22

چہلم کی مناسبت سے خصوصی انٹریو شائع | حوزہ علمیہ قم میں داخلہ لینے سے پہلے علامہ قاضی نیاز نقوی کے اساتید کون تھے؟

  • News cod : 4868
  • 06 دسامبر 2020 - 13:17
چہلم کی مناسبت سے خصوصی انٹریو شائع | حوزہ علمیہ قم میں داخلہ لینے سے پہلے علامہ قاضی نیاز نقوی کے اساتید کون تھے؟
حوزہ ٹائمز|آپ کا  سوال تو مختصر تھا مگر اسکو بیان کرنے کیلے  کافی وقت کی ضرورت ہے  جیساکہ آپ سب کے علم میں ہے  کہ خاندانی اعتبار سے  ہمارے خاندان کے بزرگ و عظیم شخص حضرت آیت اللہ سید  محمدیار نجفی  ؒ  ہمارے خاندان کی سب سے پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے دینی تعلیم حاصل کی جبکہ  اس وقت ملک عزیز پاکستان  کا بھی وجود نہیں تھا  آپ اس دور میں انگلش  زبان پر مکمل مسلط تھے  

حوزہ ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق جامعۃ المنتظر لاہور کے پرنسپل اور ملی یکجہتی کونسل پاکستان اور وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے نائب صدر علامہ قاضی سید نیاز حسین نقوی سیاسی و مذہبی امور پر گہری نظر رکھتے تھے، مختلف معاملات میں وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کی ترجمانی بھی کرتے رہے۔ سیاست میں بھی دلچسپی رہی۔ سیاسی بصیرت کی بدولت مختلف سیاسی جماعتوں کے اجتماعات میں جامعہ کی نمائندگی کرتے رہے۔ ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر بھی ملت جعفریہ کی موثر آواز تھے۔

علامہ قاضی نیاز نقوی ایران کے صوبہ لرستان، خوزستان اور قم میں جج کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیتے رہے۔

آپ 29 اکتوبر کو قم کے مقامی ہسپتال میں انتقال کرگئے اور آج 6 دسمبر کو انکا چہلم ہے۔ اسی مناسبت سے حوزہ ٹائمز اپنے قارئیں کی خدمت میں ان کا ایک یادگار انٹریو پیش کر رہی ہے۔

سوال1: قبلہ قم المقدس میں تشریف لانے سے پہلے  اپنی زندگی کے حالات و واقعات کو بیان فرمائیے؟

جواب: بسم اللہ الرحمن الرحیم سب سے پہلے تو میں اراکین موسسہ امام المنتظر  کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جہنوں نے  ایک اہم کام علماء کی سوانح حیات اور زندگی کو لوگوں تک پہنچانے کا ذمہ لیا ہے جوکہ ایک نہایت ہی اہم کام شمار ہوتا ہے  اور ساتھ ہی میں خدا وند کریم سے دعا گو ہوں  کہ اس سلسلہ  کو تسلسل کے ساتھ برقرار رکھا جاے،  جس میں معروف و غیر معروف شخصیات کی خدمات کو عیاں کیا  جا سکے،  تاکہ دوسرے ممالک کے علماء اور پاکستان کے علماء کی خدمات سے باخبر ہوں۔

آپ کا  سوال تو مختصر تھا مگر اسکو بیان کرنے کیلے  کافی وقت کی ضرورت ہے  جیساکہ آپ سب کے علم میں ہے  کہ خاندانی اعتبار سے  ہمارے خاندان کے بزرگ و عظیم شخص حضرت آیت اللہ سید  محمدیار نجفی  ؒ  ہمارے خاندان کی سب سے پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے دینی تعلیم حاصل کی جبکہ  اس وقت ملک عزیز پاکستان  کا بھی وجود نہیں تھا  آپ اس دور میں انگلش  زبان پر مکمل مسلط تھے  دنیوی  تعلیم  حاصل کرنے کے بعد آپ ایک غیر سید عالم دین  مولانا  فیض محمد مکھیالوی کی مجلس میں تشریف لے گے جوکہ علی پورشہر میں خطاب فرما رہے تھے  انہوں نے اپنے خطاب کے دوران فرمایا کہ  جب میں قرآن مجید کی تفسیر کا مطالعہ کر رہا تھا تو سوچ رہا تھا  کہ قرآن کی تفسیر کرنا  یہ تو سادات کا حق  تھا  اور وہ دین کی تعلیم حاصل کرتے  اور لوگوں کو دین کی تعلیمات سے آشنا کرواتے لیکن  میں غیر سید ہو کر دین کی تعلیمات بیان کر رہا ہو، اس جملے کو سننے کے بعد قبلہ صاحب کے دل پر اس جملے کا اتنا گہرا اثرپڑا  کہ اگلے ہی روز  مسجد میں جا کر  قرآن مجید کی تعلیم کا آغاز کر دیا اور اپنے ذھن میں یہ بات رکھ لی ،  کہ میں نے علوم دینیہ کو حاصل کر کے آگے پھیلانا ہے ،  کیونکہ میں سید ہوں اور یہ میرا شرعی وظیفہ ہے ، میں کوشش کروں گا کہ علوم اہل بیت کو آگے بڑھا سکوں،

