3

ہر انداز دل نشیں تھا

  • News cod : 60471
  • 08 مارس 2025 - 16:27
ہر انداز دل نشیں تھا
علیم کے میدان میں آپ اولین میں سے ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی کے آخری برسوں کو فقط تعلیم کیلئے وقف کر دیا تھا۔ راقم نے آپکی خدمت میں عرض کی کہ آپکو صحت کے حوالے سے کام کرنا چاہیئے۔

تحریر: سید نثار علی ترمذی

شاعری خداداد صلاحیت ہے، جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری سے شغف رکھنے کے باوجود ہر شخص شاعر نہیں ہوسکتا۔ ثاقب بھائی انہی خوش قسمت لوگوں میں سے ایک تھے کہ جن کو یہ ملکہ ودیعت ہوا تھا۔ آپ نے اس صلاحیت کا بیشتر حصہ دین اسلام اور اس کے چاہنے والوں کی حمایت میں صرف کیا۔ آپ کی شاعری تقاضا کرتی ہے کہ اس پر تحقیقی و تنقیدی مضامین لکھے جائیں۔ ہوسکتا ہے کہ نسل نو اس جانب متوجہ ہو اور شاعری میں چھپے ہوئے پیغام کو اجاگر کرسکے۔ بقول علامہ اقبال “ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔” ثاقب بھائی نے اپنے رفیق محبوب ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید رح کے حوالے سے متعدد شاعرانہ خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ہر نظم اپنے اندر ایک جہاں لیے ہوئے ہے۔ ان میں درد جدائی بھی ہے اور عزم کافیہ پیمائی بھی۔ آپ نے شہید کے بارے میں جو آخری کلام بصورت ترانہ لکھا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس ترانے کو آپ نے شہید رح کی برسی کے موقع پر بیان کیا ہے اور اسے غزل گو گلوکار انجم شیرازی سے ترنم میں گوایا۔

اس ترانے کا ایک ایک لفظ شہید کے کردار کی نشان دہی کر رہا ہے۔ یہ ترانہ گویا قلمی تصویر کشی ہے، جیسے ثاقب بھائی کے علاؤہ کوئی اور کاغذ پر اتار بھی نہیں سکتا تھا۔ آپ پر لکھی کتابوں کا اگر خلاصہ بیان کیا جائے تو وہ ثاقب بھائی کا یہ ترانہ قرار پائے گا۔ شاعری کا یہی تو حسن ہے کہ مختصر الفاظ میں ایک جہاں سمویا جاسکتا ہے۔ شاعری کا ملکہ ہو اور پھر محبوب کے اوصاف بیان کرنے ہوں تو ساری شاعری اسی موضوع پر استوار ہے کہ ہر شاعر نے اپنے اپنے انداز میں اپنے محبوب پر لفاظی کی ہے۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید رح پر متعدد کلام معرضِ وجود میں آئے ہیں، مگر ان شاعروں نے عقیدت میں لکھے ہیں یا ایک دو پہلو ہی اجاگر کیے ہیں، جب کہ ثاقب بھائی نے ایک رفیق کی حیثیت سے، یہ “رفیق” کا لفظ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے حوالے سے صرف ثاقب بھائی پر جچتا ہے، انہوں نے شہید کے تمام کرداروں کو لفظوں میں پرو دیا ہے۔ تمہید کے بعد اصل مطلب کی طرف آتا ہوں، جو اصل میں مطلوب ہے۔ ثاقب بھائی نے یہ ترانہ 26 فروری 2020ء میں لکھا تھا۔ ترانہ کا پہلا شعر یہ ہے۔

حق باز حق نگر تھا محمد علی ہمارا
دل جاں کا ڈاکٹر تھا محمد علی ہمارا
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید رح کی پوری زندگی حق کی تلاش، اس کو پانے اور اس کا ساتھ دینے میں گزری ہے۔ حق کے ساتھ دینے میں شہید نے ہر طرح کی قربانیاں دی ہیں۔ ایک دور تھا کہ آپ علامہ محمد حسین ڈھکو مرحوم سے متاثر تھے۔ ان کے نظریات کے مطابق اپنا عقیدہ اور دوسروں کے عقیدے ٹھیک کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے تھے۔ اپنے اس دور کو آپ نے اس انداز میں بیان کیا ہے “ایک تھیلے میں کتابیں تھیں، اسے اٹھائے گلی گلی آواز لگاتے پھرتے تھے کہ عقیدے ٹھیک کروا لو۔” ابھی اس دور میں تھے کہ انقلاب اسلامی کی نوید سنائی دی۔ آپ سب کچھ چھوڑ کر امام خمینی رح کے عشقِ میں گندھ گئے۔ انقلاب اسلامی ایران کی آواز کو گھر گھر پہنچا کر دم لیا۔ خود کہا کرتے تھے کہ “ہم نے طے کیا تھا کہ امام خمینی رح کی تصویر اور توضیح المسائل ہر گھر تک پہنچانی ہے۔”

