3

علامہ سید نیاز حسین نقویؒ وحدت اسلامی کے علمبردار تھے، آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی

  • News cod : 52481
  • 12 دسامبر 2023 - 18:12
علامہ سید نیاز حسین نقویؒ وحدت اسلامی کے علمبردار تھے، آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی
دوسری خوبی جو ان میں سب نے ملاحظہ کی ، جب جامعہ المتنظر میں تشریف لائے چودہ مراکز انہوں نے قائم کئے فقط مراکز قائم نہیں کئے بلکہ ان کیلئے اخراجات بھی فراہم کرکے گئے۔ یعنی بہ این معنی کہ جو ایران میں ان کی اخراجات ایران سے ہی ہو جائے اور جو پاکستان میں ہیں ان کے پاکستان سے ہی ہو جائے ، نجف اشرف میں مدرسہ بنایا ، ڈنمارک میں مدرسہ بنایا، اٹلی میں مدرسہ بنایا اتنے سارے کام وہ کرکے گئے ہیں ، لوگوں کو پتہ بھی نہیں ہوگا لیکن وہ یہ سارے کام کرکے گئے ہیں۔

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، وفاق المدارس الشیعہ کے سابق نائب صدر بزرگ عالم دین علامہ سید نیاز حسین نقویؒ کی تیسری برسی کی تقریب جامعۃ المنتظر ماڈل ٹاون لاہور میں منعقد ہوئی۔ جس سے آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مولانا سید نیاز حسین نقوی جامعۃ المنتظر لاہور کے ہی تربیت یافتہ تھے اور جامعۃ المنتظر ، محسن ملت سے پہلے بھی اور ان کے زمانے میں بھی وحدت المسلمین اور وحدت بین الشیعہ کا علمبردار تھا ہم شیعہ کے جس گروپ کو بھی دعوت دیتے ہیں وہ تشریف لاتے ہیں چونکہ ہم نے کبھی بھی کسی کے خلاف کوئی بیان بازی نہیں کی اور یہی جامعۃ المتنظر وحدت بین المسلمین کا علمبردار تھا ، کسی بھی شخصیت کے بارے میں جامعۃ المنتظر نے کبھی کبھی منفی بات نہیں کی
ہمارے برادر عزیز ایران کے تربیت یافتہ تھے، جمہوریہ اسلامی ایران کے بانی ، ہمارے استاد آیت اللہ امام خمینی نے مسلمانوں کو چار نعرے دئیے تھے اور آج اگر مسلمان ان چار نعروں پر عمل کرتے تو بہت ہی طاقتور ہوتے۔

پہلا نعرہ: لا شرقیہ و لا غربیہ ، نہ روس نہ امریکہ بلکہ آزادی

دوسرا نعرہ: لاسنیہ و لا شیعیہ ۔ بلکہ اسلام

تیسرا نعرہ تھا کہ ایران را سبز کنید۔یعنی اپنے ملک کو سر سبز بناو تاکہ کسی کے محتاج نہ رہو آپ کے ملک سے ہر چیز آپ کو مل جائے۔

چوتھا نعرہ ان کا یہ تھا کہ ایران را مدرسہ کنید۔ صد در صد اپنے ملک کے بچوں اور بچیوں کو تعلیم دو تاکہ تعلیم کے بدولت وہ لوگ کام بھی کر سکیں اور بہترین زندگی بسر کر سکیں۔

