16

کشف حقیقت کی جستجو کا محرک اصلی کیا ہے؟

  • News cod : 4870
  • 06 دسامبر 2020 - 6:02
کشف حقیقت کی جستجو کا محرک اصلی کیا ہے؟
حوزہ ٹائمز | مسلم وغیر مسلم دانشوروں کی زندگی کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت ہمیں نظر آتی ہے کہ انہوں نے کشف حقائق کی راہ میں بے پناہ زحمتیں اٹهائی ہیں،طرح طرح کے مسائل اور مشکلات کو برداشت کیا ہے

حقائق کی جستجو ہر انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے، ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ کائنات کے موجودات کی حقیقت اور ماہیت سے باخبر ہوجائے،جب وہ تلاش اور جستجو کرکے کسی مجہول کو معلوم بنانے میں کامیاب ہوتا ہے تو اس کی روح کو تسکین ملتی ہے -چنانچہ اسی فطری حقیقت کی تلاش پر مبنی حس کے سبب آج علمی دنیا میں عظیم ترقیاں ہمیں دیکهنے کو مل رہی ہیں، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے سمیت انسان کی زندگی کے تمام شعبوں میں حیرت انگیز پیشرفت کا اصلی محرک یہی فطری حقیقت شناسی کی حس ہے جو تمام انسانوں میں پائی جاتی ہے-یہ فطری احساس انسان کو حقائق کی شناخت کے میدان میں تلاش اور جستجو کرنے کے لئے توانائی فراہم کرتا ہے –

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ طول تاریخ میں باشعور افراد نے سب سے ذیادہ جس چیز کو اہمیت دی وہ مسئلہ شناخت ہے- مسلم وغیر مسلم دانشوروں کی زندگی کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت ہمیں نظر آتی ہے کہ انہوں نے کشف حقائق کی راہ میں بے پناہ زحمتیں اٹهائی ہیں،طرح طرح کے مسائل اور مشکلات کو برداشت کیا ہے- انہوں نے اس ہدف تک رسائی کے لئے فقر وغربت اور بهوک افلاس کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا،کسب دانش کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں سے ڈٹ کر مقابلہ کیا،مار کهائے جیل گئے مگر اپنے ہدف سے پیچهے ہٹهنے کے لئے کسی سے کوئی سمجهوتہ نہیں کیا-تاریخ بشریت ایسے سائنسدانوں کی درخشاں زندگی سے بهری پڑی ہے جنہوں نے تحقیق کے میدان میں شگفت انگیز کارنامے سرانجام دئیے ہیں، آبی حیوانات کی معلومات حاصل کرنے کی غرض سے سمندر میں کودنے والے بہت سارے محققین غرق ہوچکے و… سوچنے کی بات یہ ہے کہ مسلم دانشوروں سے متعلق تو یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اسلام نے علم ودانش کو بے انتہا اہمیت دی ہے، اس کی بڑی فضیلتیں بیان کی ہے اور شناخت ومعرفت کو سعادت دارین کی کلید قرار دیا ہے جس کے باعث مسلم دانشوروں نے تحصیل کی راہ میں پیش آنے والے مسائل ومشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے سلسلہ تحصیل جاری رکها، لیکن بے دین اور سیکولر طبقے کو کس چیز نے کشف حقائق کے راستے میں جان ہتهیلی پر رکهہ کر جدوجہد کرنے کی ترغیب دلائی؟ وہ کونسا سبب ہے جس نے لائیک اور مادہ پرست افراد کو علم اور تحقیق کے میدان میں لائق تقدیر کارنامے سرانجام دینے کے لئے آمادہ کیا؟جواب یہ ہے کہ توحید پرستوں کی طرح ان میں بهی فطری طور پر حقیقت جوئی کی حس پائی جاتی ہے جس نے ان کو کشف حقائق کے راستے پر گامزن کردیا، ان کو کسب علم ودانش کی ترغیب دلائی- پس علمی اور تحقیقی میدان میں انسان کی تلاش اور جستجو کا مقصد فقط مادی مفادات کا حصول نہیں ،اسے تو ثانوی اہمیت حاصل ہے، یہ دوسرے درجے کا مقصد تو ہوسکتا ہے ہدف اولی ہرگز نہیں ،اس کا اصلی ہدف تو انسان میں پائے جانی والی فطری حقیقت جوئی پر مبنی حس کی نداء کو جواب دینا ہے بس-

اس فطری حقیقت جوئی کی حس کی بارز نشانی سوال اٹهانااور اشکال واعتراض کرنا ہے – تعلیمی درسگاہوں میں جب طالب علم اپنے اساتذہ سے سوالات کرتے ہیں، ان کے لیکچرز پر اعتراض کرتے ہیں تو یہ ان کا مسلمہ حق ہے، یہ ان کی فطری حقیقت جوئی کی حس زندہ ہونے کی نشانی ہے نہ کوئی اور چیز ،مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی درسگاہوں میں پڑهانے والے اساتذہ کی اکثریت کلاسوں میں بچوں کے اٹهائے جانے والے سوالات اور اعتراضات کا علمی قانع کنندہ جوابات دے کر انہیں مطمئن کرانے کی بجائے انہیں توہین کے کهاتے میں ڈال کر فخر محسوس کرتے ہیں – ایسی تعلیم فطرت کے اصول سے ناہمانگ ہونے کی وجہ سے سودمند نہیں ہوسکتی- ایسے اساتذہ کے پاس پڑهنے والوں کی پوشیدہ استعداد نکهر کر شکوفا ہونے کے بجائے اندر ہی دب کر مرجاتی ہے -حقیقت یہ ہے کہ طالب علموں کے سوالات یا اعتراضات در حقیقت ان میں موجود فطری حقیقت شناسی کے احساس کی آواز ہوتی ہیں،کیونکہ ان ميں فطرى طور پر تحقيق اور جستجوكامادہ ہوتا ہے- جنانچہ جو بھى بچين ميں سوال كرسكے بڑا ہو كر جواب دے سكے گا- چنانچہ حضرت علی (ع) کا فرمان ہے:بچے كادل نرم زمين كے مانند ہے آپ جو بھى اس ميں ڈاليں گے قبول كرے گا –