قرآنی تعلیم کے حصول کے  دوران ہی آپ نے علوم دینی کے حصول اور انکے مراکز کی معلومات حاصل کرنا  شروع کر دی  اس وقت پاکستان میں  صرف  ایک مدرسہ ملتان میں ہوا کرتا تھا جوکہ باب العلوم  کہ نام سے جانا جاتا تھا جس میں مولانا شیخ محمد یار آف لیہ  بطور پرنسپل اور استاذ طلاب کو درس دیا کرتے تھے ، قبلہ صاحب نے کچھ عرصہ  مولانا شیخ محمد یار سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد چک نمبر 38 ضلع خانیوال مولانا سید محمد باقر رح  کی خدمت میں شرف تلمیذ حاصل کیاان سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد  آپ نے علوم منطق و فلسفہ  حاصل کرنے کے لئے  اہل سنت کے مدارس کا رخ کیا اور تقیہ کی حالت میں اہلسنت کے علماء سے علم دین حاصل کیا  لیکن آپ نے ان تمام علوم کو کافی نہ سمجھتے ہوے علم دین کے حصول  کے شوق میں لکھنو کا سفر کیا ،وہاں کچھ عرصہ رہے لیکن وہاں پر بھی  جو علوم قبلہ صاحب حاصل کرنا چاہتے تھے انکو مسیر نہ ہوے  تو قبلہ صاحب نے  علم کی تشنگی کو مٹانے کیلے حوزہ نجف اشرف کا رخ کیا وہاں پہنچے تو اس وقت مرحوم سید ابو الحسن اصفھانی کا دور تھا اور نجف اشرف کے مشھورو معروف مراجع کا شمار طالب علموں میں ہوتا تھا  جن میں سے مرحوم آیت اللہ سید ابو القاسم خوئی  رح  اور باقی مراجع  عظام قبلہ صاحب کے ھم عصر زمانے میں مصروف تعلیم تھے۔

دوران تعلیم قبلہ صاحب سخت مریض ہو گے تھے  تو  آپ بارگاہ مشکل کشاء امیر المومنین ع  میں حاضر ہوے اور نذر کرتےہوے فرماتے ہیں کہ میں اگر صحت یاب  ہو جاوں تو اپنے سارے خاندان کو علوم دینیہ کے حصول کیلے راغب کرونگاں، اور خدا کے فضل و کرم سے قبلہ صاحب صحت یاب ہوگے۔

جب آپ پاکستان تشریف لے آے تو سب سے پہلے آپ نے اپنے اھل خانہ کو علم دین کی طرف لے آے  آغاز اپنے بہن بھایئوں کی اولاد سے کیا  سب سے پہلے محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی ر ح  کو اپنے ساتھ مدرسہ چک نمبر38 میں لے گے اور پھر کچھ عرصہ بعد حضرت آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی  دامت برکاتہ اور پھر ان کے بعد اپنے دوسرے اقارب و اعزاء کی اولاد کو اور بندہ حقیر کا شمار بھی ان کے شاگردوں میں ہوتا ہے،۔ اس وقت کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوے قبلہ صاحب نے  اپنی پہلی نسل کو  صرف علوم دینی کی طرف لے گے اور دنیوی تعالیم سے ان کو دور رکھا  ہمارے لیے باہر سے استاد لاےگے جہنوں نے ہیمں دنیوی تعلیم دی۔اور جہاں تک میری پیدائش کی بات ہے میری پیدائش 1954 میں ہوئی۔ اور جب میری عمر 8 سال تھی  تو حافظ صاحب مجھے اپنے ساتھ لاہور لے آئے اس وقت مدرسہ وسن پورہ میں تھا  اور مدرسہ کہ پرنسپل  حضرت آیت اللہ علامہ اختر عباس نجفی رح تھے  اور وائس پرنسپل علامہ سید صفدر حسین نجفی  رح تھے  اور حافظ صاحب کا شمار  اس وقت مدرس اور طالب علموں میں ہوتا تھا   ۔

