پانچویں حضرت امام رضا (ع) عالمی کانگریس کے لئے مجتہدین اور فقہاء کے پیغامات
علامہ امین شہیدی نے کہا کہ ہمارے ہاں فکری اور نظریاتی تربیت کا فقدان ہے لہذا ہمیں اس طرف زیادہ متوجہ رہنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے نوجوان مضبوط ہوں۔ نوجوانوں کو تنظیمی بنانے سےزیادہ تربیت یافتہ بنانے کی ضرورت ہے، یعنی تربیت کے نتیجہ میں ایسے نوجوان سامنے آئیں جو حقیقی معنوں میں موحد بھی ہوں اور علیؑ کے شیعہ بھی۔
علامہ امین شہیدی نے کہا کہ عبودیت کے اصل فلسفہ کو سمجھنے کے بعد ہی انسان کمال کے مرتبہ کو حاصل کر سکتا ہے۔ محض کثرتِ سجدہ اور داڑھی انسان کی پرہیزگاری کو ثابت نہیں کرتے۔ عبودیت انسان کی طلب ہے، اس کی انجام دہی میں کوتاہی انسان کو بے چین و مایوس رکھتی ہے
انہوں نے کہا کہ انسان کا تعلق خواہ کسی بھی تنظیم سے ہو، نعرہ بازی اس کی جوانی کا تقاضہ ہے لیکن آئی ایس او کے نوجوان صرف نعرہ بازی پر یقین نہیں رکھتے بلکہ شعور، آگہی اور معنویت کے ساتھ فرنٹ لائن پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ پچاس سال گزر جانے کے باوجود بھی یہ پچیس سالہ جوان کی مانند ہے۔
علامہ امین شہیدی نے کہا پاکستان میں اسلام دشمن قوتوں نے ڈالرز خرچ کر کے فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دی، آج صورتحال یہ ہے کہ پاکیزگی، معنویت، تقدس، خدا پرستی اور محبت کے جذبات پر عناد، عدم برداشت اور شدت پسندی حاوی ہے۔ معاشرہ کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے اس قدر دور کر دیا گیا ہے کہ کھلے عام فحاشی کے پھیلائے جانے پر اعتراض نہیں ہوتا لیکن میلاد کی محافل پر پابندی یا عزاداری کے جلوس کو روکنے کے لئے ایک پورا گروہ کھڑا ہو جاتا ہے۔
علامہ امین شہیدی نے کہا کہ عمران خان کے بیانیہ اور موقف کو مضبوطی ملے گی اور وہ پہلے سے بہتر پوزیشن میں نظر آئیں گے۔ اس وقت حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ہے۔
علامہ امین شہیدی نے شہادت کے مفہوم کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ شہید ظاہری طور پر اپنا لہو بہاتا ہے لیکن معنوی طور پر وہ مقامِ بلند اور شعور کی اعلی منزل تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ عام طور پر ایک انسان کی تربیت و تزکیہ کے حوالہ سے کہا جاتا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں ایسے پاکیزہ اور تربیت یافتہ لوگوں کا پایا جانا ممکن نہیں جو عملی طور پر اہل بیت اطہار علیہم السلام یا اولیاء اللہ جیسی زندگی گزار سکیں۔
انہوں نے کہا کہ دین اسلام کا دائرہ کار محض عبادات تک محدود نہیں، بلکہ اگر ہم محسوس کریں تو ازدواجی زندگی، بچوں کی تربیت، کاروبار، روزمرہ کے معمولات، کسب روزگار، حصول علم حتی کہ دشمنانِ خدا سے بغض اور دوستانِ خدا سے محبت بھی دین کے دائرہ کار میں شامل ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ گریہ، ماتم اور علمبرداری اس انداز سے کریں کہ اپنے اندر روحانی سربلندی کو محسوس کر سکیں۔ دشمنانِ نواسہ رسولؐ اس قدر خوف زدہ ہیں کہ جو کوئی بھی باروح عزاداری کا انعقاد کرتا ہے، اس کے خلاف قانونی کارروائیوں کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور ایف آئی آر کاٹی جاتی ہیں۔
علامہ امین شہیدی نے کہا کہ مذکورہ آیاتِ قرآنی کو شیعہ سنی احادیث کی روشنی میں پرکھنے کی ضرورت ہے۔ صحاحِ ستہ کی کتب میں امام مہدی آخر الزمان عجل اللہ فرج کے حوالہ سے چند مشترک باتیں بیان کی گئی ہیں۔ یہ کہ ان کا نام "مہدی" ہے، وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کی نسل سے ہیں، ان کا نمبر بارہواں ہے، وہ علی و فاطمہ علیہم السلام کے فرزند ہیں، رسول کریمؐ کے جانشین بنی اسرائیل کے خلفاء کی طرح بارہ ہوں گے وغیرہ۔