حضرت فاطمہ زھرا(س) کی زندگی دور حاضر کی خواتین کے لیے مشعل راہ ہے
تحریر : مولانا سید عمار حیدر زیدی قم المقدس
حضرت فاطمہ زہرا (س) عالم اسلام کی ایسی باعظمت خاتون ہیں جن کی فضیلت زندگی کے ہر شعبے میں آشکار ہے اور عظمتوں کے اس سمندر کی فضلیتوں کو قرآنی آیات اور معصومین (ع) کی روایات میں ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت زہرا (س) کے فضائل کے بیان میں بہت زیادہ روایتیں موجود ہیں اور بعضں آیات کی شان نزول اور تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت زہرا (س) کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ تفسیر فرات کوفی میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ “انا انزلناہ فی لیلۃ القدر” میں “لیلۃ” سے مراد فاطمہ زہرا (س) کی ذات گرامی ہے اور “القدر” ذات خداوند متعال کی طرف اشارہ ہے۔ لہذٰا جسے بھی فاطمہ زہرا (س) کی حقیقی معرفت حاصل ہو گئی اس نے لیلۃ القدر کو درک کر لیا، آپ کو فاطمہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ لوگ آپ کی معرفت سے عاجز ہیں۔
اسلام نے عورت کو بہت بلند مقام پر فائز کیا ہے، اور اس صنف نازک کے لئے کچھ قوانین بنائے ہیں جو اس گوھر نایاب کی حفاظت کے لئے ضروری ہیں جب ہمارے پاس کوئی بہت قیمتی چیز ہوتی ہے تو ہماری یہ کوششں ہوتی ہے کہ اس کو ایسی جگہ پر رکھا جائے کہ کوئی اس کو چرا نہ سکے لیکن افسوس صد افسوس قیمتی ترین گوھر کو دنیا کے سامنے آزادانہ ڈال دیا گیا ہے کہ جو جس طرح چاہے استفادہ کرے ایک بہت مشہور جملہ ہے کہ “عورت ہی عورت کہ دشمن ہوتی ہے” یہ سو فیصد درست ہے جب عورتیں بہترین آرایش کے ساتھ معاشرے میں جلوہ گر ہوں گی تو یہ عورتیں پردے میں رہنے والی خواتین کا حق غصب کرتی ہیں کیونکہ جب مرد بنی سنوری عورتوں کو دیکھتا یے تو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی بیوی سے مقایسہ کرنے لگتا ہے اور یہی بات آہستہ آہستہ معاشرے میں فساد کا باعث بن جاتی ہے۔ اسلام نے پردے کو عورت كی زينت اور اسکے لئے واجب قرار دیا ہے اس لئے اسلام ميں ہر مسلمان عورت پر نامحرم سے پرده كرنا واجب ہے لیکن پرده واجب ہونے كے باوجود اکثر مسلمان خواتين بے پرده نظر آتی ہیں اور افسوس اس بات کا ہے کہ آج کے جدید معاشرے کی خواتین پردے کو ترقی اور حسن کی راہ میں روکاوٹ سمجھتی ہیں جو عورت بےحجابی سے حسن لانا چاہتی ہے وہ یہ جان لے كہ بےحجابی سے حسن پر زوال آتا ہے نہ نکھار بےحجابی سے عورت کی زينت اور وقار ختم ہو جاتا ہے۔
آج کے دور میں اسلام دشمن عناصر سازش کے تحت مسلم خواتین کو آلہء کار کے طور پر استعمال کر ریے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آج كل كی عورتيں بھی modrenism کے شوق میں ان کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئی ہیں ایک جانب تو مغربی ممالک کی پیروی کرتی ہوئی نظر آتی ہيں اور دوسری جانب مسلمان ہونے كا دعوا بھی کرتی ہیں۔ اور تو اور اس بات کی بھی دعویدار ہیں کہ ہم پيرو حضرت فاطمہ زہرا (س) ہیں اگر حضرت فاطمہ زہرا (س) كی پيروکار ہونے کا دعوا كرتی ہیں تو ان کی سيرت پر عمل بھی كرنا چاہیے۔ حضرت زہرا (س) نے پردے میں رہ کر تدریس بھی کی تبلیغ بھی کی اور اپنے حق کے لئے خلیفہ وقت کے دربار میں آواز بھی بلند کی۔ عورت کا کمال اس میں ہے کہ اسلامی قوانين كی رعايت كرتے ہوئے حجاب اسلامی ميں رہ كر معاشرے میں اپنا كردار ادا كرے۔ آجکل باحجاب خواتین کی بھی مختلف کیٹیگریز ہیں کچھ وہ کہ جو حجاب واقعی کرتی ہیں اور ان کا یہ حجاب تمام نا محرموں سے ہے اور یہی حجاب اسلام کو مطلوب ہے کچھ ایسی بھی ہیں جو صرف سر پر اسکارف لینے کو حجاب کامل سمجھ لیتی ہیں اس کے ساتھ میک اپ بھی کرتی ہیں اور نامحرموں کے ساتھ گپ شپ بھی ہو رہی ہے شاید اس فارمولے کے تحت کہ “مسلمان آپس میں بہن بھائی ہیں،”یہ وہ جملہ ہے جو ہمارے معاشرے میں بہت سننے کو ملتا ہے”حالانکہ مسلمان سب بھائی بھائی ہیں” عورت کے لئے جسکو خدا نے نا محرم قرار دیا ہے وہ اسکے لئے نا محرم ہے خدا نے عورت کو نامحرم سے بات کرنے سے منع نہیں کیا لیکن اس کی کچھ حدود و قیود مقرر کی ہیں۔ روایت میں ملتا یے کہ “عورت کو چاہیے کہ نا محرم سے نرم و زیبا لہجے میں بات نہ کرے”
خداوند ہماری ماوں اور بہنوں کو سیرت جناب فاطمہ زہرا س کی سیرت پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت فرمائے۔
آمین یا رب العالمین