8

کتاب لقاء اللہ (سیر و سلوک) درس 10

  • News cod : 54006
  • 23 فوریه 2024 - 20:27
کتاب لقاء اللہ (سیر و سلوک) درس 10
نکات :عارف کے سیر و سلوک سے مراد ، خواجہ نصیر الدین طوسی کے جملہ میں انقطاع عن نفس سے مراد، اللہ سے وصل ہونے کے بعد سب قدرت ، علم اور فیض اپنے اندر پانا، الہی اخلاق رکھنا،قران مجید میں درس عرفان، تبتل کیا ہے، امام صادق ع کی تفسیر ، کیسے ہماری آنکھ و کان۔۔۔اللہ کے کان و آنکھ ہونگے؟

کتاب لقاء اللہ (سیر و سلوک)
(آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی رح)
درس 10

نکات :عارف کے سیر و سلوک سے مراد ، خواجہ نصیر الدین طوسی کے جملہ میں انقطاع عن نفس سے مراد، اللہ سے وصل ہونے کے بعد سب قدرت ، علم اور فیض اپنے اندر پانا، الہی اخلاق رکھنا،قران مجید میں درس عرفان، تبتل کیا ہے، امام صادق ع کی تفسیر ، کیسے ہماری آنکھ و کان۔۔۔اللہ کے کان و آنکھ ہونگے؟

حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی

موضوع سخن: کتاب لقاء اللہ جو کہ آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی رحمتہ علیہ نے لکھی ہے۔

ہم نے اس کتاب کو درس اخلاق کے حوالے سے ماہ رمضان میں انتخاب کیا تھا اور اس کے مطالب ترتیب سے بیان ہو رہے ہیں۔ لقاء اللہ کو عرفان کے اعتبار سے سب سے بہتر پایا۔

عرفان اخلاق کی کامل ترین شکل ہے کہ جو انسانوں کو اخلاقیات رکھنے چاہیے اور تربیت کے حوالے سے ایک جامع اور بہترین شیوہ ہے اور جو انسان کی ایک علمی ، عملی، فکری صورتحال ہونی چاہیے وہ عرفان کی شکل میں ہے۔

عرفان ہماری دینی زندگی سے ہٹ کر کوئی علیحدہ چیز نہیں ہے۔ کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سارا دن ذکر و اذکار میں غرق رہنا یا جنگلوں میں نکل جانا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔

ہمارے آئمہ ؑ سب سے بڑے عارف باللہ تھے۔ وہ اسی انفرادی ، اجتماعی، گھریلو ، سیاسی اور ہر طرح کی زندگی میں صاحب معرفت اور صاحب عرفان تھے۔ خود بھی سیر و سلوک کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کو بھی اللہ کی راہ میں سیر و سلوک اور عرفانی مراحل سیکھاتے تھے۔

اس کتاب کے اندر ہم اس جگہ پر پہنچے کہ ایک بہت بڑی شخصیت جو علامہ حلیؒ کے بھی استاد ہیں۔ خواجہ نصیر الدین طوسی ؒ ان کا ایک جملہ
آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی رحمتہ علیہ اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں۔
آج ہم بھی یہ جملہ نقل کرتے ہیں اور اس کے چند نکات بیان کریں گے:
العارف اذا انقطع عن نفسه و اتصل بالحق، رأى كل قدره مستغرقه فى قدرته المتعلقه بجميع المقدورات، وكل علم مستغرقاً فى علمه الذى لا يعزب عنه شى‏ء من الموجودات، و كل اراده مستغرقه فى ارادته التى لا يتأبى عنها شى‏ء من الممكنات؛ بل كل وجود فهو صادر عنه فائض من لدنه.
فصار الحق حينئذ بصره الذى به يبصر، و سمعه الذى به يسمع، و قدرته التى بها يفعل، و علمه الذى به يعلم، و وجوده الذى به يوجد. فصار العارف حينئذ متخلقاً بأخلاق الله بالحقيقه
“عارف صاحب معرفت جب وہ اپنے نفس سے جدا ہوتا ہے اور دنیا کے حوالے سے تمام وابستگیوں سے جدا ہوتا ہے اور حق کے ساتھ متصل ہوتا ہے اور اس وقت جو وہ دیکھتا ہے اور اسے مکاشفہ ہوتا ہے تو وہ یہ چیزیں درک کرتا ہے۔ ”

“وہ دیکھتا ہے کہ دنیا کی تمام طاقتیں اس کی طاقت کے اندر غرق ہو چکی ہیں اور دنیا کے سارے علوم اس کے علم میں داخل ہو چکے ہیں۔ دنیا کے تمام مخلوقات اور موجودات کے جو ارادے ہیں وہ اس کے ارادے کے اندر ہیں۔ اور وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ خود منبع فیض بن چکا ہے۔”

کیوں!
اس لیے کہ وہ اس مقام پر پہنچ چکا ہوتا ہے کہ اس کی آنکھ اللہ کی آنکھ اس کے کان اللہ کے کان یا ہم اگر یوں کہیں کہ وہ جو آنکھ رکھتا ہے اس سے خدا دیکھتا ہے اور وہ جو کان رکھتا ہے اس سے خدا سنتا ہے۔ اور وہ جو کام انجام دے رہا ہے درواقع خدا انجام دے رہا ہے۔ اور اس وقت عارف پروردگار کے اخلاق سے بالحقیقہ متخلق ہو جاتا ہے۔”

اللہ اکبر!