جامعہ المنتظر اور ایران کی تربیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان میں وہ تمام خوبیاں تھی جو کامیابی اور کامرانی کے لئے ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سب سے پہلے خوبی ان میں یہ تھی کہ دنیا و پیسہ کے ساتھ ان کو کوئی محبت نہیں تھی۔میں سمجھتا ہوں ہماری تاریخ میں وہ واحد شخصیت ہے کہ جب چیچہ وطنی کا مدرسہ انہوں نے قائم کیا ، وہاں رہے کسی قسم کی تنخواہ انہوں نے اس مدرسہ سے نہیں لی۔
بلکہ شیخ عزیز صاحب جو بانی تھے ان کے والد صاحب مریض تھے ان کے پاس تیس ہزار روپئے تھے وہ کہنے لگے کہ یہ میں مدرسہ کو دیتا ہوں اسی چیچہ وطنی کے مدرسے کو، ان سے کہنے لگے نہیں ، آپ چونکہ نمازیں نہیں پڑھتے رہے اس لئے یہ پیسے رکھ لیں تاکہ آپ جانے والے ہیں اس پیسہ سے آپ کی نمازیں پڑھی جائیں مدرسہ اچھی طرح چل رہا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی سال بعد جب یہ شیخ صاحبان مکہ تشریف لے گئے اور ان کو پیسوں کی ضرورت پڑی تو انہوں نے بہت ساری رقم ان کو بطور قرض بھیجی اور واپس بھی نہیں لی، کہا کرتے تھے کہ میں جب وہاں گیا ہوں تنخواہ نہیں لیتا تھا ، سبزی بھی مجھے پہنچا دیتے تھے اور گوشت بھی مجھے پہنچا دیتے تھے تو گویا وہ کام کرتے تھے ، للہ کام کرتے رہے ۔

دوسری خوبی جو ان میں سب نے ملاحظہ کی ، جب جامعہ المتنظر میں تشریف لائے چودہ مراکز انہوں نے قائم کئے فقط مراکز قائم نہیں کئے بلکہ ان کیلئے اخراجات بھی فراہم کرکے گئے۔ یعنی بہ این معنی کہ جو ایران میں ان کی اخراجات ایران سے ہی ہو جائے اور جو پاکستان میں ہیں ان کے پاکستان سے ہی ہو جائے ، نجف اشرف میں مدرسہ بنایا ، ڈنمارک میں مدرسہ بنایا، اٹلی میں مدرسہ بنایا اتنے سارے کام وہ کرکے گئے ہیں ، لوگوں کو پتہ بھی نہیں ہوگا لیکن وہ یہ سارے کام کرکے گئے ہیں۔

تیسری خصوصیات انکی وہ وحدت اسلامی کے علمبردار تھے اپنے ہاں جتنی بھی تنظیمیں ہیں ان سب کے ساتھ ان کے تعلقات تھے، مسلمانوں کی جتنی بھی تنظیمیں ہے انکی وفات کے بعد اتنے لوگ تعزیت کے لئے آئے ہیں کہ ان تنظیموں کے نام بھی ہم نے نہیں سنے تھے۔کراچی سے آئے ہیں، اندرون سندھ سے آئے ہیں، بلوچستان سے ہرجگہ ان کا رابطہ تھا،ہر جگہ دوستی تھی اور اتحاد تنظیمات المدارس کے تحت ان کے سب سے اچھے تعلقات تھے وہ جھجک نہیں رکھتے تھے، کسی کا خوف ان کے دل میں نہیں تھا، جو چیز چاہتے تھے وہ بغیر کسی خوف کے کہہ دیتے تھے ، چاہئے عمران خان موجود ہوں، نواز شریف موجود ہوں، راحیل شریف موجود ہوں۔ ایک دفعہ کسی میٹنگ میں نواز شریف سے مخاطب ہوکر کہا کہ نواز شریف صاحب یہ راحیل شریف ہمیں ڈرانے کیلئے رکھا ہوا ہے؟ سب ہنس پڑھے۔
آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا کہ عمران خان نے جب کہا کہ دینی طلاب کو انگریزی پڑھنا چاہئے تاکہ وہ جج بن سکیں، اس بات پر ان کو مخاطب کر کے کہا کہ نہیں جج بننے کیلئے انگریزی کی ضرورت نہیں ہے سعودی عرب میں اتنے جج ہیں، بحرین میں اتنے ہیں، مصر میں اتنے ہیں، تیونس میں اتنے ہیں اور ایران میں اتنے ہیں اور میں خود بھی جج ہوں اور میں انگریزی نہیں جانتا ، تو گویا وہ بالکل بے جھجک تھے، بات کرتے تھے۔ مجھے ایک میٹنگ میں جانے کا اتفاق ہوا اس میں قمر باجوہ صاحب تھے اور باجوہ صاحب اس میں بہت زیادہ غصے میں تھے تو میں نے وہاں بات چیت کی تین چیزیں میں نے بیان کی۔ سب سے پہلے اتحاد تنظیمات مدارس کا ، یہ ضیاء الحق کے دور سے شروع ہوئی اس وقت محسن ملت اور مولانا عبدالقیوم ہزاروی نے کہا تھا کہ اگر ہمارے اختیارات اور مدارس میں ہم خود مختار ہو تو ہم قبول کرتے ہیں ۔