جب میں مدرسہ میں آیا تو  اس وقت جو طلاب زیر تعلیم تھے  ان میں سے  آیت اللہ العظمی حافظ بشیر حسین نجفی دامت برکاتہ  اور اس دور کے بزرگ  علماء تھے 8 سال کی عمر میں جب میں حصول علم کیلے گیا تو تقریبا 2 سال مدرسہ وسن پورہ میں زیر تعلیم رہا اور ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اسی دوران میں نے حافظ صاحب سے قرآن مجید اور دوسرے اساتذہ سے ابتدائی کتابیں پڑھی۔

اسکے بعد حافظ صاحب بجف اشرف تشریف لے گے اور میں واپس علی پور  آگیا، اور حضرت آیت اللہ سید محمد یار نجفی اعلی اللہ مقامہ  کی خدمت میں شرف تلمذ  کیا ، جتنا عرصہ حافظ صاحب نجف اشرف میں رہے میں علی پور  زیر تعلیم رہا  جیسے ہی حافظ صاحب نجف سے واپس تشریف لاے تو میں پھر ان کے ساتھ  دوبارہ علی پور سے لاہور  چلا گیا ،  اسی دوران میں نے مدرسہ علی پور میں ادبیات  مکمل کر چکا تھا، اصول میں معالم، منطق میں  شرح تھذیب، جب میں واپس لاہور آیا  تو اس وقت  مدرسہ جامعہ المنتظر  ع  وسن پورہ میں ہی تھا اور اسکے پرنسپل  علامہ سید صفدر حسین نجفی ؒ تھے۔

میرے اساتذہ میں سے مشھور و معروف  اساتذہ   حضرت آیت اللہ سید محمدیار نجفی ؒ ،علامہ سید صفدر حسین نجفی ؒ،  علامہ سید حافظ ریاض حسین نجفی دامت برکاتہ علامہ سید غلام حسین نجفی ؒ،   علامہ عبد الغفور  جعفریؒ،  مولانا امان اللہ  صاحب  ہیں جن سے میں نے جامعہ المنتظر میں علم حاصل کیا۔

سوال2: قبلہ کیا اس دوران آپکی تعلیمی مصروفیات کے ساتھ ساتھ فرھنگی کارکردگی  بھی تھی؟

جواب: جی ہاں  اس دوران میں  فرھنگی سر گرمیاں جسطرح رسم و رواج ہے  ماہ مبارک رمضان  کیلے تبلیغ پر جانا ، میں نے ایک سال ماہ رمضان رائیونڈ جو کہ اھلسنت کا مرکز تھا وہاں پر گزارا، کچھ عرصہ بعد جامعہ المنتظر وسن پورہ سے ماڈل ٹاون میں شیفٹ ہوا  تو ٹاون شب میں جوکہ اس وقت مرکزی مسجد ٹاون شب شمار ہوتی ہے  اسکا پہلا پیش نماز میں تھا  اسکے بعد  مسجد محمدیہ گلبرگ کہ  وہاں  اس وقت مولانا  صادق علی نجفی صاحب  امام جمعہ و الجماعت تھے  جب وہ افریقہ چلے گے  تو اس مسجد محمدیہ میں بھی میں ے کافی عرصہ خدمات انجام دی۔

