شیخ غلام حسین صاحب روایتی علماء کے مزاج کے برخلاف بلتی زبان و ادب کے بڑے شیدائی تھے شیخ صاحب نے مشق سخن کی ابتدا اس وقت کی جب آپ شگر میں تیسری جماعت میں زیر تعلیم تھے۔
سنہ 1970میں واپس کراچی آئے اور سنہ 1972میں دوبارہ عراق چلے گئے اور مرکز علوم تشیع حوزہ علمیہ نجف اشرف میں داخلہ لے کر علم کی پیاس بجھاتے رہے۔
سنہ 1974 میں عراقی بعث پارٹی کی علم دشمن پالیسی کی تحت عراق سے تمام غیر ملکی طلباء کو نکال دینے پر شیخ غلام حسین سحر شام چلے گئے ایک سال شام میں قیام کے بعد سحر کی سیمابی طبیعت نے وہاں بھی ٹھہرنے کی اجازت نہیں دی اور سنہ 1975 کے اواخر میں آپ لبنان چلے گئے حصول علم کے ساتھ ساتھ محنت مزدوری بھی کرتے رہے عراق اور لبنان میں قیام کے دوران عربی زبان پر دسترس حاصل کی۔
شیخ غلام حسین صاحب روایتی علماء کے مزاج کے برخلاف بلتی زبان و ادب کے بڑے شیدائی تھے شیخ صاحب نے مشق سخن کی ابتدا اس وقت کی جب آپ شگر میں تیسری جماعت میں زیر تعلیم تھے۔
کسے معلوم تھا کہ غلام حسین نام کا یہ بچہ بڑا ہو کر شاعر چہار زبان کہلائے گا۔
سحر میں بلا مبالغہ لبنان کی فصیح عربی، ایران کی شیرین فارسی، لکھنؤ کی شستہ اردو اور شگر کی بلیغ و عمیق بلتی کے علاوہ شاعری کے تمام رموز و سحرانگیزیان بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔
شیخ غلام حسین صاحب کے ساتھ تخلص کے تین حروف سین،ح،ر۔ پر مشتمل ہے اور سحر اپنے اندر ایک امتیازی معنویت رکھتا ہے ان تین اشاراتی حروف نے شیخ صاحب کی شخصیت میں، س، سے سخن دلنواز ۔ح،سے حلیم الطبع اور ،ر، سے ریاضت کی خاصیتیں پیدا کر دی ہے۔
شاعر چہار زبان مرحوم شیخ غلام حسین سحر کی مختصر سوانح حیات
سحر میں بلا مبالغہ لبنان کی فصیح عربی، ایران کی شیرین فارسی، لکھنؤ کی شستہ اردو اور شگر کی بلیغ و عمیق بلتی کے علاوہ شاعری کے تمام رموز و سحرانگیزیان بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔
مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=56344