دوسرا جنرل مشرف کے دور میں سلیم اللہ خان نے کہا تھا کہ اگر ہمارے مدارس خود مختار ہوں تو ہم سند قبول کرینگے آج میں آپ کے سامنے کہہ رہا ہوں۔

تیسرا یہ کہ پچیس لاکھ طالبعلم ہیں ہمارےپاس اتنی مساجد نہیں ہمارے پاس تو اذان کہاں دینگے؟

تو میں نے کہا سند کے بعد لوگ پی ایچ ڈی کرتے ہیں اور امریکہ چلے جاتے ہیں، کینیڈا چلے جاتے ہیں جگہ جگہ کا میں نے نام لیا جہاں ہمارے حضرات رہ رہے ہیں ۔
اورآخری بات میں نے ان سے یہ کی کہ اہل سنت کے ہاں سب سے بڑا عہدہ مفتی کا ہے، جیسے مفتی تقی عثمانی وغیرہ اور شیعوں کے ہاں مجتہد کا ہوتا ہے۔ لعل شاہ ہمارے پہلے سفیر تھے عراق میں اس نے خبر دی تھی کہ یہاں کے مجتہد اعظم کا بجٹ اردن کے بجٹ سے زیادہ ہے اور میں نے آقای سیستانی کا نام لیا کہ ان کے پاس کوئی عہدہ نہیں ہے، کربلا کے امام جمعہ نے ان کے طرف سے اعلان کیا کہ سات مہینے ہوگئے انتخابات کو لیکن اب حکومت قائم ہو جس کے ذریعے داعش کو نکال دیں۔ میں نے کہا کہ دیکھئے تین دن کے اندر حکومت قائم ہوئی اور ایک سال کے اندر داعش کو نکال دیا۔ اس وقت باجوہ صاحب کہنے لگا کہ میں آیت اللہ خامنہ ای کی خدمت میں گیا تھا بہت بڑی شخصیت ہے اور خوشی ہوئی کہ صدر ایران مجھے یہ بتارہے تھے کہ ستانوے فیصد ضروریات میں ہم خود کفیل ہے کسی کے محتاج نہیں۔ اور جب میں اترا تو جتنے بھی اہل سنت برادران تھے سب کہنے لگے کہ آج یا آپ نے بات کی یا قاضی صاحب بات کرتے تھے تو گویا کہ ان میں جھجک نہیں تھی، بہت کم عرصہ میں انہوں نے بہت زیادہ کام کیا۔

آیت اللہ خمینی نے بہت ہی خوبصورت جملہ کہا تھا جب آقای بہشتی اور دوسرے مارے گئے تھے اللہ کو جو پیارا ہوتا ہے اللہ اس کو جلدی اٹھا لیتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت جلدی اٹھایا ہم تو چاہتے تھے ہمارے بعد وہ کام کرینگے لیکن ہمارے زندگی میں انہوں نے یہ کام کیا ۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=52481