سوال3: اس زمانے کے کچھ واقعات  آپ بیان فرمائیے؟

جواب:  اس دور کا کا ایک واقعہ جو مجھے یاد ہے  مرحوم آیت اللہ العظمی حکیم کی وفات کے موقع پر علامہ سید صفدر حسین نجفی  ؒ  نے امام خمینی ؒ  کی تقلید و ترویج کا سلسلہ شروع کیا تھا ،  تمام محافل و مجالس میں یہاں تک کہ  پورے ملک میں انکی تقلید  کا اعلان کروایا،  مدرسہ کے طلاب کو جمع کیا جن میں میں بھی شامل تھا  اس وقت کارڈ ہوتے تھے جس پر پیغام لکھ کر بھیج دیا جاتا تھا کہ ہماری اعلان ہے کہ تمام لوگ آیت اللہ خمینی کی تقلید کریں چنانچہ یہ ایک اہم واقعہ تھا۔

دوسرا  اہم واقعہ  یہ ہے کہ۔ اس دور میں مدارس میں جو طالب علم ہوتے تھے وہ انتہائی محنتی و جد و جہد کرنے والے ہوتے تھے  اور ہر وقت مصروف تعلیم رہتے  اور نتیجتا  اس دور کے لوگ  آج ملک کے گوشے گوشے میں مصروف عمل ہیں جیساکہ ملک اعجاز حسین صاحب، علامہ کرامت علی نجفی صاحب،  علامہ شیخ محسن  علی نجفی صاحب،  آیت اللہ العظمی حافظ بشیر حسین نجفی دامت برکاتہ   امین اللہ  صاحب ،  حافظ سید ریاض حسین نجفی دامت برکاتہ  یہ بزرگان اس زمانے میں جامعہ المنتظر کے طالب علم ہوا کرتے تھے،۔

لیکن آج انکا شمار  پاکستان کی بڑی شخصیات میں ہوتا ہے، شاید اس امر کی ایک وجہ  یہ بھی  ہے جیساکہ قول معصوم ع  مشھور ہے العلم فی الجوع ، اور یہ حقیقت بھی ہے  اس وقت مدارس میں دو وقت کا کھانا دیا جاتا تھا  دوپہر اور شام کا  صبح کا ناشتہ نہں ہوتا تھا  بعد میں جب ہم ایران  آنے لگے تو آخری دنوں میں ناشتہ شروع ہوا  وسن پورہ میں  ایک مخیر شخص تھا جوکہ فقط سادات کیلے ناشتہ کا بندوبست کیا کرتا تھا  جب مدرسہ  ماڈل ٹاون میں شیفٹ ہوا تو ناشتہ  باقیدگی سے شروع ہو گیا، اس وقت کے واقعات میں سے ایک اور واقعہ  یہ بھی ہے کہ مدرسہ کے انتظامات جیساکہ مدرسہ میں جھاڑو لگانا  برتن دھونا  صفائی ستھرائی طالب علموں کے ذمہ ہوا کرتی تھی، اور  جس چارپائی پر محسن ملت دن کو درس پڑھاتے تھے اسی چارپائی پر حافظ بشیر حسین نجفی  رات کو بغیر بستر کے سوتے تھے  اور کافی دیر مطالعہ کرتے رہتے تھے اور مطالعہ کے دوران ہی  انکو نیند آ جاتی تھی اس دور میں اس طرح طالب علم حصول علم کیلے محنت وکوشش کرتے تھے،۔

سوال: آپ نے تعلیم کے حصول میں کن اساتذہ سے زیادہ استفادہ کیا اور کن شخصیات  سے آپ زیادہ متاثر ہوے؟

ابتداء  استاد العلماء حضرت آیت اللہ سید  محمد یار نجفی ؒ  جن سے میں نے علوم ادبیات  سیکھے  اسکے بعد مولانا  عبدالغفور صاحب ادبی کتابوں میں بہت زیادہ مجد تھے ان سے میں سے بہت زیادہ استفادہ کیا ۔ فقہ و شرح لمعہ میں علامہ سید صفدر حسین نجفی ؒ  سے پڑھی اور ان سے کافی استفادہ بھی کیا ۔ منطق و فلسفہ میں نے حضرت آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی دامت برکاتہ  سے پڑھا  اس وقت پاکستان میں بہت کم لوگ تھے جو فلسفہ میں  مھارت رکھتے تھے  حافظ صاحب  جب نجف اشرف سے واپس تشریف لاے تو  علوم فلسفہ ومنطق میں کافی مشہور تھے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=4868