اسی فطری حقیقت جوئی کے رجحان نے ہی بشریت کو حکمت اور فلسفہ سیکهنے کی طرف مائل کیا ہے -فلاسفرز موجودات عالم کے حقائق کو جاننا چاہتے ہیں – شهید مطہری کے بقول حس حقیقت جوئی کا نام حس فلسفی بهی رکهہ سکتے ہیں- آپ یہ بهی لکهتے ہیں کہ بو علی سینا نے نتیجے کے اعتبار سے فلسفے کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے:صیرورة الانسان عالما عقلیا مضاهیا للعالم العینی یعنی فلسفی بننے کا حتمی نتیجہ خود انسان کا عالمِ مادی و ظاہری کی طرح ”عالم عقلی“ بن جانا ہے یعنی اس ”عالم عینی“ یا مادی کو ویسا درک کیا جائے جیسا وہ ہے – جب اس فطری حقیقت جوئی کی حس کا تقاضا پورا ہوتا ہے، انسان دانش کو موتی کے طور پر چن لیتا ہے اور وہ علم کا خوگر بن جاتا ہے تو اسے ایسی لذت حاصل ہوتی ہے جس کا موازنہ کسی مادی لزت سے نہیں کیا جاسکتا -اسے بے پناہ مسرت ملتی ہے، شادمانی کی ایک خاص کیفیت اس پر طاری ہوتی ہے -خواجہ نصیرالدین‌ کے بارے میں لکها ہے کہ علمی مسائل میں وہ بہت غور کیا کرتے تهے, بعض اوقات رات کے آخری لمحات میں جب کوئی علمی مشکل حل ہوتا تها تو اسے اس سے اتنی لزت ملتی تهی کہ بے اختیار بلند آواز میں کہتے تهے “این الملوک و ابناء الملوک من هذه اللذه” بادشاہوں اور ان کے شاہزادے کہاں ہیں آجائیے ذرا دیکهہ لیجئے کہ اس وقت علمی مشکل حل ہوکر جس لزت کا مجهے احساس ہورہا ہے یہ ذیادہ ہے یا محسوس امور سے تم اٹهانے والی لزتیں بیشتر ہیں –

شهید مطہری(رح)نے فطرت کی بحث میں ان دو واقعے کو نقل کیا ہے: پہلا واقعہ یہ ہے کہ ابو ریحان بیرونی مرض الموت میں مبتلا تھے ،ان کا ایک ہمسایہ فقیہ تھا ،وہ ابو ریحان کی عیادت کے لئے آیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ بستر پر پڑے ہیں اور روبہ قبلہ لیٹے ہوئے ہیں اور زندگی کی آخری سانس لے رہے ہیں۔ ابو ریحان نے اپنے اس ہمسائے سے وراثت کا ایک شرعی مسئلہ پوچھا۔ اس فقیہ کو تعجب ہوا اور کہنے لگا کہ یہ کون سا وقت ہے مسئلہ پوچھنے کا؟ ابو ریحان کہنے لگے مجھے معلوم ہے کہ میں مر رہا ہوں لیکن آپ سے یہ مسئلہ پوچھ رہا ہوں اگر میں اس مسئلہ کا جواب جان کر مر جاؤں تو بہتر ہے یا نہ جانتے ہوئے مر جانا؟ واضح ہے کہ جان کر مرنا بہتر ہے ابو ریحان کہنے لگا پھر اس کا جواب بتائیں؟ تو اس نے جواب دیا اس فقیہ کا کہنا ہے کہ میں ابھی واپس اپنے گھر نہ پہنچا تھا کہ ابو ریحان کے گھر سے عورتوں کے رونے کی آواز آنے لگی۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ لکهتے ہیں حجۃ الاسلام سید محمد باقر شفتی اصفہانی مرحوم کے بارے میں بھی ایک واقعہ ہمارے قدماء نے نقل کیا ہے اور بالکل ایسا ہی واقعہ پاسچر کے بارے میں بھی ہے۔ جناب سید باقر مرحوم کی شب زفاف تھی جب دلہن کا ہاتھ دلہا کے ہاتھ میں دے دیا جاتا ہے اور پھر عام طور پر عورتیں دلہن کو حجلہ عروسی (وہ خاص کمرہ جو دلہن کے لئے آراستہ کیا جاتا ہے) میں لے جاتی ہیں اس وقت جناب سید محمد باقر کسی دوسرے کمرے میں چلے گئے تاکہ جب عورتیں چلی جائیں تو پھر دلہن کے پاس جائیں تو انہوں نے سوچا کہ موقعے سے کیوں نہ فائدہ اٹھایا جائے اور مطالعہ کیا جائے انہوں نے مطالعہ شروع کر دیا۔ عورتیں چلی گئیں دلہن بیچاری تنہا بیٹھی رہی بہت انتظار کیا کہ دولہا میاں آ جائیں مگر وہ نہ آئے۔ سید محمد باقر جب متوجہ ہوئے تو وقت سحر تھا یعنی علم کی کشش نے انہیں اس طرح سے جذب کر لیا کہ وہ سہاگ رات کو اپنی دلہن کو بھول گئے۔

تحریر : محمد حسن جمالی

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=4870