یہ منظر سب نے دیکھا کہ ہر گھر تک یہ دونوں چیزیں پہنچیں۔ علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کی تحریک میں عہدے تو ناموروں کے پاس تھے، مگر کام تو جنہوں نے کیے، ان کے سربراہ تو شہید رح تھے۔ جب شہید علامہ عارف حسین الحسینی رح کے سر پر قیادت کا تاج رکھا گیا تو ان کے توانا بازو کا نام ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید ہے۔ صفر سے کام شروع کیا تو اسے عروج تک پہنچایا۔ جب شہید حسینی “ڈاکٹر بھائی” کہہ کر پکارتے تھے تو گویا کامیابی کی نوید کو آواز دے رہے تھے۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے علامہ عارف حسین الحسینی رح کا ساتھ دینے کے صلہ میں اپنی سرکاری نوکری کو خیرآباد کہا۔ اس سے قبل آپ کے رفیق ثاقب اکبر مرحوم بھی دین مبین کے لیے اپنی ملازمت کی قربانی دے چکے تھے۔ بر سبیل تذکرہ ایک مرتبہ ملازمت کی ضرورت پیش آگئی۔ فائل تلاش کرکے سیکرٹری صحت سے ملازمت پر بحال کرنے کی اپیل کر دی۔ سیکرٹری صحت کے پاس ذاتی شنوائی کی تاریخ طے پا گئی۔ راقم ساتھ گیا، شام تک بیٹھے رہے، باری نہیں آئی۔ آخر آٹھ کر چلے آئے۔ یہ تاریخ میں لکھا جانا چاہیئے کہ قائد شہید کے بعد آپ کو روزگار کے لیے متعدد ملازمتیں کیوں کرنی پڑیں، کیا کوئی جواب دے سکتا ہے۔

شہید الحسینی رح کو حق سمجھتے تھے، تو ان کی حمایت ہر اس طاقت سے لڑ پڑے، جنہوں نے شہید الحسینی رح کی مخالفت کی تھی۔ کئی محسنین بھی زد میں آئے مگر آپ کے پائے ثبات میں ذرا بھر لرزش نہ آئی۔ شہید رح کا اپنا قول قبولیت عام حاصل کرچکا ہے کہ “حق کی پہچان کے بعد ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا حق کی توہین ہے۔” آپ اپنے اس قول کی عملی تصویر تھے۔ شعر کا دوسرا مصرع جو کہ اختصار اور وسعت کی زندہ مثال ہے، یعنی “دل جاں کا ڈاکٹر تھا محمد علی ہمارا” شہید رح پیشہ کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج جو اب یونیورسٹی بن چکا ہے، اس سے سند یافتہ تھے۔ لاہور کے سروسز ہسپتال، زینبیہ ٹرسٹ ہسپتال اور شیخ زید ہسپتال میں خدمات دے چکے تھے۔ اس کے علاؤہ کندیاں ضلع میانوالی میں ہلال احمر ہسپتال، جنگ کے دوران ایران عراق باڈر پر اور اپنی ذاتی کلینک میں مریضوں کا علاج کرتے رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے شفا کی تاثیر آپ کے ہاتھ میں دی تھی۔ چاہنے والے آپ پر اندھا اعتماد کرتے تھے۔ آپ بھی فیاضانہ اپنے مشوروں سے نوازتے رہتے تھے۔ جسمانی ڈاکٹر تو بہت تھے اور بہت ہیں مگر یہ جو جسمانی ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ روحانی علاج بھی کرتے تھے، اس صلاحیت کا یک جا ہونا محال ہے مگر یہ ہنر آپ میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ آپ کا فرمایا ہوا ایک فقرہ نوجوانوں کے قلب و روح کو منقلب کرنے کے لیے کافی تھا۔ کتنے نوجوان آپ کے کہنے پر اپنا تن من راہ خدا میں وارنے پر آمادہ ہوگئے۔ روح کو مسخر کرنے کی صلاحیت میں نے کسی اور میں نہیں دیکھی، سوائے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے۔ یہی وجہ ہے کہ تیس سال گزرنے کے باوجود آپ کا یہ فیض اب بھی جاری ہے۔ اس ترانے کا دوسرا شعر ہے۔

