وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق خانم زہرہ کبیری پور نے اپنے ایک انٹرویو کہ دوران کہا ہے کہ واقعہ کربلا تاریخ اسلام کے سب سے افسوسناک واقعات میں سے ایک ہے۔ اس واقعہ میں امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھی دین اسلام کے دفاع اور یزید بن معاویہ کے ظلم کے خلاف جنگ میں شہید ہوئے۔ تاہم امام حسین علیہ السلام کے اہل خانہ اور رشتہ داروں میں کچھ افراد موجود نہیں تھے جس کی وجہ سے سوالات اور ابہام پیدا ہوۓ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: جو لوگ کربلا میں موجود نہیں تھے ان میں بعض ممتاز شخصیات جیسے عبداللہ بن جعفر، محمد حنفیہ، عبداللہ بن عباس اور عبدالرحمن بن عقیل کے نام دیکھے جا سکتے ہیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا عباس کہ بیٹوں اور نواسوں میں سے کوئی بھی امام حسین علیہ السلام کہ ہمراہ نہیں گیا، اور حضرت ابو طالب علیہ السلام کی اولاد میں جو عقیل، جعفر اور حضرت علی (ع) کی اولاد تھے، سوائے چند افراد کہ جن کو واقعہ کربلا میں شرکت کا موقع نہیں ملا۔
عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب کی اولاد میں سے دو جن کے نام عون اور محمد تھے اور امیر المومنین علیہ السلام کی اولاد میں سے پانچ نام عباس، عثمان، جعفر، ابوبکر اور عبداللہ اور امام کی اولاد میں سے۔ حسن مجتبی علیہ السلام کی اولاد میں سے تین کے نام ابوبکر، قاسم اور عبداللہ ہیں اور عقیل بن ابی طالب کی اولاد میں سے تین نام مسلم، عبدالرحمٰن اور جعفر ہیں، اور ابو سعید بن عقیل کی اولاد میں سے ایک کا نام محمد رکھا اور مسلم بن عقیل کی اولاد میں سے دو نام عبداللہ اور محمد رکھے گئے اور امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک کا نام علی اکبر رکھا گیا جو امام حسین علیہ السلام کہ ہمراہ تھے اور دوسرے ان کہ شیر خوار بچے جو کہ وہ بھی امام علیہ السلام کہ ہمراہ تھے۔ بنی ہاشم کے انیس افراد کربلا میں شہید ہوئے۔
کربلا میں موجود تمام بنی ہاشم، چھوٹے بڑے، شہدا، زخمی اور دیگر کو شمار کریں تو شاید چالیس افراد تک بھی نہ پہنچ پائیں۔ لیکن ابی طالب علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وہ گروہ جس نے کربلا میں شرکت نہیں کی، وہ بہت سے ہیں، جیسے عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب اور ان کے بعض فرزند، محمد حنفیہ اور ان کی اولاد، بعض امیر المومنین کی اولاد۔ عمر اطراف جیسے مومنین اور امام حسن مجتبی علیہ السلام کی اولاد میں سے زید ابن الحسن بھی ان میں سے ہیں۔
ابو طالب علیہ السلام کی اولاد میں سے کے بعض افراد اور تمام عباسی جو کہ بنی ہاشم سمجھے جاتے تھے امام علیہ السلام کے ساتھ کیوں نہیں گئے اور اگرچہ امام حسین علیہ السلام نے ان سب کو ایک خط کہ زریعے دعوت بھی دی تھی اسکے باوجود ان میں سے بہت سے لوگوں نے امام علیہ السلام کہ خط کا جواب نہیں دیا۔ اس عنوان پہ بحث اہمیت کی حامل ہے۔
اگرچہ امام علیہ السلام کے بعض بھائی اور بھانجے شروع سے ہی امام علیہ السلام کے ساتھ تھے، لیکن آپ علیہ السلام کی روانگی سے پہلے امام نے مکہ سے بنی ہاشم کو ایک خط لکھا اور ان کو ساتھ آنے کو کہا۔ اس خط میں امام علیہ السلام نے لکھا کہ حسین بن علی کی طرف سے اپنے بھائی محمد اور جو بھی بنی ہاشم میں سے ہے، لیکین پھر؛ یہ سچ ہے کہ تم میں سے جو بھی میرے ساتھ شامل ہو گا وہ میرے ساتھ شہید ہو گا اور جو شامل نہیں ہو گا۔ وہ ہماری فتح و نصرت کو نہیں سمجھ سکے گا۔ وسلام۔
