11

شہدا کوئٹہ کا اصلی کردار

  • News cod : 7536
  • 09 ژانویه 2021 - 10:58
شہدا کوئٹہ کا اصلی کردار

معنای شہادت شہادت و شہید ایک دینی لفظ ہے۔ اگرچہ قران میں لفظ شہید، موجودہ معنی میں نہیں آیا ہے۔ لیکن لفظ شہید و […]

معنای شہادت
شہادت و شہید ایک دینی لفظ ہے۔ اگرچہ قران میں لفظ شہید، موجودہ معنی میں نہیں آیا ہے۔ لیکن لفظ شہید و شہادت روایات میں مقتولِ سبیلِ خدا کے معنی میں آیا ہے۔
البتہ قران میں شہید کے کردار کو ذکر کیا ہے کہ اس کا اصلی وظیفہ ایجادِ حیات ہے۔
لفظ “شہید” عربی میں “شہود” سے ہے کہ جس کا معنی ظاہر کرنا یا عیان ہونے کے معنی میں ہے۔
اسی لفظ کو گواہ کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔
البتہ قران میں شہادت و شہید اسی گواہی کے معنی میں آیا ہے۔
لہذا خدا کی راہ میں قتل ہو جانے والے انسان کو بھی شہید کہا ہے۔
اسے شہید کہنے کی اصلی وجہ شہید کے اصلی عمل کی وجہ سے ہے۔
کیونکہ شہید درحقیقت کئی جہات سے ایک سوسائٹی کا گواہ بن جاتا ہے۔
جب ایک انسان راہ خدا میں قتل ہوجاتا ہے تو اس کا قتل ہونا خود درحقیقت کئی چیزوں کی گواہی ہوتی ہے۔

محسوسات اور معقولات
اکثر انسان صرف محسوسات پر یقین رکھتے ہیں۔
جبکہ صرف کچھ ہی انسان ہوتے ہیں کہ جو محسوسات سے آگے تعقل بھی کرتے ہیں اور بہت سارے معقولات کو درک کرتے ہیں۔
لہذا جو انسان صرف حواس کے ذریعے کام لیتا ہے اسے عقلی انکشافات خیالی اور غیر واقعی محسوس ہوتے ہیں۔
یہاں پر ایک اہم کام معقولات کو محسوس بنانا ہے۔

اجتماعی تشخصِ تشیع
کبھی کبھار ایک قوم کسی خطرے میں ہوتے ہیں لیکن قوم اس خطرے سے آگاہ نہیں ہوتے۔
مثلا تشیع دشمن دار ہے لیکن اس بات پر اکثریت کو یقین نہیں ہے۔ وہ دشمن سے غفلت برتتے ہیں۔
یا یہ کہ پاکستان میں تشیع کا ہمدرد، کوئی نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی اہل حس اس گمان میں مبتلا ہوتے ہیں کہ پاکستانی ہم سے ہمدردی رکھتے ہیں۔
یا ایک قوم اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتی ہے کہ ہم پہلے فلان قوم ہیں، بعد میں شیعہ ہیں۔ لہذا اپنے تشخصِ تشیع کو بھلا چکے ہوتے ہیں۔
جب بھی دشمن، تشیع پر حملہ آور ہوجاتا ہے تو وہ خود کو اس جمعیت سے اجنبی محسوس کرتے ہیں۔

پیغام شهید
یہاں ہر شہید ان تمام وھمیات کو اپنی شہادت اور خون سے دور کرتا ہے۔
شہید گواہ بنتا ہے اور اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ تشیع دشمن دار ہے۔ اس بات کا گواہ بنتا ہے کہ تشیع کے دشمن بے رحم ترین دشمن ہے۔ شہید اس بات پر گواہ بنتا ہے کہ پاکستان میں کوئی تشیع کا ہمدرد نہیں ہے۔ شہید کی سب سے بڑی گواہی یہ ہے کہ آپ خود کو شیعہ تشخص سے بالا سمجھے یا نہ سمجھے دشمن آپ کو شیعی نظر سے دیکھتے ہیں۔ آپ کو بعنوان شیعہ قتل کرتے ہیں۔
آپ خواہ خود کو ہزارہ برادری کہے یا پنجابی برادری کہے یا سندھی یا پٹھان یا بلتی یا گلگتی اور اسی کو اپنا اجتماعی تشخص قرار دے لیکن پھر بھی دشمن آپ کو بعنوان شیعہ دیکھتا ہے۔
لہذا شہید کا اہم ترین پیغام بھی یہی ہے کہ قومیت و زبان و نسل وحدت تشیع میں حائل نہ ہوں۔
شہید کی اہم ترین گواہی یہ ہے کہ سیاستدان مکار ہیں۔ سیاستدانوں کے تقریروں کے دھوکے میں مت آ۔ ان کی میٹھی میٹھی باتوں اور ہمدردی کے دو بول سے متاثر مت ہونا کیونکہ یہ صرف آپ کو ابزار اور وسیلہ قرار دیتے ہیں جب کہ آپ سے معمولی برابر بھی ہمدردی نہیں رکھتے۔
یہ شہید کی سب سے بڑی گواہی ہے۔ کیونکہ تشیع کی طاقت کو انہی سیاستمداروں نے مکر و فریب سے لیا ہوا ہے۔
کچھ بے بصیرت اور حس پرست شیعہ افراد کی وجہ سے بھی تشیع کی امیدیں انہی حکمرانوں سے لگی ہوئی ہے۔
لیکن شہید کا اہم ترین کام یہ ہے کہ ملت کو ان مکار سیاستمداروں سے جدا کرے۔