تھا راہ حق پہ قائم آواز حق پہ دائم
آمادہء سفر تھا محمد علی ہمارا
اس پہلے شعر ذکر اوصاف کو ایک اور انداز میں بیان کیا گیا ہے، یعنی شہید حق کی راہ کو اپنائے ہوئے تھے اور حق کی آواز پر ہمیشہ آمادہ و تیار رہتے تھے۔ آمادہ سفر کے ذو معنی ہیں کہ وہ حق کی آواز پر دنیا بھر میں جانے اور اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے ہمیشہ سے تیار رہتے تھے۔ دوسرے سفر جو آپ کی پوری زندگی میں جاری و ساری رہا۔ آپ خود متحرک رہے اور اپنے ساتھیوں کو متحرک رکھا۔ آپ کو اطلاع تھی کہ کہ کہیں اور کسی وقت اپ پر قاتلانہ حملہ ہوسکتا ہے، مگر آپ نے تحرک کو زندگی پر ترجیح دی اور آگاہانہ شہادت کو گلے لگایا۔ یہ شعر شہید رح کی ہمہ جہت و ہمہ وقت جدوجہد کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ ترانے کا تیسرا شعر ایک اور جہت کو بیان کر رہا ہے۔

تھا طالب خمینی ایمان میں حسینی
اسلام کی سپر تھا محمد علی ہمارا
شہید، امام خمینی رح کو محبوب رکھتے تھے اور ان کے ہر فرمان پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ آپ برملا کہا کرتے تھے “اگر کسی کو امام خمینی رح سمجھ میں نہیں آئے تو ان کا آئمہ اطہار علیہم السلام کو جاننے کا دعویٰ فضول ہے۔” امام خمینی رح سے عشقِ میں آپ کا معیار شہید عارف الحسینی رح جیسا تھا۔ آپ نے بھی شہید عارف الحسینی رح کی طرح استعمار سے لڑتے ہوئے شہادت کی منزل کو قبول کیا۔ شاعر نے آپ کے کردار کو اسلام کی سپر قرار دیا ہے۔ اسلام سے آپ کی محبت کا اندازہ راقم کے ساتھ پہلی مفصل ملاقات سے لگایا جا سکتا ہے، جس کا اختتام شہید رح کی اس دعوت سے ہوتا ہے کہ “آقائے ترمذی! اگر آپ اسلام کو مظلوم سمجھتے ہیں تو ہمارا ساتھ دیں۔” آپ کی اس ابدی دعوت نے راقم کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ شاعر نے اپنے کلام میں شہید کو یوں خراج تحسین پیش کیا ہے۔

از نسل پاک کوثر از شجرہء مطہر
پاکیزہ گل ثمر تھا محمد علی ہمارا
حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے “کوثر” عطا کی، اس کی ایک تفسیر آپ کی دختر نیک اختر جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا سے آپ کی اولاد تولید ہونا ہے۔ جتنے بھی سادات ہیں، وہ بجا طور پر اسی شجرہ طیبہ سے ہیں، جسے قرآن مجید میں “کوثر” کہا گیا ہے۔ شاعر اسی نسبت سے شہید رح کے اوصاف بیان کر رہا ہے کہ آپ کا تعلق اسی شجرہ مطاہرہ سے ہے۔ یہ ایک اعزاز کی بات ہے۔ اسی پاکیزہ شجرہ کا پھل شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی تھے، جو ہمیں نصیب ہوئے۔ اس شعر میں اس جانب بھی اشارہ ہے کہ اس نسل کے لوگ تو یونہی کارنامے انجام دیتے رہتے ہیں۔ دین اسلام سے محبت تو ان کا آبائی وصف ہے۔ شاعر نے شہید کے ساتھ آپ کے آباؤ اجداد کو بھی سراہا ہے، یعنی نیک و پاکیزہ نسل سے ایسی پاک طینت شخصیات حاصل ہوتی ہیں، جو تاریخ کو نیا رخ دے دیتی ہیں۔ شہید موصوف انہی میں سے ایک ہیں۔ شاعر نے اس شعر میں شہید کے کئی کرداروں کو اجاگر کیا ہے۔ وہ کہتا ہے:

