18

تشیع کا سیاسی نظریہ (۹)

  • News cod : 5537
  • 13 دسامبر 2020 - 15:33
تشیع کا سیاسی نظریہ (۹)
حوزہ ٹائمز | خارجہ امور میں سب سے اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ امت اسلامی کے استقلال کو یقینی بنایا جائے۔ قرآن کریم نے کفار کا مسلمانوں پر تسلط اور قبضہ ممنوع قرار دیا ہے لہذا مسلمانوں کے ذاتی امور اور فیصلوں میں کفار کی دخل اندازی کو قبول نہیں کرنا چاہیے اور ایسی کوئی راہ نہیں دینی چاہیے جس سے کفار مسلمانوں کے فیصلوں میں اثر انداز ہونے لگیں۔

قرآن کریم اور امور خارجہ
قرآن کریم کی آیات میں دقت کرنے سے معلوم ہو گا کہ اگر ایک اسلامی معاشرہ یا اسلامی حکومت کسی کافر حکومت سے قرار داد یا معاہدہ کرتی ہے تو ضروری ہے کہ اس معاہدے کو پورا کرے۔
البتہ یہ اس وقت تک ہے کہ جب تک دوسرا فریق اس معاہدے کی خلاف ورزی نہ کرے۔
اس موضوع پر توبہ آیت ۴ میں ارشاد ہوتا ہے:
إِلاَّ الَّذینَ عاھدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِکینَ ثُمَّ لَمْ ینْقُصُوکمْ شَیئاً وَ لَمْ یظاھرُوا عَلَیکمْ أَحَداً فَأَتِمُّوا إِلَیھمْ عَھدَھمْ إِلی‌ مُدَّتِھمْ إِنَّ اللَّھ یحِبُّ الْمُتَّقین؛
مگر مشرکین میں سے وہ جن سے تم لوگوں نے معاہدہ کیا تھا پھر انہوں نے تمہارے ساتھ کسی قسم کی خلاف ورزی نہیں اور تمہارے خلاف کسی کی مدد کی تو تم ان سے کیے ہوئے معاہدے کو اس مدت تک تمام کرو جو تمہارے درمیان طے ہوا تھا بے شک اللہ متقین سے محبت کرتا ہے۔
اس بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم کی نظر میں ایک اسلامی ملک اپنے امور خارجہ اور بین الاقوامی روابط معاشرے میں بسنے والے لوگوں کی جہت سے چند ذمہ داریاں رکھتا ہے۔ پس اگر ایک اسلامی ملک اپنے ملکی مفادات یا عوامی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے کے کسی غیر مسلم ملک کے ساتھ معاہدہ کرے تو ضروری ہے کہ اس معاہدے کا پابند رہے اور اس کے مطابق امور انجام دے۔
سورہ ممتحنہ آیت ۸ اور ۹ میں ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
لا ینْھاکمُ اللَّھ عَنِ الَّذینَ لَمْ یقاتِلُوکمْ فِی الدِّینِ وَ لَمْ یخْرِجُوکمْ‌ مِنْ دِیارِکمْ أَنْ تَبَرُّوھمْ وَ تُقْسِطُوا إِلَیھمْ إِنَّ اللَّھ یحِبُّ الْمُقْسِطین‌،إِنَّما ینْھاکمُ اللَّھ عَنِ الَّذینَ قاتَلُوکمْ فِی الدِّینِ وَ أَخْرَجُوکمْ‌ مِنْ دِیارِکمْ وَ ظاھرُوا عَلی‌ إِخْراجِکمْ أَنْ تَوَلَّوْھمْ وَ مَنْ یتَوَلَّھمْ فَأُولئِک ھمُ الظَّالِمُون‌؛
جن لوگوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اللہ تمہیں ان کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اللہ تو صرف ان لوگوں سے تمہیں منع کرتا ہے جنہوں نے دین کے معاملے میں تم لوگوں سے قتال و جنگ کی اور تمہیں تمارے گھروں سے گھر بدر کیا اور تمہاری جلاوطنی پر ایک دوسرے کی مدد کی ہے اور جو ان لوگوں سے دوستی کرے گا پس وہی لوگ ظالم ہیں۔
اس آیت کے ذیل میں آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی بیان کرتے ہیں: ان آیات سے ہم کلی طور پر اس امر کا استفادہ کر سکتے ہیں کہ ایک اسلامی ملک کسی غیر اسلامی ملک سے کیسے ارتباط قائم کرے اور اپنے امور کو انجام دے۔ اس آیت کی روشنی میں مسلمانوں کا یہ وظیفہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر اس گروہ یا ملک سے تعلقات منقطع کر دینے چاہیں جس نے مسلمانوں سے دشمنی اختیار کی یا جو اسلام کے خلاف یا مسلمانوں کے خلاف سازش کا حصہ بنا۔ لیکن اگر کوئی غیر مسلم گروہ یا غیر اسلامی ملک اسلامی مملکت سے دشمنی اختیار نہیں کرتا اور نہ ہی مسلمانوں کے خلاف سازش میں شریک ہے یا اسلام کی طرف میلان و رغبت رکھتا ہے تو مسلمانوں کو چاہیے کہ ان سے دوستانہ تعلقات قائم کریں۔
