیدا کرلے اگرچہ کہ خداوند شہ رگ حیات سے زیاہ قریب ہے وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ اس آیت میں خداوند یہ بتانا چاہتا ہے کہ جس طرح شہ رگ حیات تمہارے لئے ضروری ہے اسی طرح ہماری بھی تمہیں ضرورت ہے یہ ممکن ہے کہ انسان شہ رگ حیات کے بغیر زندہ رہ جائے لیکن خداوند کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں ہے کہ جسے فلسفہ میں قرب ذاتی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ خدا تو شہ رگ حیات سے بھی زیادہ قریب ہے تو پھر یہ قربت کے لئے تمام اعمال کو انجام دینا کیسا ہے تو اس کا جواب بہت واضح ہے کہ خدا تو ہم سے نزدیک ہے لیکن ہم خدا سے دور ہیں ہم اپنی زندگی میں خدا سے غافل ہیں حالانکہ خدا اس جگہ بھی ہمارے ساتھ تھا جب کوئی ہمارے ساتھ نہیں تھا اسی نے ماں کے پیٹ میں ہمیں رزق عطا کیا حالانکہ اس وقت نہ ماں ہمیں رزق دے سکتی تھی اور نہ ہی باپ اور یہ خداوند خود پاکیزہ ہے اور چاہتا ہے کہ میرے بندے بھی نجاست سے دور رہیں یہ قانون ہے کہ کھانا ہمیشہ منہ سے کھایا جاتا ہے لیکن ماں کے پیٹ میں پروردگار نے اس قانون کو بدل دیا اور ناف کے ذریعے کھانے کا انتظام کیا کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ میرے بندے نجس چیز سے دور رہیں اور چونکہ ماں کے پیٹ میں کھانا خون ہے تو اس وجہ سے پروردگار نے اس قانون کو بدل دیا تاکہ نجس چیز منہ سے دور رہے۔پس خدا نے گھر سے زیادہ محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب رکھا پھر جامع مسجد میں پھر حرم میں نماز پڑھنے کا ثواب رکھا تاکہ ہم خداوند تک جلدی پہنچ جائیں خدا نے مختلف بہانے قرار دیئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ایک واقعہ ملتا ہے آیت اللہ تحریری اپنے والد کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ میرے والد علامہ طباطبائی کے شاگرد تھے اور تہران میں رہتے تھے کچھ عرصہ ریاضت کی وجہ سے کمزوری طاری ہوگئی تو قم تشریف نہ لاسکے تو علامہ طباطبائی سے کہا میرے لئے تہران میں کوئی استاد اخلاق معرفی کردیں تو انہوں نے ایک شخص کا نام لیا جو آیت اللہ قاضی کا شاگرد تھا تو یہ کہتے ہیں کہ میں ان کے درس میں گیا تو ان کا ایک جملہ سن کر واپس آگیا اور مایوسی طاری ہوگئی اور وہ جملہ یہ تھا کہ خدا تک پہنچنا ایسے ہی ہے جیسے پلکوں سے پہاڑ کھودنا یعنی محال کام ہے خدا تک پہنچنا کچھ عرصے کے بعد علامہ طباطبائی سے ملاقات ہوئی تو ان سے کہا کہ آپ نے جس شخص کی معرفی کی تھی ان کے ایک جملے نے مجھے مایوس کردیا اور پھر وہ جملہ انہیں بتایا تو علام طباطبائی کہنے لگے جملہ تو درست ہے لیکن خداوند بہت کریم و رحیم ہے اگر ہم چاہیں کہ خدا تک پہنچیں تو یہ ممکن نہیں محال ہے لیکن اگر وہ چاہے تو ایک لمحہ میں انسان کو اس منزل پرفائز کردیتا ہے خاص زمان و مکان میں انسان کی خدا تک پہنچنے کی رفتار تیز ہو جاتی ہے جیسے پروردگار نے شب قدر کے بارے میں فرمایا کہ یہ ایک رات ہزار مہینوں سے افضل ہے اب یہ کتنی افضل ہے معلوم نہیں ہے یعنی ہزار سال انسان کی اسی سالہ زندگی بنتی ہے یعنی خدا یہ کہنا چاہتا ہے کہ اگر تم پوری زندگی مجھ تک پہنچنا چاہو تو ممکن نہیں ہے لیکن میں چاہوں تو تمہیں ایک رات میں اس منزل پر پہنچا سکتا ہوں۔ایک رات تو بہت زیادہ ہے جناب حر نے ایک لمحہ میں یہ سفر طے کیا جب اللہ کے ایک عبد امام حسین علیہ السلام کا یہ کمال ہے کہ وہ ایک لمحہ میں زمین سے آسمان تک کا سفر کروا سکتے ہیں تو خود خداوند کا کیا کمال ہوگا۔