کعبہ میں جا اذاں دی ملت کو بھی زباں دی
اک جاگتی سحر تھا محمد علی ہمارا
1987ء میں حج کے موقع پر برائت از مشرکین کے جلوس پر سعودی حکومت نے فائرنگ سے کئی سو حجاج کو شہید کر دیا۔ ایرانی حکومت نے ردعمل میں حج کا بائیکاٹ کر دیا۔ شہید علامہ عارف حسین الحسینی رح نے برائت از مشرکین کی ذمہ داری پاکستانی حجاج کے سپرد کر دی۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید رح نے اپنے محبوب قائد کے حکم پر سعودی عرب جا کر احتجاج کیا، گرفتار ہوئے، تشدد سہا اور قائد کی شہادت کا صدمہ برداشت کیا، اس پورے عمل کو شاعر نے کعبہ میں جا اذاں دی سے تعبیر کیا ہے۔ اذان، حقیقت بھی ہے، استعارہ بھی اور تلمیح بھی۔ شاعر نے ان تینوں پہلوؤں کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔

ملت کو زبان دینے سے ایک پوری تاریخ بیان کر دی ہے۔ زبان دینے سے مراد ملت کو تنظیمی و اجتماعی شعور دیا۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان جیسی تنظیم دی، جس نے ایک نرسری کا کام کیا، اس سے نکلنے والے لوگوں نے ملک گیر تنظیمیں بنائیں، ملت کو مضبوط و مربوط کیا۔ ملت نے اپنی طاقت کا متعدد مقامات پر مظاہرہ کرکے اپنے حقوق حاصل کیے۔ اب جب کوئی بلا ٹوٹتی ہے تو ملت یک زبان ہو کر اس کا مقابلہ کرتی ہے۔ شہید نہ صرف متعدد تنظیموں کی تاسیس میں شامل رہے بلکہ بعد میں بھی آپ کے افکار و نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے نئے ادارے تشکیل پا رہے ہیں۔ شاعر نے شہید کو جاگتی سحر سے موسوم کیا ہے۔ یہ خوب صورت تعبیر ایک نوید کی علامت ہے، یعنی آب تعصب، لاعلمی، جہالت، سستی کے اندھیرے چھٹ گئے ہیں۔ ایک روشن صبح، روشن مستقبل کے ساتھ طلوع ہوچکی ہے۔ ترانے کا اگلا شعر کچھ یوں ہے۔

خدمت میں پیش تازی انداز دل نوازی
ہر فن میں باہنر تھا محمد علی ہمارا
اس شعر میں شہید کی خدمت گزاری کے وصف پر بات کی ہے۔ انفرادی عمل یا کہ اجتماعی، شہید خدمت کرنے میں سب سے آگے آگے ہوتے تھے۔ اس ضمن میں بہت سے واقعات ہیں، جن کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے، مگر شہید کے ایک اور رفیق کا واقعہ بیان کرتا ہوں۔ سجاد میکن صاحب بتاتے ہیں کہ وہ کنونشن میں شرکت کے لیے سرگودھا سے جامعہ المنتظر، لاہور پہنچے اور دل میں ارادہ کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی سے ملنا ہے۔ بارش ہوچکی تھی۔ جامعہ کے گیٹ سے برآمدہ تک پانی گھڑا تھا۔ ایک نوجوان اینٹیں اٹھا کر لا رہا تھا اور پانی میں رکھ رہا تھا، تاکہ خشک راستہ بن سکے۔ ہمیں دیکھ کر اس جوان نے کہا کہ آؤ میرا ساتھ دو، تاکہ مہمانوں کے لیے آسانی ہوجائے۔ دعوت میں وہ کشش تھی کہ ہم سب سامان گیٹ کے باہر رکھ کر اینٹیں اٹھانے میں شامل ہوگئے۔

بعد میں کنونشن میں جب بھی کوئی مشقت طلب کام ہوتا تو وہ نوجوان دعوت دیتے تو ہم دیوانہ وار کام میں جت جاتے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہی نوجوان تو ڈاکٹر محمد علی نقوی ہے۔ ان کی خاکساری نے ان کا مطیع بنا دیا۔ اس طرح کے واقعات شہید سے ملنے والے ہر شخص سے سن سکتے ہیں۔ ہر فن میں باہنر ہونا شہید رح کا وہ خاصہ ہے، جو انسان کو حیران کر دیتا ہے۔ ایک پروفیشنل ڈاکٹر سے طب کے علاؤہ اور کیا توقع کی جا سکتی ہے، مگر شہید سے جس موضوع پر بات کرتے تو لوگ ششدر رہ جاتے کہ وہ کس قدر معلومات رکھتے ہیں اور یہ بھی محسوس ہوتا کہ یہ شخص خود ان سب مراحل سے گزر چکا ہے۔ تنظیم ہو، تدریس ہو، دفاع ہو یا علمی موارد ہوں، غرض یہ کہ سب میں آپ کی معلومات زیادہ اور مشورہ صائب ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ آپ کے مشوروں پر آنکھ بند کرکے عمل کرتے اور مراد پاتے۔