یعنی اس خلق الہی کو اپنے اوپر لے لیتا ہے۔

اب بظاہر یہ ایک پیچیدہ سا موضوع ہے۔ کبھی بھی صاحبان عرفان کی باتیں قرآن و حدیث سے جدا نہیں۔

اس حوالے سے استاد محترم علی اصغر سیفی صاحب خود تشریح فرماتے ہیں:

پروردگار عالم قرآن مجید میں سورہ مزمل کی آیت 8 میں فرما رہا ہے کہ:

وَاذْكُرِ اسْـمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا (8)
صرف اپنے رب کا نام لیا کرو اور سب سے الگ ہو کر اسی کی طرف آجاؤ۔

تبتل یعنی وہی عارف کا دنیا کی چیزوں سے جدا ہونا اور اللہ سے وصل ہونا۔

اس کی تشریح میں مولا امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ تبتل یعنی یہ ہے کہ انگلی کو اوپر کرے یا نیچے کرے ہر صورت میں دعا کر یعنی اللہ سے گفتگو کر۔

ابن طاؤس ؒ بہت بڑی علمی شخصیت فرماتے ہیں کہ امام صادقؑ نے اس میں انگلی کی مثال دی ہے۔ تبتل سے مراد یہ ہے کہ تیرا ہر لحظہ اللہ کی یاد میں گذرے اور اس سے ہی تمھاری گفتگو ہو اور اس سے اپنا ہم و غم بیان کر۔اس سے ہم سخن ہو اس کی ہمراہی کر اور اس کی اطاعت میں رہ۔

عارف یا وہ مومن وہ منتظر جو اللہ کی معرفت پیدا کر چکا ہے تو پھر وہ مکمل طور پر اپنے اعضاء کو خدا کی مرضیوں اور اس کی اطاعت میں غرق کر دیتا ہے پھر وہ اس کی آنکھ نہیں رہتی بلکہ خدا کی آنکھ ہوتی ہے کیونکہ وہ صرف حلال اور ان چیزوں کو دیکھتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ پھر وہ اس کے کان نہیں رہتے بلکہ اللہ کے کان ہوتے ہیں کیونکہ وہ صرف اسی کو سنتا ہے جو خدا چاہتا ہے۔ پھر اس کی زبان نہیں ہوتی بلکہ خدا کی زبان ہوتی ہے کیونکہ وہ وہی بولتا ہے جو خدا چاہتا ہے۔ پھر اس کا ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ خدا کا ہاتھ ہوتا ہے۔ وہ وہی کرتا ہے جو خدا چاہتا ہے۔

جس طرح ہم اپنے آئمہؑ اور انبیاؑ کے حوالے سے کہتے ہیں۔ کہ وہ اللہ کی صفات اور اس کے افعال کا مظہر ہیں۔ کیوں امیرالمومنینؑ کو ہم کہتے ہیں کہ لسان اللہ ، ید اللہ ۔۔۔۔

یہی چیزیں پیغمبرؐ اور آئمہؑ میں ہیں اور یہی چیزیں بقیۃ اللہ ولیّ زماں الاعظم صلواۃٰ اللہ میں ہیں اور یہی چیز ان کے جو مخلصین اور حقیقی پیروکار علما ء صالحین اور اولیا پروردگار سب یہی چیز ہے۔ لیکن درجات کا فرق ہے۔ آئمہؑ اور انبیاءؑ بڑے درجے پر ہیں اور باقی ان سے کم تر ہیں۔

تو بس یہ راہ کھلی ہوئی ہے۔ اسی لیے امام صادقؑ ہمیں بتا رہے ہیں کہ تبتل کا مطلب ہے کہ ہمیشہ خدا سے ہم سخن ہو۔ اور خدا کی مرضی اور منشاء میں رہ۔ یعنی ایک انسان کی دنیا میں جو حقیقی منزل ہے وہ ایک کامیاب حقیقی زندگی یا اہلبیت ؑ کی روش و منشاء یا ان کا مزاج یہی ہے کہ انسان کی زندگی خدائی ہو۔ جس طرح ہمارے آئمہ ؑ کی تھی ۔ پھر وہ حقیقی معنوں میں اس دنیا سے لطف لے گا ورنہ یہ زندگی جو ہے اگر ہم اس سے دل باندھیں اور دنیاوی چیزوں سے لطف لینے کی کوشش کریں تو اس میں رنج اور درد ہے۔ اس میں فنا ہے اور بقا نہیں۔

پروردگار عالم ہم سب کو زمانے کے امام ؑ جو کہ اس وقت سب سے بڑے ولیّ خدا ہیں ان کی اطاعت میں اور خدائے واحد اور خدائے قھاراور خدائے حکیم و دانا کی عبودیت میں سیر و سلوک کرنے کی اور اپنی تربیت اور تہذیب نفس کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=54006

ٹیگز