انہوں نے مزید کہاکہ آج کے زمانے میں اس وقت کے زمانے کو سمجھنا بہت آسان ہے لیکن اگر ہم اپنے آپ کو اس وقت کے حالات میں رکھ کر سوچیں تو حالات اس وقت بہت زیادہ کشیدہ تھے حق و باطل واضح نہیں تھا حالانکہ آج تو حق و باطل کے واضح ہوجانے کے باوجود حق کی پیروی نہیں ہورہی تو اس وقت جب حق و باطل واضح نہیں تھا تو اس وقت کیسے حق کی پیروی کیا جاتی عاشورا میں جب امام حسین علیہ السلام نے استغاثہ بلند کیا تو اب دو صورتیں تھیں کہ اگر کوئی اس ندا کا جواب نہیں دے گا تو جہنم کی گہرائی میں چلا جائے گا اور اگر کوئی اس ندا کا جواب دے گا اور لبیک کہے گا تو جنت کے عروج پر پہنچ جائےگا۔حضرت حرؑ نے اس لمحہ اس ندا کا جواب دیا اور اس قدر بلند مرتبہ ہوئے کہ خود معصوم کی ہستی کربلا کے شہدا کے لئے بابی انتم و امی یعنی میرے ماں وباپ آپ پر فدا ہوں جیسے کلمات استعمال کرتے ہیں اور کربلا کے شہدا میں حضرت حر بھی شامل ہیں۔

انہوں نے مزید کہاکہ عاشورا سے پہلے اور عاشورا کے دن بہت سے لوگوں نے توبہ کی لیکن فقط دو لوگوں کی توبہ مشہور ہوگئی کیونکہ انہوں نے جناب زہرا سلام اللہ علیہا کو وسیلہ قرار دیا۔جب حضرت حر نے امام حسین علیہ السلام کا راستہ روکا تو امام نے فرمایا ثکلتک امک یا حر اے حر تیری ماں تیرے غم میں روئے تو اب امام حسین علیہ السلام مجسمہ اخلاق ہیں ان کے منہ سے ایسی بات نکلنا عجیب لگتا ہے لیکن اگر ہم طے کرلیں کہ معصومین حضرات جو کچھ بھی انجام دیں اس میں ہدایت موجود ہوتی ہے تو یہ سمجھنا آسان ہو جائے گا ہم تاریخ میں تھوڑا پیچھے چلتے ہیں کہ جب خلفاء جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے معافی مانگتے ہیں تو جناب سیدہ سلام اللہ علیہا ان کی بات نہیں سنتی تو وہ مولا علی علیہ السلام کے پاس جاتے ہیں تاکہ وہ وسیلہ بن جائیں تو یہ دونوں خلفاء گھر آئے تو جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے ان سے منہ پھیر لیا اور سلام کا جواب بھی نہیں دیا اب یہاں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جناب زہرا سلام اللہ علیہا مجسمہ اخلاق ہیں تو گھر آئے مہمان کے ساتھ ایسا سلوک تو اس کا جواب یہ ہے کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے جو کام انجام دیا اس میں تمام آنے والی نسلوں کی ہدایت موجود تھی یعنی جناب سیدہ سلام اللہ علیہا یہ بتانا چاہتیں تھیں کہ جس جس سے میں منہ موڑ رہی ہوں ان سے تم بھی منہ موڑ لو اور جس جس کی طرف میں منہ کروں تو ان ان کی طرف تم بھی منہ کرلو۔ امام حسین علیہ السلام نے یہ جملہ جان بوجھ کر استعمال کیا تاکہ جناب حر کے لاشعور میں موجود جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کا احترام باہر آجائے اور ان کی نجات کا باعث بن جائے، انسان جب خوشحالی میں ہو تو اس کی شخصیت کا پتہ نہیں چلتا لیکن جب وہ سخت حالات میں گھر جائے تو پہلا ردعمل جو اس سے صادر ہوتا ہے وہی اس کی شخصیت ہوتی ہے جناب حر کی شخصیت فاطمی شخصیت تھی کیونکہ اگر ان کی شخصیت فاطمی نہ ہوتی تو ان سخت حالات میں ان سے جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کا احترام ظاہر نہ ہوتا اسی احترام کی وجہ سے مولا نے ان کی شہادت کے بعد جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے ہاتھ کا سلا ہوا رومال ان کی پیشانی پر باندھا اسی احترام نے حر کو جہنم کی گہرائیوں سے نکال کر جنت کے عروج پر پہنچا دیا اور دوسری شخصیت جناب زہیر بن قین کی ہے کہ ان کے لا شعور میں احترام فاطمہ موجود تھا اور یہی چیز ان کی آزادی کا باعث بنی اور جہنم سے نجات کا باعث بنی

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=43376