دنیا طلبی؛
بعض مؤرخین نے بنی ہاشم کی عدم شرکت کی وجہ یوں بیان کی ہے: دنیاداری، امام حسین علیہ السلام کی تحریک سے پہلے اور بعد میں بعض بنی ہاشم کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے، خاص طور پر امیر مومنین علیہ السلام کے فرزند عمراطرف کی کارکردگی پر غور کیا گیا۔ جس نے عبداللہ بن زبیر اور حجاج بن یوسف کی بیعت کی تھی اور مصعب بن زبیر کے ساتھ تھے اور ان کے گروہ کے ساتھ مارے گئے تھے کربلا میں شریک نہیں ہوئے۔ محدث قمی نے صاحب المحدث سے نقل کیا ہے: ان لوگوں کی روایت صحیح نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ عمر کربلا میں موجود تھے، بلکہ وہ سب سے پہلے عبداللہ بن زبیر اور پھر حجاج کی بیعت کرنے والے تھے۔ مسعودی نے یہ بھی بتایا کہ وہ مصعب بن زبیر کے پاس گئے اور انہوں نے عمر اطرف کو ایک لاکھ درہم بھی دیئے۔ عمر ہمیشہ اس کے ساتھ تھا یہاں تک کہ وہ مرنے والوں کے ساتھ مارا گیا۔
بڑھاپا اور معذوری؛
شیعہ تاریخ کے محقق نے کہا: ابن عباس، عبداللہ بن جعفر وغیرہ جیسے بعض کی عدم موجودگی کی دوسری وجہ بڑھاپا اور عاجزی ہے۔ اگرچہ یہ عنوان قبول کر لیا جائے، لیکن یہ توقع کی جاتی تھی کہ اول تو انہوں نے اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں متحرک کیا اور دوسرا یہ کہ مدینہ کے لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تعاون اور ساتھ دینے کی ترغیب دی، نہ کہ وہ خود امام کی تحریک کو روکنے کی کوشش اور تعاقب کرتے رہے۔ دوسری طرف کیا امام حسین علیہ السلام کی عمر ان جیسی نہیں تھی؟ کیا کربلا میں 80 اور 90 سال سے زیادہ عمر کے لوگ نہیں تھے؟ ان پہ بڑھاپے کا کوئی اثر نہیں تھا؟
بیماری اور اندھا پن؛
بیماری اور اندھا پن ایک اور امکان ہے جسے بعض نے صحابہ کی کمی کا سبب قرار دیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ ابن عباس کو اس وقت کامل بصارت نہیں تھی اور اسی کمزوری کی وجہ سے وہ اپنی زندگی کے آخر میں نابینا ہو گئے تھے۔ محمد حنفیہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ بیمار تھے اور ہتھیار اٹھانے کی طاقت اور استطاعت نہیں رکھتے تھے اس لیے کربلا میں حاضر نہ ہو سکے اور عبداللہ بن جعفر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کربلا میں ان کی عدم موجودگی کی وجہ نابینا ہونا تھی۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ بعض لوگوں بالخصوص ان تینوں عظیم ہستیوں کی عدم حاضری کی وجہ کے متعلق بہت سے الفاظ اور تصریحات بیان کی گئی ہیں، بدقسمتی سے بعض نے اس قدر مبالغہ آرائی کی ہے کہ انہوں نے امام حسین علیہ السلام کے خط کو غلط سمجھا ہے۔ بنی ہاشم کو دستاویز کے نقطہ نظر سے خراب کرنا۔ جب کہ یہ صرف غیر حاضری کی بات نہیں ہے، ان تینوں شخصیات میں سے ہر ایک نے اس تحریک کا ساتھ دینے کے بجائے، امام علیہ السلام کا رخ موڑنے کی بھرپور کوشش کی۔ ابن عباس نے بھی امام علیہ السلام کو یزید کے ساتھ صلح کرنے کی پیشکش کی تھی۔
انہوں نے یاد دہانی کروائی کہ یہ تعجب کی بات ہے کہ ابن عباس اور محمد حنفیہ اپنے بچوں کے ہمراہ امام علیہ السلام کے ساتھ نہیں گئے۔ کیا ان کے بچے بھی بیمار یا نابینا تھے؟ تو ان دونوں نے عبداللہ بن جعفر جیسے عمل کیوں نہیں کیا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر وہ نابینا تھے تو انہوں نے اپنے بچوں کو امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جانے کی ترغیب کیوں نہیں دی؟