کوئٹہ کے مقدس اور پاکیزہ شہدا نے ایک بڑا کام یہ کیا ہے کہ ملت تشیع کے سامنے ان حسین اور مقدس نما چہروں کو نمایاں کیا ہے۔
ان افراد کو بھی نمایاں کیا ہے کہ جو ان کو نواز شریف کے مقابلے میں ایک شیعہ پسند لیڈر کے طور پر پیش کرچکے تھے۔
لیکن ان شہدا کے مقدس لہو نے ان مکار چہروں کو بے نقاب کیا۔
کل تک وہ شیعہ جو عمران خان کے گھن گھاتے تھے آج شہدا کی شہادت اور گواہی نے ان پر عمران کے مکروہ چہرے سے پردہ ہٹایا ہے۔ اب وہ خود عمران کے مخالف ہوگئے ہیں۔
شہدا کی اہم ترین گواہی یہ ہے کہ تشیع کو کبھی بھی موجودہ نظام سیاست سے نجات نہیں مل سکتی۔
کیونکہ اس نظام سیاست میں انسانی خون سے زیادہ ووٹ بینک اہم ہے۔ لہذا شہدا کے قاتلوں نے چونکہ اس حکومت کو بنانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے لہذا ان قاتلوں کو سزا تو دور ان کے خلاف بات بھی نہیں کرسکتے۔
یہ اہم ترین پیغام شہید ہے۔ کہ نظام جمہوریت کہ جس میں عوام محور ہوں اور عوام کے ووٹ سے حکومت بنتے ہوں وہاں کبھی بھی انصاف فراہم نہیں ہوسکتا کیونکہ جو مجرم ہوتا ہے وہ حکومت کے طرفدار ہوتے ہیں۔ اگر حکومت عدالت برپا کرے تو یہ اس کی آخری حکومت ہوگی۔ کیونکہ عدالت کی وجہ سے ووٹر اس کے مخالف ہوجاتے ہیں۔ لہذا مظلوم مظلوم ہی رہتا ہے۔ اسے انصاف تو دور انصاف کے بارے میں سوچنے بھی نہیں دیتے۔
آج کی شہادت اور حکومت کا سکوت اس بات کا گواہ ہے کہ نظام جمہوریت میں انسان کا سودا، انصاف کا سودا اور خون کا سودا ووٹ سے ہوجاتا ہے۔
شہدا کی جنازے چند دنوں سے روڈ پر یہ چیخ چیخ کر تشیع کو کہہ رہے ہیں کہ نظام جمہوریت یہی ہے کہ ہمارے قاتلین کو صرف ووٹ بینک بچانے کیلئے آزاد رکھا ہوا ہے۔

شہدا کا یہ پیغام مسلسل جاری ہورہا ہے۔
مخصوصا یہ چند شہید واقعا بہت مقدس ہیں۔
ان شہدا اور دیگر شہدا میں فرق ہے۔ خدا نے ان کو مقدس کام کیلئے چنا ہے۔
وہ کام یہ ہے کہ تشیع کو ایک انقلاب و تحول کی طرف دے گئے ہیں۔
تشیع کو جمہوریت و سیاسی اتحادیوں کے روئیے دکھائے ہیں۔
درحقیقت ان شہدا نے تشیع پر اتمام حجت کیا ہے۔ آج کے بعد کسی بھی شیعہ کو حق نہیں پہنچتا کہ اس بانجھ نظام سیاست کیلئے تگ و دو کرے۔ بلکہ ایک پاکیزہ نظام کی طرف جانے کا کہہ رہی ہے۔
کیونکہ چھ دن سے جنازے دفن نہیں ہوئے۔ نہ ملک کا وزیر اعظم شہدا کے سامنے حاضر ہوئے
اور نہ انصاف فراہم ہوا۔
یہ دو عمل تشیع کیلئے ایک نقطہ عطف ہے۔
یہ کام ان شہدا نے انجام دیا ہے۔
بہرحال تشیع اس پیغام کو لے لے اور نظام عادلانہ کی طرف حرکت کرے کہ جس میں انسانوں کو احترام اور انصاف ملے۔
شہدا کی گواہی کے مطابق جمہوریت انسانیت کیلئے انصاف فراہم کرنے سے باجھ ہے۔

تحریر: محمد روح اللہ

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=7536