تعلیم و تربیت ہو درس عبودیت ہو
راہرو تھا راہبر تھا محمد علی ہمارا
اس شعر میں شاعر نے شہید موصوف کے کردار کے کئی اور پہلو بیان کیے ہیں۔ تعلیم و تربیت کا وصف آئی ایس او کو دیگر تنظیموں سے منفرد بناتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بنیاد گزاروں میں شہید رح کا نام نامی بلند سطح پر ہے۔ تربیت کے حوالے شہید کی اپنی شخصیت ہی کافی تھی، مگر آپ نے دروس و تربیتی نشستوں کا وسیع پیمانے پر اہتمام کیا جانا اور علماء کرام سے فیض حاصل کرنا شامل ہے۔ تعلیم کے میدان میں آپ اولین میں سے ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی کے آخری برسوں کو فقط تعلیم کے لیے وقف کر دیا تھا۔ راقم نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ آپ کو صحت کے حوالے سے کام کرنا چاہیئے۔ جواب فرمایا کہ گو کہ میری تعلیم و پیشہ طب ہے، مگر میں اس سے مطمئن نہیں ہوں۔ ڈاکٹر اس انتظار میں رہتا ہے کہ کب کوئی بیمار ہو تو اس کا علاج کرے، جبکہ میں چاہتا ہوں کہ لوگ تعلیم یافتہ ہوں، تاکہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کرکے کم بیمار پڑیں۔ تعلیم میں آگے بڑھنے سے ہی قومیں ترقی کرتی ہیں۔

اس حوالے سے وہ ایک حکمت عملی بنا چکے تھے۔ شہید کی شہادت سے جہاں اور بہت سے نقصان ہوئے ہیں، وہیں تعلیم کے میدان میں ہؤا ہے۔ گو بہت سے لوگ اب تعلیم کے لیے کام کر رہے ہیں، مگر مربوط نظام ابھی تشنہ ہے۔ عبودیت میں شہید مثالی تھے۔ آپ ہر کام خدا کے لیے کرتے تھے اور عبادت سمجھ کر کرتے تھے۔ کہیں بھی ذاتی نمود و نمائش کو جگہ نہیں دی۔ شہید نہ صرف خود حق کے راستے کے راہی تھے بلکہ دیگر کے لیے رہنماء تھے۔ شہید خود اپنی ذات میں ایک تنظیم و تحریک تھے، جس کے آپ خود رہبر و قائد تھے۔ اس کا احساس آپ کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ہوا۔ شاعر اس حوالے سے صحیح تشخیص کی ہے۔ ترانے کے آخری دو اشعار تقریباً ایک جیسا مفہوم رکھتے ہیں۔

اخلاق میں مثالی اخلاص میں بھی عالی
دل سوز و خوش نظر تھا محمد علی ہمارا
ثاقب کہوں کہ کیا تھا ہر پہلو خوش ادا تھا
دل دل میں اس کا گھر تھا محمد علی ہمارا
شاعر نے اپنی واردات قلبی کو الفاظ میں بیان کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ “ہر پہلو خوش ادا تھا” شاعر اپنے محبوب کے اوصاف بیان کرتے کرتے حتمی بات کرتا ہے کہ میں کیا بتاؤں کہ وہ دلربا کیا تھا، جس کی ہر ادا ہی دلنشین تھی۔ واقعی جو بھی شہید سے ملا ہوا ہے، وہ اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے، جس کا شاعر موصوف نے اپنے کلام میں ذکر کیا ہے۔ گو کہ کلام کی تشریح میں مزید باتیں کی جا سکتی ہیں اور کیوں نہ کی جائیں جبکہ راقم کو تقریباً دس سال شہید رح کی زیارت کا موقع میسر رہا، مگر طوالت کی وجہ سے اختصار کا راستہ اختیار کیا ہے۔ شاعر عزیز نے اپنے قلمی و قلبی کام مرتب کرکے “رفیق محبوب ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید رح” کے نام سے پچاس صفحات پر مشتمل کتابچہ شائع کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں برادران کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=60471

ٹیگز