تاریخی منابع میں محمد حنفیہ کے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ نہ جانے کی متعدد وجوہات بیان کی گئی ہیں جس میں مذکورہ وجہ انکی بیماری ہے۔
امام علیہ السلام کا مشن: بعض کا خیال ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے محمد حنفیہ کو مدینہ میں قیام اور حالات کہ متعلق اطلاعات دینے کا مشن دیا تھا۔
لوحِ محفوظ میں ناموں کی عدم موجودگی:
بعض کا خیال ہے کہ لوحِ محفوظ میں شہدائے کربلا کے نام پہلے سے موجود تھے اور ان میں محمد حنفیہ کا نام شامل نہیں تھا۔
مصلحت:
ایسے لوگوں کا ایک گروہ ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ محمد حنفیہ نے مصلحت کہ تحت امام علیہ السلام کو کوفہ جانے سے منع کیا تھا اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ مکہ میں یزید کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان وجوہات پر تنقید کرتے ہوئے ہم کئی چیزوں کا ذکر کر سکتے ہیں۔
منابع کی کمزوری: ان میں سے بعض اسباب مثلاً محمد حنفیہ کی بیماری کا ذکر سابقہ منابع میں نہیں ہے۔
تضادات کا وجود: بعض وجوہات ایک دوسرے کہ متضاد ہیں۔
شواہد سے عدم مطابقت: بعض وجوہات تاریخی شواہد سے مماثلت نہیں رکھتی ، جیسے یزید کے دور میں محمد حنفیہ کا شام کا سفر۔ نتیجتاً واقعہ کربلا میں محمد حنفیہ کا امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ ساتھ نہ دینے کی کوئی قطعی اور درست وجوہات نہیں ہیں۔ بعض شیعہ مورخین اور علماء نے اس سلسلے میں وجوہات پیش کی ہیں لیکن ان وجوہات کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
شیعہ تاریخ کے محقق نے وضاحت کی کہ صفار قمی نے اپنی دستاویز میں حمزہ بن حمران سے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی موجودگی میں امام علیہ السلام کہ خروج اور امام محمد حنفیہ کی عدم شمولیت کی متعلق بحث ہوئی ۔ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اے حمزہ اب میں تم سے ایک حدیث بیان کر رہا ہوں، سننے کے بعد اس کے بارے میں مزید کچھ مت پوچھنا۔ جان لو کہ جب امام حسین علیہ السلام (عراق کی طرف) جانے والے تھے تو آپ نے ایک قلم اور کاغذ منگوایا اور اس پر لکھا: حسین بن علی سے بنی ہاشم تک، لیکن پھر: اگر تم میں سے کوئی خود کو مجھ تک پہنچانۓ گا (میرے ساتھ ملحق ہوگا) تو وہ میرے ساتھ شہید ہوگا اور جو میرا کا ساتھ نہیں دے گا وہ فتح و نصرت تک نہیں پہنچ سکے گا۔ والسلام
انہوں نے کہا کےجیسا کہ اس روایت سے واضح ہے کہ امام صادق علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کہ ساتھ کو با برکت اور سعادت سمجھتے تھے اور جو بھی بنی ہاشم سے اس سعادت میں شامل ہونے سے محروم رہا کیونکہ اس موقع حسینی کاروان میں شریک ہونے، اور اپنے وقت کے امام کو راضی کرنے سے بہتر اور کوئی راہِ نجات اور سعادت نہیں تھی۔
لیکن بنی ہاشم کے کچھ لوگ جن کے پاس کوئی وجہ نہیں تھی، وہ دنیا پرستی یا جان و مال کے خوف اور امام زمانہ کی صحیح معرفت اور علم نہ ہونے کی وجہ سے اس عظیم سعادت سے محروم ہوگئے۔ اس طرح کہ اگر ہم ان کو تمام الزامات سے بری بھی کر دیں تو کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے وقت کہ امام علیہ السلام کی پکار پر لبیک نہ کہنے میں بہت بڑی غلطی کی ہے۔