البتہ اس دوستی کی حدود بھی معین اور مشخص کی گئی ہیں کہ غیر مسلم ممالک کے ساتھ دوستی سے زیادہ قوت اور مضبوطی نہیں آنی چاہیے۔ قرآن کے مطابق مسلمانوں کا مضبوط ترین دوست مسلمان ہی ہونا چاہیے۔
خارجہ امور میں سب سے اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ امت اسلامی کے استقلال کو یقینی بنایا جائے۔ قرآن کریم نے کفار کا مسلمانوں پر تسلط اور قبضہ ممنوع قرار دیا ہے لہذا مسلمانوں کے ذاتی امور اور فیصلوں میں کفار کی دخل اندازی کو قبول نہیں کرنا چاہیے اور ایسی کوئی راہ نہیں دینی چاہیے جس سے کفار مسلمانوں کے فیصلوں میں اثر انداز ہونے لگیں۔
سورہ نساء آیت ۱۴۱ میں اس مطلب کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے:
وَلَن یجْعَلَ اللّھ لِلْکافِرِینَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ سَبِیلًا
اور اللہ ہے کافروں کو مؤمنین پر مسلط ہونے کی کوئی راہ قرار نہیں دی۔
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:
یا أَیھا الَّذِینَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْکافِرِینَ أَوْلِیاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِینَ أَتُرِیدُونَ أَن تَجْعَلُواْ لِلّھ عَلَیکمْ سُلْطَانًا مُّبِینًا
اے ایمان والو! تم مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا حامی و سرپرست مت بناؤ، کیا تم چاہتے ہو کہ خود اپنے خلاف اللہ کے پاس صریح دلیل فراہم کرو؟!
تفسیر راہنما میں بیان کیا گیا ہے: ولی بمعنی سرپرست ہے اور آیت کا یہ جزءلا تتخذوا واضح دلالت کر رہا ہے کہ کافروں کی سرداری قبول نہیں اور من دون المؤمنین نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمانوں کو ایک دینی و اسلامی حکومت تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
اسی ضمن میں سورہ آل عمران آیت ۲۸ سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے جس میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
لاَّ یتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْکافِرِینَ أَوْلِیاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِینَ؛
مؤمنین دیگر مومنین کو چھوڑ کر کفار کو ولی اور سرپرست نہ بنائیں۔
علامہ طباطبائی اس آیت کریمہ کے ذیل میں فرماتے ہیں:
اگر ہم کفار کو اپنا سرپرست بنا لیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی روحانی طور پر ان جیسا مزاج پیدا کرلیں گے اور مزاج میں ہم ان کے مطیع ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں مسلمان اپنا اخلاقی اور اجتماعی تشخص کھو بیٹھیں گے۔
مندرجہ بالا سطور میں جو ذکر ہوا وہ غیر اسلامی ممالک کے ساتھ روابط و تعلقات کے بارے میں اجمالی معلومات تھیں۔ جہاں تک اسلامی ممالک سے روابط اور تعلقات کی قرآنی ہدایات ہیں تو اس سلسلے میں ہمیں سورہ انبیاء آیت ۹۲ کی طرف رجوع کرنا چاہیے جس میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
إِنَّ ھذِہ أُمَّتُکمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّکمْ فَاعْبُدُونِ
بے شک تمہاری امت ایک امت ہے اور میں تمہارا ربّ ہوں پس تم لوگ میری عبادت کرو۔
مرحوم طبرسی اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
یعنی تمہارا دین، ایک دین ہے۔
پس اگر تمام مسلمانوں کا دین ایک ہے اور سب مسلمانوں کا ایک ہی ہدف یعنی اللہ کی بندگی اور عبادت کرنا ہے اور اسی طرف سب بڑھ رہے ہیں تو ایک مسلم کو دوسرے مسلم سے قطع تعلق نہیں کرنا چاہیے اور اسے تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔.

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=5537